انوکھا مسافر
حکایت نمبر276: انوکھا مسافر
حضرتِ سیِّدُنا مَعْرُوْف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” ایک مرتبہ دورانِ سفر ایک وادی میں میری ملاقات ایک ایسے اجنبی سے ہوئی جو بالکل تنہاتھا۔پہنے ہوئے لباس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے اسے سلام کیا ، اس نے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا :”اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم کرے! کہا ں کا ارادہ ہے ؟” کہا:” میں نہیں جانتا ۔ ” میں نے کہا:” کیا تو نے کبھی کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو کسی نا معلوم جگہ جا رہاہو؟” کہا:”جی ہاں! میں انہیں میں سے ایک ہوں۔” میں نے کہا: ”پھر بھی تمہارا کہاں کا ارادہ ہے ؟”کہا :” مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا۔” میں نے کہا:” تُو مکہ شریف کی نیت کئے ہوئے ہے لیکن تُو جانتا نہیں کہ کس طرف جانا ہے ؟” اس نے کہا:” ہاں !واقعی ایسا معاملہ ہے کیونکہ بارہا ایسا ہوا کہ میں مکہ شریف کے قصد سے چلا لیکن”طَرَسُوْس” پہنچ گیا۔ اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں طَرَسُوْس کی طرف چلا لیکن” مکہ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْمًا” پہنچ گیا۔ اور ایسابھی ہوا کہ میں بصرہ کی طرف چلا لیکن کسی اور مقام پر جا پہنچا ۔ایسے معاملات میرے ساتھ ہوتے رہتے ہیں ، اس مرتبہ بھی مکہ شریف کے قصد سے چلا ہوں، دیکھو! اب کہاں پہنچتا ہوں ۔”
میں نے کہا:” تمہارے کھانے کا انتظام کیسے ہوتا ہے ؟” کہا:” یہ معاملہ ایک کریم کے ذمۂ کرم پر ہے۔ جب وہ مجھے بھوکا رکھنا چاہتا ہے تو کھانا موجود ہونے کے باوجود میں بھوکا ہی رہتا ہوں۔ جب کھلانا چاہتا ہے تو بغیر کھانے کے بھی میں سیر ہو جاتا ہوں۔ کبھی وہ میری عزت افزائی فرماتا ہے تو کبھی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے یہ غیبی آوازسنواتا ہے: ” اے چور ! زمین پر تجھ سے بڑا شریر کوئی نہیں۔ ” اور کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہے: ” زمین پر تیری مثل کوئی نہیں اور نہ ہی تجھ سے بڑھ کر کوئی زاہد ہے ۔” میرا مالک کبھی تو مجھے بہترین بستر پر سُلاتا ہے، کبھی اس سے دور پھینک کر و یران جگہوں میں سلاتا ہے۔” میں نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے! وہ کون ہے جس کے متعلق تو گفتگو کر رہا ہے؟” کہا: ”وہ تمام جہانوں کا پالنے والا ،خدائے بزرگ وبَرتَر ہے، اس نے مجھے ایسے سمندر میں ڈال دیا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔” اتنا کہہ کر وہ شخص زار وقطاررونے لگا، مجھے اس پر بڑا ترس آیایہاں تک کہ اس کے رونے نے مجھے بھی رُلادیا ۔ پھر میں نے آس پاس کی تمام وادیوں سے رونے کی آواز سنی
حالانکہ بظاہر وہاں کو ئی شخص موجود نہ تھا۔ میں نے حیران ہوکر اس سے کہا: ”اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے، میں تیرے علاوہ دیگر رونے والوں کی آوازیں بھی سن رہا ہوں ، یہ آوازیں کہا ں سے آرہی ہیں ؟” کہا:”کچھ جِنّات میرے گہرے دوست ہیں، جب بھی میں روتا ہوں وہ بھی میرے ساتھ رونے لگ جاتے ہیں ۔”
حضرتِ سیِّدُنامَعْرُوف کَرْخِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :”اتنا کہنے کے بعد وہ شخص وہاں سے غائب ہوگیااورمیں اکیلا حیران وپریشان کھڑا رہا۔ اس وقت میں اپنے آپ کو بہت کمتر محسوس کر رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ نمودار ہوا تو میں نے کہا:”مجھے ذرا تفصیل سے بتا ؤ کہ تمہارے ساتھ یہ معاملات کیوں اور کیسے ہوتے ہیں ؟” یہ سن وہ بہت گھبرایا اور چونک کر بڑے سخت لہجے میں کہا : ” اے چور !کیا تومیرے اور میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان رکاوٹ بننا چاہتا ہے، خدائے بُزُرْگ و بر تر عَزَّوَجَلَّ اور اس کی عزت کی قسم! میں اپنا رازہرگز اس کے علاوہ کسی اور کو بتا نا پسند نہیں کرتا ۔ اتنا کہہ کر وہ بندۂ خدا دوبارہ غائب ہوگیا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ رَبُّ العزَّت اپنے بندو ں کو طر ح طر ح کی صفات سے مُتَّصِف فرماتااور طر ح طر ح سے ان پر اپنی رحمتیں نچھاور فرماتاہے۔ کسی کو رُلاتا ہے تو کسی کو ہنساتا ہے۔ کبھی خوشیوں سے دامن بھر دیتا ہے تو کبھی رنج وغم میں مبتلا فرمادیتاہے۔ کبھی بھوک وپیاس کے ذریعے اپنے اولیاء کے درجات بلند فرماتا ہے توکبھی ایسی ایسی جگہ سے رزق کے خزانے عطا فرماتا ہے جہاں سے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ بہترین انسان وہی ہے جو اس کی رضا پر راضی رہے اور اس کے حکم پر اپنی تمام خواہشات قربان کر دے۔ جو خوش نصیب ایسا کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں سُرخرو ہوجاتے ہیں اور ہر قدم پر کامیابی ان کے قدم چوم لیتی ہے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اپنی دائمی رضا سے مالا مال فرمائے اور ناشکر ی سے بچائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)