اسلام

الحُبُّ فِی اللہ وَالْبُغْضُ فِی اللہ

الحُبُّ فِی اللہ وَالْبُغْضُ فِی اللہ

(۱)’’عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ أَیُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللَّہِ تَعَالٰی قَالَ قَائِلٌ الصَّلَاۃُ وَالزَّکَاۃُ وَقَالَ قَائِلٌ الْجِہَادُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللَّہِ تَعَالٰی الْحُبُّ فِی اللَّہِ وَالْبُغْضُ فِی اللَّہِ‘‘۔ (1)
حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے پسندیدہ ہے ؟ کسی نے کہا نماز اور زکوۃ، کسی نے کہا جہاد ، حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ’’الْحُبُّ فِی اللَّہ وَالْبُغْضُ فِی اللَّہ‘‘ہے یعنی خدا ہی کے لیے کسی سے محبت کرنا اور خدا ہی کے لیے کسی سے بیزار رہنا۔ (احمد، ابوداود)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’ایں جا اشکال می آرند کہ چوں روا باشد کہ حب فی اللہ محبوب تر از صلاۃ وزکوۃ وجہاد باشد وحال آنکہ اینہا افضل اعمال اند علی الاطلاق۔ جو ابش آنکہ ہر کہ محبت لِوَجْہِ اﷲ دارد او محبت خواہد داشت انبیاء واولیاء وصالحاں از بندگانِ خدارا۔ ولابد اتباع واطاعت خواہد کرد ایشاں را وکسیکہ دشمن داشت از برائے خدا دشمن خواہد داشت دشمنان
یعنی یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ حُبُّ فی اللَّہ کا نماز ، زکوۃ اور جہاد سے زیادہ محبوب ہونا کیسے صحیح ہوگا؟ جب کہ یہ چیزیں علی الاطلاق تمام اعمال سے افضل ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے گا وہ انبیائے کرام ، اولیائے عظام اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت کرے گا اور ان لوگوں کی پیروی و فرمانبرداری بھی ضرور کرے گا( اس لیے کہ محبت کے لیے اطاعت لازم

دین را وبذل مجہود خواہد نمود در جہاد وقتال ایشاں۔ پس دریں جاہمہ طاعات از نماز وزکوۃ وجہاد وجز آں در آمد وچیز ے بدر نہ رفت گویا فرمود اصل ومبنی و مدار اعمال وطاعاتحُبّ لِلَّہِ وَالْبُغْضُ لِلَّہِ است‘‘۔ (1)
ہے ) اور جو شخص کہ خدائے تعالیٰ کے لیے دشمنی کرے گا تو دین کے دشمنوں سے یقینا دشمنی کریگا۔ گویا حضور نے فرمایا کہ اعمال و طاعات کا مدار اور جڑ بنیادحُبُّ لِلَّہِ اوربُغْضُ لِلَّہِہے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد چہارم ص ۱۳۸)
(۲)’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لأَبِیْ ذَرٍّ یَا أَبَا ذَرٍّ أَيُّ عُرَی الْإِیْمَانِ أَوْثَقُ؟ قَالَ اﷲُ وَرَسُوْلُہُ أَعْلَمُ قَالَ اَلْمُوَالَاۃُ فِی اللَّہِ وَالْحُبُّ فِی اللَّہ وَالْبُغْضُ فِی اللَّہِ‘‘۔ (2) (بیہقی)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے ابوذر سے فرمایا کہ اے ابو ذر! ایمان کی کون سی گرہ زیادہ مضبوط ہے ؟ عرض کیا اللہ و رسول کو اس کا بہتر علم ہے ۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے آپس میںدوستی رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی کو دوست بنانا اور کسی کو دشمن سمجھنا۔ (بیہقی)
(۳)’’عَنْ أَبِیْ رَزِیْنَ أَنَّہُ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَ لَا اَدُلُّکَ عَلَی مِلَاکِ ھَذَا الْأَمْرِ تُصِیْبُ بِہِ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ عَلَیْکَ بِمَجَالِسِ أَھْلِ الذِّکْرِ وَإِذَا خَلَوْتَ فَحَرِّکْ لِسَانَکَ مَاسْتَطَعْتَ بِذِکْرِ اللَّہِ وَاَحِبَّ فِی اللَّہِ وَاَبْغِضْ فِی اللَّہِ‘‘۔ (3)
حضرت ابور زین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رو ایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃوالسلام نے ان سے فرمایا کیا میں تجھے دین کی وہ بنیاد نہ بتادوں جس کے ذریعے تو دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کرلے ۔ ( پہلی بات تو یہ ہے کہ) اہلِ ذکر یعنی اللہ والوں کی مجلسوں میں بیٹھنا اپنے لیے لازم کرلے ۔ اور جب تنہائی میسر آئے تو جس قدر ممکن ہوسکے خدائے تعالیٰ کی یاد میں اپنی
زبان ہلا اور خدائے تعالیٰ ہی کے لیے دوستی کر اور اسی کے لیے دشمنی کر ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!