واقعات

عارِفین کی شان

حکایت نمبر 407: عارِفین کی شان

حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عبداللہ زَرَّادعلیہ رحمۃ اللہ الجواد کا بیان ہے: میں نے حضرت سیِّدُنا ذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے سُنا:”بے شک اللہ ربُّ العزَّت کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ جنہوں نے پہلے خطا کے درخت لگائے جن کی جڑیں دلوں میں قائم ہوگئیں پھر توبہ کے آنسوؤں سے انہیں سیراب کیا تو ان کوندامت و پریشانی اور غم کے پھل حاصل ہوئے ۔ وہ لوگ بغیر جنون کے دیوانے ہوگئے۔ نیکی کے معاملے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا۔ نہ کسی کو دھوکہ دیا نہ ہی انہیں گمراہی و دھوکے کا سامان کرنا پڑا۔ بے شک ان میں ایسے فُصَحاء، بُلَغاء اور خوش بخت لوگ بھی ہیں جو اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی معرفت و محبت رکھتے اور احکامِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ کو پہچانتے ہیں۔ انہوں نے اخلاص کے خالص جام پئے ، بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کیا یہاں تک کہ اپنے خدائے قدو س کی عظمت و بزرگی کے بحرِناپیدا کنار کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر جبروت کے پردوں کے گرد گھومنے لگے۔ انہوں نے ندامت و خجالت(یعنی شرمندگی) کے سائبان تلے اپنی خطاؤں کے صحيفے پڑھے اور اپنے اوپر خوف اورگریہ وزاری کو لازم کر لیا۔
جب وَرَعْ (یعنی تقویٰ) کی سیڑھی کے ذریعے مقامِ زہد تک پہنچ گئے توپھر دُنیا کو ترک کردینے کی کڑواہٹ بھی انہیں شیریں محسوس ہونے لگی۔ کُھردرے لباس اور بستروں کو انہوں نے نرم محسو س کیا یہاں تک کہ وہ سلامتی اور نجات کی رسی کو تھام کر کامیاب ہوگئے۔ ان کی روحیں عالَم بالا کی سیر کرنے لگیں تو وہاں انہوں نے نعمتوں والے باغات کو اپنا مقام پایا۔ وہاں انہوں نے

نسیم کے پھل چُنے۔جب زندگی کے سمندر میں گھسے تو جزع و فزع اور شکایتوں کی خندقوں کو بندکیااور شہوات کے پل کو عبورکیا۔جب علم کے میدان میں ٹھہرے تو وہاں سے حکمت کے موتی حاصل کئے ۔پھر عقلمندی و ہوشیاری کے سفینے میں سوار ہو کر سلامتی کے سمندر میں اترے تو فلاح وکامرانی کی ہواؤں نے انہیں راحت و سکون کے باغات اور عزت و کرامت کے خزانوں میں پہنچادیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!