تمہیدی تجلیاں
پندہا دادیم حاصل شد فراغ ما علینا یا اخی الا البلاغ
بزرگانِ دین کی کرامتوں کا نورانی تذکرہ یوں تو ہر دور میں ہمیشہ ہوتارہا ہے اوراس عنوان پر تقریباً ہرزبان میں کتابیں بھی لکھی جاتی رہیں مگر اس زمانے میں اس کا چرچابہت زیادہ بڑھ گیا ہے ،چنانچہ تجربہ ہے کہ اکثر واعظین کرام اپنے مواعظ کی محفلوں میں اوربیشتر پیران کبار اپنے مریدین کی مجلسوں میں بزرگان دین کے کشف وکرامات ہی کے ولولہ انگیز ذکر جمیل سے گرمیٔ مجالس کا سامان فراہم کیا کرتے ہیں اور سامعین ایک خاص جذبہ تأثرکے ساتھ سنتے اورسردھنتے رہتے ہیں اوربعض مصنفین اورمضمون نگار بھی اس عنوان پر اپنی قلم کاریوں کے جوہر دکھا کر عوام سے خراج تحسین حاصل کرتے رہتے ہیں اوراس میں ذرابھی شک نہیں کہ بزرگان دین کی کرامتوں کا تذکرہ ایک ایسا مؤثر اوردلکش مضمون ہے کہ اس سے روح کی بالیدگی ، قلب میں نور ایمان اوردل ودماغ کے گوشہ گوشہ میں ایمانی تجلیوں کا سامان پیداہوجاتاہے۔ جس سے اہل ایمان کی اسلامی رگوں میں ایک طوفانی لہراوربدن کی بوٹی بوٹی میں جوش اعمال کا ایک عرفانی جذبہ ابھرتا محسوس ہوتاہے۔اس لئے میرانظریہ ہے کہ دورحاضر میں بزرگان دین کی عبادتوں ، ریاضتوں اوران کی کرامتوں کا زیادہ سے زیادہ ذکر وتذکرہ اوران کا چرچا مسلمانوں میں جوش ایمان اورجذبۂ عمل پیدا کرنے کا بہت ہی مؤثر
ذریعہ اورنہایت ہی بہترین طریقہ ہے ۔
لیکن تذکرۂ کرامات کے سلسلہ میں میرے نزدیک ایک سانحہ بہت ہی حیرت ناک بلکہ اتنہائی المناک ہے کہ متأخرین اولیاء کرام بالخصوص مجذوبوں اور باباؤں کے کشف وکرامات اور خاص کر دور حاضر کے پیروں کی کرامتوں کا تو اس قدر چرچا ہے کہ ہر کوچہ وبازار بلکہ ہرمکان ودکان، ہوٹلوں اورچائے خانوں میں ، کتابوں اور رسالوں کے اوراق میں ہرجگہ اس کا ڈنکا بج رہا ہے اورہر طرف اس کی دھوم مچی ہوئی ہے ، مگر افسوس صدہزار افسوس کہ امت مسلمہ کا وہ طبقہ علیا جو یقینا تمام امت میں ”افضل الاولیاء”ہے یعنی ”صحابہ کرام” رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کی ولایت وکرامت کا کہیں بھی کوئی تذکرہ اورچرچا نہ کوئی سناتا ہے نہ کہیں سننے میں آتا ہے ، نہ کتابوں اور رسالوں کے اوراق میں ملتاہے، حالانکہ ان بزرگوں کی ولایت وکرامت کا عظیم درجہ اس قدر بلند وبالاہے کہ اگر تمام دنیا کے اگلے اورپچھلے اولیاء کو ان کے نقش قدم چوم لینے کی سعادت نصیب ہوجائے تو ان کی ولایت وکرامت کو معراجِ کمال حاصل ہوجائے۔ کیونکہ درحقیقت تویہی حضرات مدارولایت وکرامت ہیں کہ ان کے نقش پاکی پیروی کے بغیر ولایت وکرامت تو کجا ؟کسی کو ایمان بھی نصیب نہیں ہوسکتا ۔ یہ لوگ بلاواسطہ آفتاب رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے نورِ معرفت حاصل کر کے آسمانِ ولایت میں ستاروں کی طرح چمکتے اورگلستانِ کرامت میں گلاب کے پھولوں کی طرح مہکتے ہیں اور تمام دنیا کے اولیا ء ان کی ولایت کے شاہی محلات کی چوکھٹ پر بھکاری بن کر نور معرفت کی بھیک مانگتے رہتے ہیں ۔
اللہ اکبر!یہ وہ فضیلت مآب اورمقدس ہستیاں ہیں جوحضورانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
والہ وسلم کے جلال وجمال نبوت کو اپنی ایمانی نظروں سے دیکھ کر اورحبیب خدا عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے شرف صحبت سے سرفرازہوکر خوش بختی اورنیک نصیبی کے بادشاہ بلکہ شہنشاہ بن گئے اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے معزز لقب سے سربلند ہوکر تمام اولیاء امت میں اسی طرح نظر آرہے ہیں جس طرح ٹمٹماتے ہوئے چراغوں کی محفل میں ہزاروں پاورکا جگمگاتاہوابجلی کا بلب یا ستاروں کی برات میں چمکتاہواچاند۔
افسوس کہ نہ تو ہمارے واعظین کرام نے اپنی تقریروں میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی کرامتوں کو بیان کیا نہ ہمارے مشائخ عظام نے اپنے مریدوں کو اس سے آگاہ کیا ، نہ ہمارے علماء اہل سنت نے اس عنوان پر کبھی قلم اٹھانے کی زحمت گواراکی، حالانکہ رافضیوں کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ اس عنوان پرلکھنے اوراس کا تذکرہ اورچرچا کرنے کی ضرورت تھی اورآج بھی ہے کیونکہ ہماری غفلتوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے عوام جانتے ہی نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی اولیاء ہیں اوران بزرگوں سے بھی کرامتوں کا صدور وظہورہواہے۔
درحقیقت ایک عرصہ دراز سے میرا یہ تأثرمیرے دل کا کانٹابنا ہوا تھا چنانچہ یہی وہ جذبہ ہے جس سے متأثر ہوکرمیں اپنی کوتاہ دستی اورعلمی کم مائیگی کے باوجود فی الحال ایک سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس حالات اوران کے کمالات وکرامات کا ایک مجموعہ بصورت گلدستہ ناظرینِ کرام کی خدمت میں نذر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔ جو”کرامات صحابہ ”رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سیدھے سادھے نام سے موسوم ہے ؎
گرقبول افتدزہے عزوشرف
سچ پوچھئے تو درحقیقت میری نظر میں یہ کتاب اس قابل ہی نہیں تھی کہ اس کو منظر عام پر لاؤں کیونکہ اتنے اہم عنوان پر اتنی چھوٹی سی کتاب ہرگزہرگز عظمت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے شایان شان نہیں ہے، مگر پھریہ سوچ کر کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دربار عظمت میں پھول نہ سہی تو کم سے کم پھول کی ایک پنکھڑی ہی نذر کرنے کی سعادت حاصل کرلوں، اس کتاب کو چھاپنے کی ہمت کرلی ہے ۔ پھر یہ بھی خیال آیا کہ شاید مجھ کم علم کی اس کاوش قلم کو دیکھ کر دوسرے اہل علم میدان تصنیف کی جولان گاہ میں اپنی قلم کاری کے جوہر دکھائیں تو اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ (1)کی سعادت مجھے نصیب ہوجائے گی۔
میں نے اس کتاب میں حضرات خلفائے راشدین وحضرات عشرۂ مبشرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سوادوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ناموں اورتذکروں میں قصداً کسی خاص ترتیب کا التزام نہیں کیا ہے، بلکہ دورانِ مطالعہ جن جن صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی کرامتوں پر نظر پڑتی رہی ،ان کو نوٹ کرتا رہا۔یہاں تک میری نوٹ بک بڑھتے بڑھتے ایک کتاب بن گئی کیونکہ میرا اصل مقصود تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی کرامتوں کا تذکر ہ تھا ۔ خواہ صغار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ذکر پہلے ہو یاکبارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اس سے اصل مقصد میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔
تدوین کتاب کے بارے میں عزیز محترم مولانا قدرت اللہ صاحب مدرس دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کاممنون ہوکر ان کے لیے دعا گوہوں کہ انہوں نے اس کتاب کے چند اجزاء کے مسودوں کی تبییض کر کے میرے بارِ قلم کو کچھ ہلکا کردیا۔
اسی طرح اپنے دوسرے مخلص تلامذہ خصوصاً اسعدالعلماء مولانا الحاج مفتی سید احمدشاہ بخاری مبلغ افریقہ ساکن ونجھان ضلع کَچھ اورمولانا سید محمد یوسف شاہ خطیب جامع مسجد چوک بھوج ضلع کَچھ اورمولانا عبدالرحمن صاحب مدرس مدرسہ اہل سنت کوٹھارا ضلع کچھ کا بھی بہت بہت شکر گزار ہوں کہ ان مخلص عزیزوں نے ہمیشہ میری تصانیف کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا اورمیری کتابوں کی اشاعت میں کافی حصہ لیا ۔
فَجَزَا ھُمُ اللہُ تَعَالٰی اَحْسَنَ الْجَزَاء.
آخر میں دعاگوہوں کہ خداوند کریم اپنے حبیب علیہ الصلوۃ والتسلیم کے طفیل میں میری اس حقیر علمی وقلمی خدمت کو اپنے فضل وکرم سے شرف قبولیت عطافرمائے اوراس کو میرے لیے اورمیرے والدین واساتذہ وتلامذہ واحباب سب کے لئے سامان آخرت وذریعۂ مغفرت بنائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْمُ اٰمِیْن بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْمُ
اٰمِیْن یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
اٰمِیْن یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
طالب دعا
عبدالمصطفیٰ الاعظمی عفی عنہ
دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول
براؤں شریف ضلع بستی یو۔پی۲۵شوال ۱۳۹۸ھ
1۔۔۔۔۔۔بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا بھلائی کرنے والے کی طرح ہے۔