توحید ذاتی :
توحید ذاتی :
اس کے بعد توحید ذاتی ہے مگر عموماً اس سے تعلق ہونامشکل ہے ، کیونکہ ذاتِ الٰہی کوعالَم سے کوئی تعلق نہیں ، چناچہ ارشاد ہے ان اللہ غنی عن العالمین ۔ اور قطع نظراس کے اس کاثبوت یو ں ہو سکتا ہے کہ عالم کا ذرہ ذرہ خداے تعالیٰ کا محتاج ہے ، مگر اس کو دیکھنا چاہئے کہ وہ احتیاج کیسی ہے ؟ پہلے پہل ہر چیز خداے تعالیٰ کی طرف اس وجہ سے محتاج ہے کہ اس کو وجود میں لائے ۔ ادنیٰ تامل سے ظاہر ہو سکتاہے کہ یہ احتیاج نفس ذات کی طرف نہیں بلکہ خالق کی طرف سے جو اسم الٰہی ہے جس میں صفت خالقیت معتبر ہے ۔ علی ہذا القیاس ہر شئے اپنی بقاء میں محتاج ہے سویہ احتیاج بھی نفس ذات کی طرف نہیں بلکہ حافظ کی طرف ہے جو صیغہ ،صفت سے ۔علیٰ ہذا القیاس کل احتیاجیں صفات یا افعال سے متعلق ہیں ۔ اسی وجہ سے جار مجرور کا تعلق فعل سے ہوتا ہے یا شبہ فعل سے ، یعنی فعل الٰہی سے یا صفت الٰہیہ سے ۔
ربّ
یہ لفظ مضاف ہے ۔ اس کا اصل ’’ربب‘‘ تھا دوحرف ایک جنس کے جمع ہوئے ،پہلے کو ساکن کرکے دوسرے میں ادغام کیا گیا ’’رب‘‘ ہوا ۔یعنی پہلا با ،دوسرے میں چھپ گیا ۔ شانِ ربوبیت خالق کا مقتضیٰ یہی تھاکہ خود ظاہر نہ ہو اور مربوب یعنی جس کی پرورش مقصود ہے اس کوظاہر کر دے ۔
دیکھئے جب کسی کو رزق دیا جاتاہے تو اس کے آثار چہرہ سے نمایاں ہو تے ہیں، اور تمام قوتیں اور جسم گواہی دیتاہے کہ روزی مل گئی ،مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے دی ؟ یوں تو خدا اور رسول کے ارشاد سے معلوم ہو گیا کہ رزق دینے والا وہی خداے تعالیٰ ہے مگر وجدانی طورپر یہ بات معلوم نہیں ہوتی ،اسی وجہ سے جب نگاہ پڑتی ہے توا پنے ہی پر پڑتی ہے کہ ہم نے اپنے قوت بازو سے رزق حاصل کیا یا کسی غلہ سے حاصل ہوا یاکسی آدمی نے دے دیا ۔ غرض کہ خداے تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اس طرح چھپا یاکہ کسی کو معلوم ہی نہ ہو ،جس طرح لفظ رب میں پہلا ’’ب‘‘ چھپا ہواہے اس کی صورت محسوس ہے نہ علامات یہاں تک کہ اس کا نقطہ بھی نظر نہیںآتا اور نمایاں ہے سووہی ایک دوسرا ’’ب‘‘ ہے ۔مگر لفظ رب اشارتاً کہہ رہا ہے کہ اگر ہائے اول نہ ہوتا تو یہ قوت او ر شدت جو مدغم فیہ میں محسوس ہے وجود ہی میں نہ آتی ہر چند پہلا ’’ب‘‘ بالکل چھپا ہوا ہے مگر جو عقلاء ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ درباطن اسی کی حرکت معنوی کا ظہور ہے،جس طرح تمام عالم کی حرکت او رقوت گواہی دے رہی ہے کہ بغیر رب العالمین کی ربوبیت کے مجال نہیں کہ کوئی حرکت کر سکے ۔
لغت میں رب کے معنی مالک، مدبر ، مربی ، ولی اور نعمت دینے والے کے ہیں۔مثلاً ’’رب المال ‘‘ مالک مال کو کہتے ہیں ،اور فیسقی ربہ خمرا ًمیں رب کے معنی سردار کے ہیں ،اور حدیث شریف میں اللہم رب ھذ ہ الدعوۃ التامۃ میں رب کے معنی زیادہ کرنے والے اور اتمام کرنے والے کے ہیں ،اور ایک قراء ت میں یہ آیت شریفہ پڑھی گئی ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی یعنی قیامت کے روز روح کو حکم ہوگا کہ ’’اپنے صاحب یعنی قالب کی طرف رضامندی کے ساتھ رجوع کر اور میرے بندہ میں داخل ہوکر میری جنت میں چلی جا ‘‘،یہاں رب کے معنی صاحب کے ہیں ۔
قبیلہ ثقیف نے ایک بڑے پتھر کا بت بنا لیا تھا جس کانام ’’لات‘‘ تھا اور اس کو الربۃ بھی کہتے تھے ۔ اسی طرح نجران میں مدحج اور بنی الحارث نے ایک گھر کعبہ کے مقابلے میں بنایا تھا اس کو وہ ’’دارربہ ‘‘ کہتے تھے ،یہاںربہ کے معنی بڑے اور ضخیم کے ہیں ،یہ گھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے توڑا گیا ۔
اور’’ ربوبیت ‘‘ اور ’’ربابت‘‘ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی پرورش ۔اور ربابت کے معنی مملکت کے بھی ہیں نسبت کے وقت ’’ربوبی ‘‘ کہتے ہیں ، چناچہ کہا جا تاہے ’’علم ربوبی ‘‘ ۔اور جب مبالغہ مقصود ہوتاہے تو الف و نون زیادہ کرکے ’’ربانی ‘‘کہتے ہیں ،اور ’’ربانی ‘‘ عابد اور عارف باللہ شخص کو کہتے ہیں ۔