اسلام
(18) بَیْعَت توڑنے والے کی اصلاح
(18) بَیْعَت توڑنے والے کی اصلاح
حضرت مولانا سید ایوب علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا بیان ہے :” صبح 9یا 10 بجے کا وقت ہوگا، میں اور برادرم قَنَاعت علی پھاٹک میں کام کررہے تھے کہ ایک نوجوان صاحبز ادے بحیثیت مسافر تشریف لائے اور سلام کرکے ایک طرف خاموش بیٹھ گئے۔ ہم لوگوں نے دولت خانہ دریافت کیا، فرمایا :” میرٹھ کا رہنے والا ہوں۔” پوچھا:” کیسے آناہوا؟” اس پر وہ بے اختیار رونے لگے، بار بار دریافت کیا جاتا مگر انکشاف نہ ہوتا تھا۔ بالآخر بہت اِصرار کے بعد فرمایا:” میں امام اہلِ سنت، مجددِ دین وملت،پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمن کامرید ہوں۔اس سال جب میں سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز حسن سنجری اجمیری علیہ رحمۃاللہ القوی کے عر س مبارک میں
حاضرہواتو وہاں ایک بُزُرگ سے ملا۔ بعض لوگوں نے مجھ سے کہا :” تم ان بزرگ کے مرید ہوجاؤ!” میں نے کہا:”میں توامام اہلِ سنت، مجددِ دین وملت،پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت ،سرکاراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمن سے بیعت ہوں” انہوں نے کہا: ”وہاں تم شریعت میں بیعت ہوئے ہو، یہاں طریقت میں بیعت ہوجاؤ۔” چنانچہ میں ان لوگوں کی باتوں میں آکر ان بزرگ کا مرید ہوگیا۔ جب سویاتوخواب میں دیکھا کہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت تشریف لائے، چہرۂ اَنور پر جلال نمایاں تھا مجھ سے فرمایا:”لا ہمارا شجرہ واپس کردے!” اتنے میں آنکھ کھل گئی۔بس اسی روز سے میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ پڑھائی بھی چھوڑ دی ۔ ہر وقت دل یہی چاہتا ہے کہ دھاڑیں مار مار کرخوب روؤں۔ ہم لوگوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:” آپ گھبرائیں نہیں! ظہر کے وقت اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت تشریف لائیں گے، بعد نماز عرض کردیجئے کہ تجدیدِ بیعت کے لئے حاضر ہوا ہوں”۔ یہ سن کر ان کو کچھ سکون ہوا۔
اتنے میں دیکھا کہ اسی وقت خلاف معمول اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت باہر تشریف لائے اور صاحبزادے سے فرمایا: ”آپ کیسے آئے؟ یہ سن کرہمیں بہت تعجب ہوا، اس لئے کہ عادتِ کریمہ یہ تھی کہ ہر نَووَارِد سے دریافت فرماتے : ”آپ نے کیسے تکلیف فرمائی؟” بہر حال صاحبزادے نے حضرت کے دریافت کرنے
پر بجز رونے کے کچھ جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور نے پھر فرمایا:” رونے سے کوئی نتیجہ نہیں، مطلب کہیے!” اس پر انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا: ”میرے پاس کس لیے آئے ہیں؟” یہ سن کروہ صاحبزادے پھر رونے لگے اور جو ترکیب ہم لوگوں نے بتائی تھی اس کے کہنے کی انہیں جرأت نہ ہوئی۔ اس کے بعد حضور یہ فرماتے ہوئے تشریف لے گئے کہ” آپ قیام کریں مجھے کام کرنا ہے۔” ہم نے نوجوان کو تسلی دیتے ہوئے کہا:” آپ ڈریں نہیں اور نمازِ ظہر کے وقت تجدیدِ بیعت کے لئے عرض کردیں۔” بعد نماز ِظہر پیر طریقت رہبرشریعت اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت جب اپنی نشست گاہ پر جلوہ گر ہوئے تواس نوجوان نے تجدیدِ بیعت کے لئے عرض کی۔ آپ رحمۃاللہ تعالی علیہ نے ارشاد فرمایا: ”جب آپ وہاں بیعت ہوچکے ہیں پھر مجھ سے کیوں کہا جاتا ہے؟ عرض کی :”حضور !مجھ سے قصور ہواہے اپنے قصور کی معافی چاہتا ہوں، لوگوں کے بہکانے میں آگیا تھا۔” فرمایا:” خوب غور کرلو! سوچ لو! سمجھ لو! مجھے مرید کرنے کا شوق نہیں ہے مگر یہ کہ لوگ صراطِ مستقیم پر قائم رہیں، یہ ٹھیک نہیں کہ آج اِس دروازہ پر کھڑے ہیں، کل اُس دروازہ پر،یَک دَرْگِیر مُحْکَم گِیر۔ ”انہوں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی:”حضور!اب ایسا ہی ہوگاخداکے لئے میری خطا معاف فرمادیجئے۔” یہ سن
کرآپ رحمۃاللہ تعالی علیہ نے انہیں داخلِ سلسلہ فرمالیااوروہ صاحبزادے خوشی خوشی واپس تشریف لے گئے۔ (حیات اعلی حضرت ،ج۳،ص۱۹۵)
جومرکزہے شریعت کا مدار اہلِ طریقت کا جو محور ہے طریقت کا وہ قطب الاولیا تم ہو
یہاں آکر ملیں نہریں شریعت اورطریقت کی ہے سینہ مجمع البحرین ایسے رہنما تم ہو
تمہاری شان میں جو کچھ کہوں ا س سے سوا تم ہو قسیمِ جامِ عرفاں اے شہ احمد رضا تم ہو
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اعلٰی حضرت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد