اسلام

حساس دل شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔نیازؔ جیراجپوری

حساس دل شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔نیازؔ جیراجپوری
ڈاکٹرغلام ربانی فداؔ
مدیر جہان نعت ہیرور

کبھی اک پَل کو بھی خود سے جُدا ہونے نہیں دیتا
نہ جانے کون ہے کیسا ہے مجھ میں اک بشر زِندہ
جیراجپورایک سر سبز و شاداب مقام ہے اور اس مقام کی انفرا دیت یہ بھی ہے کہ یہ شعر و ادب کا ایک اچھا مرکز بن گیا ہے یہاں نہ صر ف اچھے لکھنے والے موجود ہیں بلکہ یہاں کے عوام میں ایک صحت مند ادبی ذوق بیدار پایاجاتاہے ۔ 
ادب کی اس سر زمین سے ایک جو اں سال شاعر نیاز جیراجپوری ؔ  اپنے پہلے شعر ی  تخلیقات کے ساتھ ادبی اُفق پر نمو دار ہو ا نہ صرف اپنی شناخت ایک شاعر کی حیثیت سے منوائی بلکہ اپنی بے باک صحافت کے ذریعے اپنی پہچان بھی بن چکے ہیں۔
  ان کی خدمات اعتراف بہت پہلے ہی ہوجانا چاہیئے تھا مگر برا ہو ہماری بیماری ذہنیت کا ۔ہم مردہ پرست قوم ہیں جو بعد مرگ کف افسوس ملتے ہیں۔
 نیاز جیراجپوری ؔ کے کلام کے مطالعہ سے میں نے یہ بخوبی اند ازہ لگا لیاہے کہ یہ چشمہ ایک دن ضرور ایک دریامیںتبدیل ہوجائے گا۔ چند غزلیں وموضواعاتی کلام میرے مطالعہ میں ہیں اور گا ہے ماہے ملکی  اخبارات ورسائل میں ان کی تخلیقات نظر سے گذرتی ہیں اور توجہ طلب ہوتی ہیں ۔  
 اُردو کے بیشتر شعر اء کی طرح نیاز جیراجپوری  ؔکی شاعر ی توجہ طلب ہوتی ہیں ۔  

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 اُردو کے بیشتر شعر اء کی طرح نیاز جیراجپوری  ؔنے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل ہی سے کیا ہے ۔ گوکہ ان کے اثاثے میں موضوعاتی کلام، قطعات ، آزاد نظم وغیرہ بھی شامل ہیں 
نیاز جیراجپوری ؔکی شاعری کو پڑ ھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ان کی شاعری میں ایک سچا اور حقیقی شاعر نشو نما پارہا ہے ۔ نیاز جیراجپوری ؔ   کو اُردو زبان پر مکمل قدرت ضرور حاصل ہے 
ہلکی پھلکی بحروں میں ان کا نرم لب و لہجہ بڑا ہی دلکش معلوم ہوتا ہے ۔ ان کی عمرکی لحاظ سے ان کے کلام کو عروضی اور لسانی اعتبار سے جانچنامیرے خیال میں قبل از بات ہوگی ۔
 جبکہ ہمارے یہاں دھڑا دھڑ جو مجموعے منظر عام پر آرہے ہیں اُن کے آئینے میں مشاق شعر اء کا کلا م بھی عیوب و اسقام سے ہر گزر پاک نہیں ہے ۔ 
نیاز جیراجپوری ؔ کے چند اشعار نے تو بیک نظر میری توجہ کو جذب کر لیاہے اور ان کے کلام میں وہ خوبیا ں ضرور موجود ہیں جو اُردو غزل کی بہترین روایات کی مظہر ہیں اور سنجیدہ ترین اوصاف کی حامل ہیں ۔ اُن کے تازہ غزلیہ کلام میں چند ایسے اشعار قابلِ توجہ ہیںجن کو مُشتے از خر وارے کے طور پر پیش کر رہا ہوں ۔ جن سے اُن کے مزاج و آہنگ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
خون خرابہ حیوانیت دہشت گردی چاروں اور
آہ و فغاں بربادی تباہی افرا تفری چاروں اور
بھیس میں اِنسانوں کے درِندے حملہ آور ہوتے ہیں
اُف ! یہ درِندے کر سکتے ہیں کبھی بھی کُچھ بھی چاروں اور
اِنسانیت ہوتی ہی رہتی ہے پامال ارے توبہ !
دیکھی نہ جائیں پھر بھی دیکھیں لاشیں بِکھری چاروں اور
بقول شخصے:
غزلیہ شاعری دھنک رنگوں سے عبارت ہے۔ اردو غزل کے آسمان میں چاند تاروں کے ساتھ کہکشاں کی سجاوٹ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا دامن وسعت افلاق سے کم نہیں۔ نیاز جیراجپوری کی غزلیہ شاعری رنگ تغزل سے آراستہ ہے۔ ان کے یہاں روایت کے ساتھ عصر سے بھر پور استفادہ ملتا ہے۔ 
یہ شعر واقعی بڑے خوبصورت ہیں ملاحظہ فرمایئے

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

رستے میں روشنی ہے دِیا کون رکھ گیا
رُک جائیں اور اُس کا بھی گھر دیکھتے چلیں
بے ٹِھکانہ کبوتر کو مِل جائے گھر
کاش! ہٹ جائے اِک اِینٹ دیوار سے
 انتظار کی کیفیت کو بڑ ے سلیقہ سے پیش کیا ہے ۔ 
اک جھلک اپنی دِکھا کر آشنا سا اجنی
لے گیا آنکھوں سے نیند اور رَت جگا رہنے دِیا
اُس کے آنے کی گھڑی آئی نہیں
تھم گئی ہے وقت کی رفتار کیا
نیاز جیراجپوری ؔ کے یہ اشعار اُن کے خوش آئیند مستقبل کے ضامن ہیں ۔ زندگی کے حقائق کو ہلکے پھلکے انداز میں چھو ٹی چھوٹی بحروں میں سمونا نیاز جیراجپوری ؔ کا کمال ہے ۔
ہر غزل میں زندگی کے اقدارکی عکاسی اور تجر بوں کا نچوڑ ملتا ہے ۔ ایک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ روایت کا پاسدار بھی ہو اور جدید تقاضوں کا شعور بھی رکھتا ہو۔نیاز جیراجپوری ؔ کے کلام میں ایسے بے شمار اشعار ملتے ہیں ۔
یکھتے ہر زاویہ سے ہیں مگر آتا نہیں
زندگی کے آئینہ میں کچھ نظر آتا نہیں
آپ خُوش ہیں میری خوشیاں لُوٹ کر
ایسا بھی ہوتا ہے بھائی جان کیا
جَھن جَھنا اُٹّھے ہیں دِل کے تار کیا
ہو گئیں آنکھیں کِسی سے چار کیا
  یہ جُرّ اتِ گفتا ر کا اقرار اور عزم شاعرکی ذہنی سطح کی بلندی کا پتہ دیتی ہے  ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 نیاز جیراجپوری  ؔ   کے تازہ رنگ ِ سخن کا آئینہ دار ہے۔میری رائے میں نیاز جیراجپوری  ؔ کی شاعری میںایک نئے ارتقائی قدم کی چاپ سنائی دیتی ہے ۔یہ تازہ رنگ و نکھار آگے چل کر کس حد تک بار آور اور خود نیاز جیراجپوری  ؔ کیلئے کتنا مبارک و مسعود ثابت ہوگا ۔ اسکے بارے میں کہنا مستقبل کے ادبی مورخ یا نقادکے ہاتھ سے قلم چھین لینے کے مترادف ہوگا ۔
میری خواہش تھی کہ تفصیلی مضمون تحریر کروں مگر اپنی کچھ کاہلی اور کچھ اپنی مصروفیات نے ساتھ نہ دیا۔ ان شاء اللہ مستقبل میں کفارہ ادا کرنے کی کوشش ہوگی۔
 میں نیاز جیراجپوری ؔ کے روشن مستقبل کے لئے بدرگاہِ رب العزّت دُعا گوہوں اور اُمید کرتا ہوں کے قارئین ان گُہر ہا ئے بیش بہا سے ضرورفیضیاب ہوسکیں گے ۔   

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!