اسلام

موت کی ماہیت

موت کی ماہیت

موت کیا ہے؟ کیا موت نیستی‘ نابودی‘ فنا اور انہدام کا نام ہے یا تحول و تغیر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقلی کو موت کہتے ہیں؟


یہ سوال شروع سے بشر کے سامنے تھا اور ہے‘ ہر شخص اس کا براہ راست جواب جاننا چاہتا ہے یا دیئے گئے جوابات پر ایمان اور اعتقاد پیدا کرنا چاہتا ہے۔

ہم مسلمان قرآن پر ایمان اور اعتقاد رکھتے ہیں‘ اس لئے اس سوال کا جواب بھی قرآن ہی سے حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اس نے اس بارے میں کہا ہے‘ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

قرآن کریم نے موت کی ماہیت سے متعلق ایک خاص عبارت میں خصوصی جواب دیا ہے۔

قرآن کریم نے موت کے بارے میں لفظ توفیٰ استعمال کیا ہے اور موت کو ”توفیٰ“ قرار دیا ہے۔

توفیٰ اور استیفاء دونوں کا مادہ ”وفاء“ ہے۔

جب کوئی کسی چیز کو پورا پورا اور کامل طور پر بغیر کم و کاست کے حاصل کر لے‘ تو عربی میں اس کے لئے لفظ توفیٰ استعمال کیا جاتا ہے۔

عربی میں ”توفیت المال“ کا مطلب ہے کہ میں نے تمام مال بغیر کمی بیشی کے پا لیا۔

قرآن کریم کی چودہ آیات میں موت کے لئے لفظ توفیٰ استعمال ہوا ہے‘ ان تمام آیات سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ موت قرآن کی نظر میں قبضے میں لینا ہے‘ یعنی انسان موت کے وقت اپنی تمام شخصیت اور حقیقت سمیت اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی تحویل میں چلا جاتا ہے اور وہ انسان کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔

قرآن کے اس بیان سے ذیل کے مطالب اخذ ہوتے ہیں:

(الف) مرگ‘ نیستی‘ نابودی اور فنا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے اور ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف منتقلی ہے‘ جس سے حیات انسانی ایک اور شکل میں جاری رہتی ہے۔

(ب) وہ چیز جو انسان کی حقیقی شخصیت کو تشکیل دیتی ہے اور اس کی حقیقی ”میں“ (خودی) شمار ہوتی ہے‘ وہ بدن اور اس کے مختلف حصے وغیرہ نہیں کیونکہ بدن اور اس کے اعضاء کسی اور جگہ منتقل نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ اسی دنیا میں گل سڑ جاتے ہیں۔ جو چیز ہماری حقیقی شخصیت کو بناتی ہے اور ہماری حقیقی ”میں“ سمجھی جاتی ہے‘ وہی ہے جسے قرآن میں کبھی نفس اور کبھی روح سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(ج) روح یا نفس انسانی جسے انسان کی شخصیت کا حقیقی معیار قرار دیا گیا ہے اور جس کی جاودانی ہی سے انسان جاوداں ہے۔ مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مادہ اور مادیات کے افق سے بہت بالا ہے۔ روح یا نفس اگرچہ طبیعت کے کمال جوہری کا ماحصل ہے‘ لیکن چونکہ طبیعت‘ جوہری تکامل کے نتیجے میں روح یا نفس میں تبدیل ہوتی ہے‘ لہٰذا اس کا مرتبہ اور حقیقی مقام تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ایک اعلیٰ سطح پر قرار پاتی ہے‘ یعنی اس کی جنس کو ماوراء طبیعت عالم سے شمار کیا جاتا ہے‘ موت کی وجہ سے روح یا نفس عالم مادی سے عالم روح کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موت کے وقت اس ماوراء مادہ حقیقت کو واپس اپنی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی بعض ایسی آیتیں جن میں انسانی خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور وہ معاد اور اخروی زندگی سے متعلق نہیں‘ اس چیز کی نشاندہی کی ہے کہ انسان میں آب و گل کی جنس سے ماوراء ایک اور حقیقت موجود ہے۔ آدم اول کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

ونفخت فیہ من روحی(سورئہ حجر‘ آیت ۲۹)

”ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونکا۔“

روح‘ نفس اور موت کے بعد روح کی بقاء کا مسئلہ معارف اسلامی کے بنیادی مسائل سے ہے۔

ناقابل انکار معارف اسلامی کا تقریباً نصف حصہ‘ روح کی اصالت‘ بدن سے اس کا استقلال اور موت کے بعد روح کی بقاء پر ہے‘ جس طرح سے انسانیت اور حقیقی انسانی قدریں بھی اسی حقیقت پر استوار ہیں اور اس کے بغیر یہ سب چیزیں وہم محض ہی ہیں۔ تمام ایسی قرآنی آیات جو موت کے فوراً بعد زندگی پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں‘ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن روح کو بدن سے مستقل اور فناء بدن کے بعد اسے باقی تصور کرتا ہے۔ ان میں سے بعض آیات کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔ بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ قرآن کی رو سے روح یا نفس کچھ بھی نہیں‘ انسان مرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے‘ یعنی موت کے بعد شعور‘ ادراک‘ خوشی و تکلیف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی‘ البتہ جب قیامت کبریٰ کا وقوع ہو گا اور انسان کو نئی زندگی ملے گی‘ تب انسان اپنا اور دنیا کا شعور پائے گا۔

لیکن وہ آیات جو صراحتاً موت کے فوراً بعد کی زندگی کو بیان کرتی ہیں۔ اس نظریے کے باطل ہونے پر قطعی دلیل ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ روح کے قائلین کی دلیل صرف ”قل الروح من امر ربی“ والی آیت ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں کئی جگہ لفظ روح استعمال ہوا ہے‘ اس سے مراد کچھ اور ہے۔ یہ آیت بھی اسی معنی پر دلالت کر رہی ہے۔

یہ لوگ نہیں جانتے کہ قائلین روح کی دلیل یہ آیت نہیں بلکہ تقریباً ۲۰ دوسری آیات ہیں‘ البتہ یہ آیت دوسری آیات کی مدد سے جن میں روح کا ذکر مطلق آیا ہے یا روح کے ساتھ اور کوئی قید جیسے ”روحنا“، ”روح القدس“، ”روحی“، ”روح من امرنا“ وغیرہ‘ لیکن اسی طرح سے انسان کے بارے میں نازل شدہ آیات ”ونفخت فیہ من روحی“ بھی نشاندہی کر رہی ہے کہ قرآن کی نظر میں ایک حقیقت ایسی موجود ہے جو ملائکہ اور انسان سے اعلیٰ و ارفع ہے‘ جسے روح کہتے ہیں۔ ملائکہ اور انسان کی واقفیت امری یعنی روح اسی کے فیض اور اذن کا نتیجہ ہے۔

روح سے متعلق تمام آیات اور آیت ”و نفخت فیہ من روحی“ جو انسان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں‘ نشان دہی کر رہی ہیں کہ انسانی روح ایک غیر معمولی حقیقت ہے۔(تفسیرالمیزان‘ جلد ۱۳‘ ص ۱۹۵‘ آیت: وقل الروح من امر ربی اور جلد ۳‘ ص ۲۷۵‘ آیت: یوم یقوم الروح و الملائکة صفا کی تفسیر دیکھئے)

فقط قرآن ہی متعدد آیات میں اصالت روح پر دلالت نہیں کرتا بلکہ کتب حدیث‘ دعا اور نہج البلاغہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام نے بھی متواتراً اس بات کی تائید کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ روح کا انکار مغرب کا ایک متعفن اور کثیف خیال ہے‘ جس کا سرچشمہ ان کی مادیت اور محسوسات کی طرف میلان ہے۔

افسوس ہے کہ قرآن کریم کے بعض حسن نیت رکھنے والے پیروکاروں کو بھی یہ خیال دامن گیر ہو چکا ہے۔

اب ہم نمونہ کے طور پر ان چند آیات کا ذکر کریں گے‘ جن میں موت کو توفیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ ان میں سے بعض آیات میں بلافاصلہ موت کے بعد کچھ بنیادی اعمال کو انساں سے نسبت دی گئی ہے (جیسے مکالمہ‘ تمنا اور تقاضے) ان چار آیات میں سے تین کا ہم ذکر کریں گے‘ جن میں ”توفیٰ“ استعمال کیا گیا ہے:

(۱) ان الذین توفھم الملائکة ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض‘ قالو الم تکن ارض اللہ واسعة فتھا جروا فیھا فا اولئک ماوا ھم جھنم وساء ت مصیراً(سورئہ نساء‘ آیت ۹۸)

”بیشک ان لوگوں کو جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے‘ فرشتوں (خدا کے بھیجے ہوئے مامورین) نے کامل طور پر اپنے قبضے میں لیا۔ فرشتوں نے ان سے پوچھا: یہ تم کس حال میں مبتلا تھے‘ وہ کہیں گے کہ ہم زبوں حال لوگ محیط اور معاشرے کے زیردست اور محکوم تھے‘ فرشتوں نے ان سے پوچھا: کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم اور ان کا انجام برا ہے۔“

یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کہ نامساعد حالات میں زندگی گذار رہے تھے۔ جب کہ کچھ لوگ ان حالات اور معاشرے کو اپنی مرضی سے چلا رہے تھے اور یہ کمزور لوگ اپنے محیط اور معاشرے کے محکوم تھے۔ اب اسی بات کو بطور عذر پیش کر رہے ہیں کہ حالات نامساعد تھے‘ معاشرہ فاسد تھا اور ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ یہ لوگ بجائے اس کے کہ اپنے معاشرے اور محیط کو تبدیل کریں اور اگر تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے‘ تو خود کو ایسے فاسد معاشرے کی دلدل سے بچانے کی کوشش کریں اور کسی بہتر اور اچھے محیط و معاشرہ میں چلے جائیں‘ جبکہ وہ اسی معاشرے میں رہے اور اپنے آپ کو اسی معاشرے کے حالات کے سپرد کر دیا اور معاشرے کی برائیوں میں غرق ہو گئے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ان کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان سے گفتگو کر رہے ہیں اور ان کے عذر کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے کم از کم وہ کام بھی انجام نہ دیا‘ جو ان کے بس میں تھا‘ یعنی کسی بہتر معاشرے کی طرف ہجرت نہیں کی‘ فرشتے انہیں سمجھا رہے ہیں کہ جو ظلم تم پر ہوا اس کے ذمہ دار خود تمہی ہو‘ یعنی اپنے گناہوں کے مسئول تم خود ہو۔

قرآن کریم اس آیت میں ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ (کسی معاشرے میں) بیچارگی اور ناتوانی قابل قبول عذر نہیں بن سکتی‘ مگر یہ کہ ہجرت اور کسی اور علاقے میں چلے جانے کے دروازے بھی بند ہوں‘ جیسا کہ نظر آ رہا ہے‘ اس آیت کریمہ میں موت کو کہ جو ظاہر میں نیستی‘ نابودی اور ختم ہونا ہے۔

توفیٰ یعنی تحویل میں لینے اور مکمل طور پر پا لینے سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہ صرف یہ تعبیر بلکہ باقاعدہ طور پر موت کے فرشتوں اور انسان کے درمیان مکالمہ‘ گفتگو اور احتجاج کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ واضح ہے کہ اگر انسان کی حقیقت باقی نہ ہو اور انسان کی تمام تر حقیقت لاشہ بے حس و شعور سے عبارت ہو‘ تو مکالمہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

یہ آیت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ انسان جب اس جہان اور اس عالم سے چلا جاتا ہے‘ تو ایک اور طرح کی آنکھ‘ کان اور زبان کے ذریعے سے ایک نامرئی مخلوق یعنی فرشتوں سے گفت و شنید کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔

(۲) وقالوا اذا ضللنا فی الارض ائنالفی خلق جدید بل ھم بلقاء ربھم کافرون‘ قل یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون(سورئہ سجدہ‘ آیت ۱۱)

”انہوں نے کہا کہ جب ہم مٹی میں مل چکے ہوں گے‘ تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے؟ (یہ باتیں بہانہ ہیں) حقیقت یہ ہے یہ (ازروئے عناد) اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ کہہ دو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے‘ تم کو پورے کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا‘ پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا دیئے جاؤ گے۔“

اس آیت میں قرآن کریم‘ معاد اور حیات اخروی کے منکرین کے ایک اعتراض اور اشکال کو ذکر کر کے اس کا جواب دے رہا ہے۔

اشکال یہ ہے کہ ”موت کے بعد ہمارا ہر ذرہ نابود ہو گا اور ہمارا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا“ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں۔
قرآن ان اعتراضات کو از روئے عناد اور انکار‘ بہانہ بازی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارے مدعا کے برعکس تمہاری حقیقت اور واقعیت وہ نہیں‘ جسے تم سمجھتے ہو کہ مٹ جاتا ہے‘ بلکہ تم تو اپنی تمام تر حقیقت اور واقعیت کے ساتھ اللہ کے فرشتے کی تحویل میں چلے جاتے ہو۔
معترضین کے ”فنا اور نابود“ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہمارے بدن کا ہر ذرہ اس طرح بکھر جاتا ہے کہ اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا‘ پھر ایسے بدن کو دوبارہ کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے؟
عیناً یہی اعتراض یعنی اجزائے بدن کا متفرق اور گم ہو جانا قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی مذکور ہے اور اس کا دوسرا جواب بھی دیا گیا ہے‘ وہ یہ کہ اس طرح کا گم ہونا آپ کی نظر میں گم ہونا ہے‘ بشر کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ ان ذرات کو جمع کر لے‘ مگر خدا کے لئے مشکل نہیں‘ جس کا علم قدرت لامتناہی ہے۔
مذکورہ آیات میں منکرین کی گفتگو براہ راست اجزائے بدن کے بارے میں ہے کہ کیسے اور کہاں سے جمع ہو سکیں گے؟ لیکن یہاں اور جواب دیا ہے کیونکہ یہاں سوال صرف یہ نہیں کہ اجزائے بدن نابود ہوں گے اور ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملے گا‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ اجزائے بدن کے گم ہو جانے سے ”ہم“ گم ہو جائیں گے اور پھر ”میں“ اور ”ہم“ کا وجود کہیں نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں معترضین کا اشکال یہ ہے کہ اجزائے بدن کے نابود ہونے سے ہماری حقیقت واقعیہ معدوم ہو جائے گی۔
قرآن جواب میں یوں فرما رہا ہے ”تمہارے گمان کے برخلاف“ تمہاری حقیقی اور واقعی شخصیت کبھی گم ہی نہیں ہوتی‘ جو تلاش کی ضرورت پڑے‘ وہ تو پہلے ہی سے اللہ کے فرشتوں کے قبضے میں ہوتی ہے۔
اس آیت میں بھی کمال صراحت کے ساتھ انسان کے اجزائے بدن کے فنا ہونے کے باوجود اس کی حقیقت واقعیہ یعنی روح کی موت کے بعد بقاء کا تذکرہ ہے۔
(۳) اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منا مہا فیمسک التی قضیٰ علیھا الموت و یرسل الاخری الیٰ اجل مسمیٰ ان فی ذالک لآیات لقوم یتفکرون
(سورئہ زمر‘ آیت ۴۲) 
”خداوند عالم نفسوں کو موت کے وقت اور جو ابھی نہیں مرا‘ اسے نیند کے موقع پر مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے‘ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے‘ اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک معین وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔“
یہ آیت نیند اور موت میں مشابہت کو بیان کر رہی ہے۔ ضمنی طور پر بیداری اور اخروی حیات میں مشابہت کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔
نیند‘ خفیف اور چھوٹی موت ہے اور موت‘ شدید اور بڑی موت ہے‘ دونوں مراحل میں انسانی روح اور نفس کا ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف انتقال ہے۔
اس فرق کے ساتھ کہ نیند کی حالت میں انسان غالباً غفلت میں ہوتا ہے اور بیداری کے بعد اسے نہیں معلوم ہوتا کہ حقیقتاً وہ ایک سفر سے لوٹا ہے‘ موت کی حالت کے برعکس کہ جس میں ہر چیز اس پر واضح ہوتی ہے۔
تینوں آیات میں سے کاملاً سمجھا جا سکتا ہے کہ موت کی حقیقت قرآن کی رو سے نیستی‘ نابودی اور فنا ہونا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے۔ ضمنی طور پر نیند کی ماہیت اور حقیقت بھی قرآنی نکتہ نگاہ سے واضح ہو گئی ہے کہ نیند اگرچہ جسمی و ظاہری لحاظ سے طبیعت کی قوتوں کی تعطیل کا نام ہے‘ لیکن روحانی اور نفس کے لحاظ سے باطن و ملکوت کی طرف ایک طرح کا رجوع اور گریز ہے۔
سائنس کی نظر میں نیند کا مسئلہ بھی موت کے مسئلہ کی طرح مجہول الحقیقت ہے‘ اس سلسلے میں سائنس صرف یہ کہتی ہے کہ نیند جسمانی انفعالات کا نام ہے‘ جو بدن کے قلمرو میں متشکل ہوتے ہیں۔

مرتضی مطہری

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!