اسلام

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کا تشکیل کردہ نظام قضاۃ

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کا تشکیل کردہ نظام قضاۃ

از: حضرت قاضی انجمؔ عارفیؒ،
 سابق معتمد انجمن قضاۃ و ناظر القضاۃ، آندھراپردیش وقف بورڈ

نظام قضاۃ علاقہ تلنگانہ میں تقریباً دو سو سال سے نافذ و مروج ہے۔ سابق ریاست حیدرآباد (مرہٹواڑہ) و (حیدرآباد۔ کرناٹک) میں بھی یہی عمل رہا اور ابھی تک یہی عمل درآمد ہے اور متعلقہ وقف بورڈ امور قضاء ت کا نگرانکار ہے۔ ہندوستان میں اس نظام کو مغلیہ دور میں کافی استحکام پہنچا۔ قضاۃ کے نام ذریعہ اسناد معاشیں از قسم جاگیر، انعام، مقطعہ، نقدی وغیرہ عطا کی گئیں تاکہ قاضی صاحبان فکر معاش سے بے نیاز ہوکر مذہبی خدمات انجام دیں چنانچہ توریث، طلاق و خلع کے ہر نازک سے نازک مسئلہ پر منصفانہ فیصلے ہوتے رہے۔
مغلیہ دور کے بعد جب انگریزوں کی عملداری شروع ہوئی تو انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں میں ’’قاضیوں‘‘ کی اہمیت و عزت ہے جو سوسائٹی کے اہم فرد کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ انہوں نے مسلمانوں میں ان کے اثرات کم کرنے اور ملت کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لیے قاضی صاحبان سے عدالتی اختیارات چھین لئے اور نظام قضاۃ میں انتشار پیدا کیا۔ مغلیہ دور کے زوال کے بعد انگریزوں کی اس شاطرانہ چال کے باوجود متحدہ ہندوستان میں سلطنت آصفیہ کے علاقہ میں اس قانون کا نفاذ کیا جاسکا چنانچہ فرمان مبارک کے ذریعہ اس نظام کو شرعی حدود کے اندر قانونی حیثیت دی گئی اور امور قضاء ت کی انجام دہی کے لیے محکمہ صدارت العالیہ قائم کیا جاکر ایک عہدہ دار ’’صدر الصدور‘‘ مقرر کیا گیا، اس محکمہ کے زیر نگرانی احکام و گشتیات کے ذریعہ نظام قضاء ت پروان چڑھتا رہا اور اس نظام کو نشاۃ ثانیہ ملی۔ بانی جامعہ نظامیہ حضرت انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور احکام شرع شریف کی روشنی میں سیاہہ عقد مرتب کیا اور تنقیحات نکاح قائم کئے تاکہ احکام شرع شریف کی خلاف ورزی کا کوئی احتمال باقی نہ رہے اور بلااجازت قاضی، تکمیل عقد کو تعزیرات آصفیہ کے تحت قابل سزا قرار دیا جاکر اسے قانونی شکل دی گئی۔ یہاں تک احتیاط برتی گئی کہ قاضی صاحبان و نائبین کو ناخواندہ اشخاص کے ذریعہ آلات علامات ابہام لیے جانے کی محکمہ نظامت کوتوالی اضلاع (صیغہ ایریشن) میں باضابطہ ٹریننگ دی جاکر صداقت نامہ اجراء کئے جاتے تھے تاکہ حقوق توریث میں کسی قسم کی غلطی کا احتمال نہ رہے اور شائد حضرت فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی دوررس نظر نے موجودہ دور کے حالات کا اندازہ کرلیا تھا کہ ملکوں کے فاصلے کم سے کم ہوجائیں گے۔ نئے نئے ملکی قوانین بنائے جائیں گے تو ایسی صورت میں نکاح کے لیے بھی تحریری ثبوت کی نوبت آئے گی چنانچہ سیاہہ کے تین پرت بنائے گئے جو آج بھی رائج ہیں جو اصل دفتر قضاء ت، مثنے دفتر وقف بورڈ اور مثلت محکمہ ڈائرکٹر اسٹیٹ آرکیوز حکومت اے پی تارناکہ روانہ کئے جاتے ہیں۔ 
گشتی محکمہ صدارت العالیہ ممالک محروسہ سرکار عالی
(برائے جدید ترتیب سیاہ نامہ)
واقع ۱۰؍آذر ۱۳۲۶؁ف
منجانب مولوی محمدؐ انوار اللہ خان بہادر صدر الصدور صوبجات دکن 
خدمت جملہ قاضی صاحبان ممالک محروسۂ سرکار عالی
مقدمہ
انتظام ترتیب سیاہجات ملک سرکار عالی 
بسلسلہ گشتی نشان (۴) واقع ۲؍محرم ۱۳۳۱؁ء بمقدمہ صدر نگارش ہے کہ اگرچہ گشتی مذکورہ کے ذریعہ سیاہہ نکاح کا نمونہ روانہ کرکے حکم دیا گیا تھا کہ آئندہ سیاہجات نمونۂ منسلکہ کے موافق مرتب ہوا کریں۔ مگر اب بعد تجربہ اس امر کی ضرورت داعی ہوی کہ ترمیم نمونۂ سابقہ دوسرا نمونہ وضع کیا جائے۔ چنانچہ بعد ترمیم واضافۂ ضروری جو نمونہ تجویز کیا گیا ہے اوس کو زیر نگرانی محکمۂ ہذا طبع کرا کے بصورت رجسٹر آپ صاحبوں کی خدمات میں روانہ کیا جاتا ہے اور حسب ذیل ہدایات اس کے متعلق صادر کئے جاتے ہیں۔ 
ف۱: ہر رجسٹر میں دس دس ورق اور ہر ورق میں تین تین پرت (اصل، مثنی ، مثلث) شامل ہیں جس کے ہر ورق (یعنی اصل ومثنی ومثلث تینوں پرت) پر صرف ایک ہی سیاہہ لکھا جائے گا۔ گویا ہر رجسٹر میں دس دس سیاہجات مندرج ہونگے۔
الف۔ اصل پرت تو رجسٹر میں محفوظ رہیگا بقیہ دو پرت میں سے مثنی محکمۂ صدارت میں اور مثلث مقامی عدالت میں بھیجدیا جائے گا۔
ف ۲: یہہ رجسٹراوس علاقۂ قضاء ت میں جہاں عقد نکاح سالانہ دس ہوتے ہوں ایک کافی ہوسکیگا لیکن جہاں دس سے زیادہ ہوتے ہوں وہاں بہ لحاظ تعداد نکاح رجسٹرات کی ضرورت ہوگی اور نشان سلسلہ اون میں اسطرح ڈالا جائے گا کہ پہلی جلد میں (۱) سے (۱۰)تک۔ اور دوسری میں (۱۱) سے (۲۰)تک وقس علہذا۔
ف۳: ہر علاقۂ قضاء ت میں انتظام عقد خوانی کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ 
(۱) یہہ کہ تمام علاقہ میں نکاح خوانی کا کام بذات خود قاضی صاحب ہی انجام دیتے ہوں۔  
(۲) یہہ کہ قاضی صاحب خود نہیں بلکہ اونکی جانب سے کوئی اور شخص اس کام کی انجام دہی کے لئے مامور ہو۔
(۳)یہہ کہ مستقر پر قاضی صاحب انجا م دیتے اور باقی علاقہ میں قاری النکاح مقرر ہوں۔ 
الف: پہلی صورت میں تو یہی رجسٹر کافی ہے کہ قاضی صاحب خود مجلس عقد میں اس کو ساتھ لیجا کر سیاہہ کی تکمیل کریں گے اور مثنی ومثلث محکمہ صدارت وعدالت میں بھیجدیں گے۔
ب: دوسری اور تیسری صورتوں میں یہہ رجسٹر ذیلی کہلائیگا اور قاری النکاح کے حوالہ کردیا جائے گا۔ اور ایک دوسرا غیر مطبوعہ رجسٹر دفتر قضاء ت میں رکھا جائے گا جس کا نام صدر رجسٹر ہوگا۔ ذیلی رجسٹرات سے جیسے جیسے سیاہجات قاریان نکاح کے یہاں سے وصول ہوتے جائیں بمجرد وصول اس میں درج کرلئے جایا کریں نیز قاضی صاحب ذیلی رجسٹرات میں جن سیاہجات کی تکمیل اپنی ذات سے کریں اونکو بھی صدر رجسٹر میں درج کرلیں اس کے بعد صدر رجسٹر کا نشان درج کر کے سیاہجات صدارت وعدالت میں بھیج دیں۔
(ج) صدر رجسٹر میں صدر نمبر کے محاذی ذیلی نمبر کا اندراج بھی بتصریح علاقۂ قاریان نکاح ہواکرے۔
(د) صدر رجسٹر کا عنوان وہی ہوگا جو مطبوعہ کا ہے البتہ اس میں صرف ایک پرت کافی ہے نیز پشت پر تنقیحات شرعی کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اوسکا خلاصہ بدیں الفاظ کہ تنقیحات کی تکمیل کرلی گئی کوئی امر مانع نکاح نہیں، خانۂ کیفیت میں لکھدیا جائے گا۔
ف۴: ایسے تمام رجسٹرات جو قاریان نکاح کودیئے جائینگے۔ وہ ختم سال پر قاضی صاحبو نکے یہاں واپس آجائینگے اور دواماً دفتر قضاء ت میں باحتیاط تمام محفوظ رہینگے۔
ف۵: جو رجسٹرات قاریان نکاح کودیئے جائیں گو اون کے اوراق محدود ہوتے ہیں تاہم تعداد ورق کی تصریح قاضی صاحب اپنے قلم سے آخر صفحہ پر کرکے رجسٹر حوالہ کیا کریں۔ اس امر کی ذمہ داری کہ رجسٹر  یا رجسٹر کا کوئی ورق تلف ومفقود نہوگا۔ پوری طرح قاضی صاحبوں کے سررہیگی۔
الف: تکمیل سیاہہ کے وقت اس کی سخت احتیاط رہے کہ کوئی ورق محکوک ومشکوک نہو نے پائے اگر احیاناً ہوجائے تو ایسی حالت میں اصل پرت پر یہہ شرح کیجا کر (کہ یہہ سیاہہ محکمۂ صدارت کو روانہ کیا گیا) بقیہ دونوں پرت (مثنی و مثلث) راست محکمۂ ہذا میں بھیجدئیے جائیں تااون کو یہاں تلف کردیاجائے۔
ف۲: سیاہہ پرجوہدایات مرقوم ہیں اونکی پابندی سے خانہ پری کیجایا کرے۔ نیز سیاہہ کی پشت پر جوتنقیحات مندرج ہیں اونکی تکمیل نہایت صحت واحتیاط سے ہونی چاہئے چونکہ انکی تکمیل کیلئے مسائل حلت وحرمت نکاح کا وقوف از بس ضروری ہے لہذا اشخاص قاری النکاح پر لازم ہے کہ مسائل ضروریہ سے پوری طرح واقف ہوں اور ہمیشہ اون کو یاد رکھیں۔
الف: چونکہ عقد نکاح کا وقت بہت کم ہوتا ہے اسلئے سیاہہ کی خانہ پُری اور تنقیحات کی تکمیل میں عجلت ممکنہ سے کام لیا جایا کرے تاکہ کسی کو کچھ شکایت کا موقع نہ ملے۔
ب: تکمیل سیاہہ کے بعد قاضی صاحب کو اسکی جانچ کرلینی چاہئے کہ آیا بپابندی ہدایات مرقومہ سیاہہ کی خانہ پری اور صحت کے ساتھ تنقیحات کی تکمیل ہوی ہے یا نہیں اس کے بعد خانۂ کیفیت میں شرح تصدیق بالفاظ ذیل کرنی ضروری ہے ’’مسمی ……ولد ……ساکن ……… قاری النکاح علاقۂ ہذا نے میری اجازت وایماء سے سیاہہ ہذا کی تکمیل کی ہے باعتبار مسمی موصوف صحت خانہ پری کی تصدیق کیجاتی ہے‘‘۔
ج۔ اگر سیاہہ کی تکمیل خود قاضی صاحب نے کی ہوتو شرح تصدیق کی ضرورت نہیں۔ 
ف۷۔ قاریان نکاح پر لازم ہوگا کہ رجسٹر سیاہہ تکمیل سیاہہ کی غرض سے مجلس عقد میں ساتھ لیجائیں اور سیاہہ کی تکمیل خاص اسی رجسٹر میں کریں یہہ کبھی کسی حال میں درست نہوگا کہ مجلس عقد میں کسی اور کاغذ پر مسودہ مرتب کر کے پھر دوسرے وقت اوس کو رجسٹر میںلکھیں بلکہ ہمیشہ سیاہہ مجلس عقد ہی میں خاص اوسی رجسٹر میں درج کرلیا جانا چاہئے اگر باایں ہمہ کوئی صاحب خلاف ورزی کریں یعنی سیاہہ پہلے کسی سادہ پرچہ پر مرتب کر کے متعاقب اوس کو درج رجسٹر کریں تو اون سے سخت باز پرس کیجائے گی۔ 
ف۸: اگر کسی قاری النکاح کے علاقہ میں ایک ہی روز متعدد  عقد واقع ہوں اور ایک شخص ان تمام عقود کو انجام نہ دے سکے تو ایسی حالت میں ضرور ہوگا کہ قاری النکاح مامور اپنی ذمہ داری سے کسی اور شخص کو جو اس کام کا اہل ہو روانہ کردے اب رہا رجسٹر چونکہ وہ ایک ہوتا ہے جو ہر مقام پر پہنچ نہیں سکتا اسلئے مجبوراً وضرورتاً اُسکو کھولنے اور اوس کے اوراق بقدر ضرورت بہ ثبت نمبر ذیلی اشخاص مذکور کو دینے کی اجازت دیجاتی ہے مگر اس کا سخت اہتمام رہے کہ بفور تکمیل عقد ایسے اوراق واپس آجائیں اور شریک رجسٹر کر دیئے جائیں تاکہ روانگی صدر میں سہولت و آسانی ہو اور اتلاف وفقدان کا احتمال باقی نہ رہے۔
ف۹: سیاہجات کی روانگی بپابندی گشتی محکمۂ ہذانشان (۲) واقع، یکم اسفندار  ۱۲۲۳؁ف ہونی چاہئے یعنی ایک ماہ کے سیاہجات دوسرے ماہ کے دس تاریخ تک محکمۂ ہذا وعدالت مقامی میں روانہ کردیئے جایا کریں۔ اس کی ضرورت نہیں کہ ہر سیاہہ بفور تکمیل روانہ ہو کیوں کہ فرداً بھیجنے سے سرویس تکٹ کا بار اور کام کی کثرت ہوگی۔ بلکہ ہر مہینے کے سیاہہ جات ایک ساتھ تاریخ مقررہ کے اندر بھیجدیئے جاسکتے ہیں۔
ف۱۰: گشتی ہذا کے وصول کے ساتھ ہی آپ صاحبوں کا پہلا کام یہہ ہونا چاہئے کہ اپنے اپنے علاقہ قضاء ت کے سالانہ نکاحوں کی تعداد مشخص کرکے اوس کے لحاظ سے رجسٹرات سیاہہ بتر سیل زرقیمت دفتر ہذا سے طلب کرلیں اور اگر کسی صاحب کو یہی ایک رجسٹر جو اس کے ساتھ روانہ کیاگیا ہے کافی ہوجائے تو اس کی مقررہ قیمت (۴) روانہ کر کے اطلاع دیدیں کہ علاقہ ہذا میں مزید رجسٹرات کی ضرورت نہیں ہے۔
الف : چونکہ تمام وفاتر قضاۃ میں یکساں عمل اور ایک ہی طریقہ قایم رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے اسلئے طبع وترسیل رجسٹرات کا کام فی الحال محکمۂ ہذا سے متعلق رہیگا۔ چنانچہ اسوقت یہہ رجسٹرات زیر اہتمام دفتر طبع ہو کر تیارہیں جو اصل لاگت پر قاضی صاحبوں کے پاس روانہ کئے جائینگے۔
ب: اس گشتی کے اجرا کے بعد کوئی سیاہہ غیر مطبوعہ کا غذ پر مقبول نہوگابلکہ واپس کردیا جائے گا۔
ف۱۱: چونکہ سیاہہ نکاح عقد نکاح کا ایک اعلیٰ ثبوت ہے مقدمات نسب وطلاق ونکاح کا فیصلہ اکثر وبیشتر محض سیاہہ جات کی بناء پر کیا جاتا ہے۔ اور جلسہ نکاح کے شہود و وکلاء ہی ثبوت وتردید میں پیش کئے جاتے ہیں لہذا سیاہہ کی ترتیب میں خاص اہتمام اور خالص توجہ کی ضرورت ہے ۔ پس آپ صاحبوں سے امید کیجاتی ہے کہ اس اہم فریضہ کی ادائی میں خاص دلچسپی سے کام لیکر خوشنودی سرکار حاصل کرینگے ۔
فقط
   مددگار صدر الصدور
آزادی کے بعد دیسی ریاستوں کا انڈین یونین میں انضمام عمل میں آیا تو اس دور میں بھی جبکہ حیدرآباد میں بی۔ رام کشن راؤ صاحب آنجہانی کی وزارت تھی انہوں نے بھی اس نظام کی اہمیت کے پیش نظر اس کی سرکاری حیثیت کو باقی رکھا اور یہ نظام محکمہ مجلس مال (انڈومنٹ) کے تحت رکھا۔اور آج بھی ہندوستان بھر میں، آندھراپردیش کے علاقہ تلنگانہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ نظام باقی و برقرار رہنے کے علاوہ اس کا ریکارڈ اسنادی حیثیت سے محفوظ ہے اور جو عدالتوں میں قابل قبول دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ نظام علاقہ تلنگانہ میں، آج بھی موروثی ہے۔ ۱۹۵۵؁ء میں وقف بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی ۔
٭٭٭

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!