مذہب ِاہلِ سنت اصلِ دین ہے اور دوسرے مذاہب اختراعی ہیں
مذہب ِاہلِ سنت اصلِ دین ہے اور دوسرے مذاہب اختراعی ہیں
اِس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں قدیم سے جو مذہب قرناً بعد قرن چلا آ رہا ہے وہ مذہب اہل سنت و جماعت ہے اور اُس کے سوا جتنے مذاہب ہیں ،سب حادث ہیں جن کا موجد ایک ہی ایک شخص ہوا کیا ، مثلاً مذہب قدریہ کا موجد معبد جہنی ہے جو صحابہ کے زمانہ میں تھا اور جس صحابی نے اُس کی یہ بدعت سنی ،اُس سے ابرائے ذمہ کر کے اُس کی مخالفت کا اعلان کیا ،اِسی طرح مذہب اعتزال کا موجد واصل ابن عطا ہے جو تابعین کے زمانہ میں تھا ، اسی طرح کل مذاہب باطلہ کا حال ہے ،جو مذہب اہل سنت و جماعت سے علحدہ ہو کر
قرآن میں ایسی بدنما تاویلیں کرتے جو صراحۃً تحریف ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق بحسب ضرورت حدیثیں بنا لیتے اور جو حدیثیں اپنے مقصود کے مخالف تھے، اُن کو موضوع قرار دیتے یا تاویلیں کرتے ،کیونکہ نئی بات کا موجد جو تمام امت موجودہ سے علحدگی اختیار کرتا ہے ،جب تک ایسی کارسازیاں نہ کرے ، کوئی شخص اُس کا ہم خیال نہیں بن سکتا، بخلاف اِس کے اہل سنت و جماعت کو جو ہر ایک موجد کے زمانہ میں موجود تھے ،ایسی کارروائیوں کی ضرورت ہی نہ تھی ،اس سے ظاہر ہے کہ صرف اہل سنت و جماعت کا مذہب ایسا ہے جس میں کسی کے ایجاد و اختراع کو دخل نہیں ، اور یہ مسلم ہے کہ ہمارا آسمانی دین کسی کے ایجاداور اختراع کو جائز نہیں رکھتا ۔
تہتر مذہبوں میں سے اہل سنت و جماعت ناجی ہیں
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ اس دین میں تہتر (۷۳) مذہب بنائے جائیں گے ، مگر وہ کل مذاہب ناری ہیں اور ناجی ایک ہی مذہب ہے ،کسی نے پوچھا وہ کونسا مذہب ہے ؟ فرمایا :جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ’’کما فی المشکوٰۃ عن عبد اللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تفترق امتی علی ثلاثۃ و سبعین ملۃ کلہم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یا رسول قال ما انا علیہ و اصحابی رواہ الترمذی و فی معناہ ما رواہ احمد و ابوداود‘‘ اسی وجہ سے تابعین نے احادیث اور اقوال صحابہ کو محفوظ کرلیا تاکہ وہ ناجی مذہب ہاتھ سے جاتا نہ رہے اور اُن کے بعد کے طبقات میں بھی اُن کی پوری پوری حفاظت ہوتی گئی ۔ ہر چند اہل مذاہب باطلہ نے بہت کچھ فکریں کیں کہ اپنے خیالات باطلہ کو دینی مسائل اور اعتقادات میں مخلوط کر دیں، چنانچہ طلاقت لسانی سے کام لیا، بعضے سلاطین کو اپنے ہم خیال بنا کر مسلمانوں پر دباؤ ڈالا ،
جعلسازیاں کیں ،مگر بفضلہ تعالیٰ اُن کی کچھ چل نہ سکی اور اُن کے تراشیدہ خیالات دین میں ایسے ممتاز رہے جیسے دودھ میں مکھی، جن کو مسلمانوں نے نکال کر پھینک دیا اور بفضلہ تعالیٰ وہی خالص دین ہم تک برابر پہنچ گیا ۔ نحمد اللہ علی ذلک ۔
وجہ اصرارِ امام احمد بر مسئلۂ خلقِ قرآن
(۳) اگرچہ شرعاً اجازت ہے کہ جبر و اکراہ کے موقع میں زبان سے کوئی کلمۂ کفر کہہ دیا جائے تو مضائقہ نہیں جیسا کہ اِس آیہ ٔ شریفہ سے ظاہر ہے ’’من کفر باللہ من بعد ایمانہ الامن اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان و لکن من شرح بالکفر صدراً فعلیہم غضب من اللہ و لھم عذاب عظیم‘‘ اسی وجہ سے اکثر محدثین نے قرآن کے مخلوق ہونے کا زبانی اقرار کرلیا تھا اور امام احمد ابن حنبل رضی اللہ عنہ بھی اِس مسئلہ کو بخوبی جانتے تھے، باوجود اس کے آپ جو انکار کرتے رہے، اُس کی وجہ یہی تھی کہ اگر کل علماء مصلحۃً قرآن کا اقرار کرلیتے تو عوام الناس اس مصلحت کو نہ سمجھتے ،بلکہ یہ خیال کرلیتے کہ اگر یہ اعتقاد باطل ہوتا ،کوئی اس کی مخالفت کرتا اور اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ معلوم نہیں یہ طوفان بے تمیزی کب تک رہے گا، اگر ایک مدت تک یہی اعتقاد فاسد عوام الناس کے ذہن میں جما رہے، تو اہل حق کو آئندہ اُس کی اصلاح میں دشواریاں لاحق ہوں گی ۔ غرضکہ اِن خیالات سے آپ اور آپ کے چند ہم خیال محدثین نے اقسام کی سختیاں اٹھائیں، بلکہ جان تک دے دی،مگر حق بات ظاہر کرتے رہے جس سے تمام مسلمانوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ یہ مسئلہ دین میں ایسا ضروری اور مہتم بالشان ہے کہ اُس کے مقابلہ میں جان بھی کوئی چیز نہیں، چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ اسی مسئلہ پر اہل حق و باطل کا امتیاز قرار پایا ،نہایت شدومد سے احتیاط ہونے لگی ، چنانچہ حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں ’’ وھو
کلام اللہ فی صدور الحافظین والسن الناطقین و فی اکف الکاتبین و ملاحظۃ الناظرین و مصاحف اہل الاسلام والواح الصبیان حیثما رؤی ووجد فمن زعم انہ مخلوق اوعبارتہ أو التلاوۃ غیر المتلو أو قال لفظی بالقرآن مخلوق فھو کافر باللہ العظیم و لا یخالط و لا یواکل ولا یناکح و لا یحاور بل یھجرو ویھان ولا یصلی خلفہ ولا یقبل شہادتہ ولا یصح ولایتہ فی نکاح ولیہ و لا یصلی علیہ اذا مات فان ظفر بہ استتیب ثلاثاً کالمرتد فان تاب و الا قتل سئل الامام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ عمن قال لفظی بالقراٰن مخلوق فقال کفر و قال رحمہ اللہ فیمن قال القرآن کلام اللہ لیس بمخلوق أوالتلاوۃ مخلوقۃکفر‘‘ تلاوت اور متلو میں جو فرق ہے ، اہل علم خوب جانتے ہیں، مگر چونکہ عوام ایسے امور میں فرق نہیں کرسکتے ،اس لئے دونوں کا ایک ہی حکم قرار دیاگیا تھا تاکہ قرآن کے مخلوق ہونے کا کسی کو خیال بھی نہ آئے اور یہ تشدد اِس قسم کا تھا، جیسے تحریم خمر کے زمانہ میں ظروف خمر کا استعمال بھی حرام کر دیا گیا تھا ، باوجود یہ کہ امام بخاری ؒ کی جلالت شان تمام محدثین میں مسلّم ہے ،مگر جب انہوں نے یہ کہا کہ قرآن تو غیر مخلوق ہے ،مگر اُس کا تلفظ کرنا جو انسان کا فعل ہے وہ مخلوق ہے ،اتنی بات پر اُس زمانہ کے محدثین اُن سے بگڑے ،چنانچہ طبقات شافعیہ میں امام سبکیؒ نے لکھا ہے کہ جب امام بخاریؒ نیشاپور گئے تو علماء بغداد نے ذہلیؒ کو جو وہاں شیخ الشیوخ مانے جاتے تھے، لکھ بھیجا کہ محمد بن اسماعیل بخاری وہاں آتے ہیں اُن کا عقیدہ ہے کہ تلفظ بالقرآن مخلوق ہے ،ہر چند ہم نے اُن کو اِس عقیدہ سے منع کیا ،مگر وہ نہیں مانتے اس لئے سب سے کہدیا جائے کہ کوئی اُن کے پاس نہ جائے ،چونکہ امام بخاری ؒ کی شہرت ہر ملک میں تھی، نیشاپور میں آپ کی تشریف فرمائی کا حال معلوم ہوا تو آپ کے استقبال میں خلق کا ایک ہجوم تھا ۔
مذہبِ امام بخاری در مسئلۂ خلقِ قرآن
چنانچہ طبقات شافعیہ میں لکھا ہے کہ صرف وہ لوگ جو گھوڑوں پر سوار تھے ، چار ہزار تھے اور جو لوگ خچروں اور گدھوں پر سوار تھے یاپیادہ تھے ،اُن کی تو گنتی نہیں ،ہر روز محدثین اور طلبہ جوق جوق بغرض استفادۂ تلمذ حاضر ہوتے، ایک روز جب خوب مجمع ہوا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ حضرت ! تلفظ بالقرآن کو آپ مخلوق کہتے ہو یا غیر مخلوق ؟ ہر چند آپ نے ٹالا مگر اُس نے پیچھا نہ چھوڑا، آخر آپ نے اپنی تحقیق بیان کی کہ قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور بندے کے کل افعال مخلوق ہیںیعنی تلفظ بندے کا فعل ہے ، اس لئے وہ مخلوق ہے ، یہ کہنا ہی تھا کہ مجلس میں شور مچ گیا اور کل حضار مجلس چلے گئے اور اُدھر ذہلی ؒ نے اعلان دیاکہ جو شخص بخاری کے پاس جائے وہ ہمارے پاس نہ آئے، کیونکہ جو شخص تلفظ بالقرآن کو مخلوق کہے وہ بدعتی ہے، اُس کے ساتھ بیٹھنا اور اُس سے بات کرنی درست نہیں، غرض امام بخاریؒ اس مسئلہ میں اس قدر مطعون اور دل تنگ ہوئے کہ ایک کتاب اِس باب میں لکھنے کی ضرورت ہوئی، جس کا نام ’’خلق افعال عباد‘‘ رکھا اس میں بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے استدلال کیا اور بہت سے دلائل قائم کئے منجملہ اُن کے چند یہ ہیں ’’ قرائۃ القرآن العمل و من قال عمل العباد لیس بخلق فھو کافر‘‘ اور لکھا ہے ’’ان الابلاغ منہ صلی اللہ علیہ وسلم و ان کلام اللہ من ربہ‘‘ اور لکھا ہے ’’القراء ۃ فعل العبد و لا یخفی معرفۃ ہذا القدر الاعلی من اعمی اللہ قلبہ و لم یوفقہ ولم یھدہ سبیل الرشاد‘‘ اور لکھا ہے ’’جمیع القرآن ھو قولہ والقول صفۃ القائل وھو موصوف بہ فالقرآن قول اللہ عزّ و جل والقراء ۃ والکتابۃ والحفظ للقرآن من فعل الخلق‘‘ اور ہر ایک استدلال میں احادیث بکثرت پیش کئے ہیں ۔
تہذیب التہذیب سے ظاہر ہے کہ حسین بن علی کرابیسی کو محدثین معتبر سمجھتے تھے، چنانچہ خطیب بغداد ی نے اُن کی نسبت لکھا ہے کہ’’ کان فہیمًا عالماً فقیہًا ولہ تصانیف کثیرۃ فی الفقہ و فی الاصول تدل علی حسن فہمہ و غزارۃ علمہ‘‘ باوجود اس کے جب انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ کی مخالفت کی اور مخالفت بھی اسی قدر کہ لفظی بالقرآن مخلوق کہتے تھے ورنہ قرآن کے غیر مخلوق ہونے کے وہ بھی قائل تھے ،تو محدثین نے ان کو ترک کر دیا اور لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ اُن کی صحبت میں رہتے تھے ،اُن ہی سے یہ مسئلہ انہوں نے لیا ہے ۔
تہذیب التہذیب میں ابوبکر احمد رمادی کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ کسی نے ابوداؤد سے پوچھا کہ آپ رمادی کی روایتیں کیوں نہیں بیان کرتے ؟ کہا ’’رأیتہ یصحب الواقفۃ فلم احدث عنہ ‘‘یعنی میں نے اُس کو دیکھا کہ اُن لوگوں کے ساتھ رہا کرتا ہے جو قرآن کو غیر مخلوق کہنے میں توقف کرتے ہیں ،اس لئے اُس سے روایت نہیں لی ،حالانکہ تہذیب التہذیب سے ظاہر ہے کہ رمادی کے حفظ وغیرہ کی توثیق محدثین نے کی ہے۔ تذکرۃ الحفاظ میں اسحاق ابن ابی اسرائیل کا حال لکھا ہے کہ محدثین نے اُن کی توثیق میں یہاں تک کہا ہے کہ حفظ و ورع میں اُن کا نظیر نہیں ،مگر جب انہوں نے قرآن کو غیر مخلوق کہنے میں توقف کیا تو محدثین نے اُن کو ترک کر دیا اور تہذیب التہذیب میں اُن کے ترجمہ میں ابو حاتم رازی کا قول نقل کیا ہے کہ پیشتر ہم لوگ اُن سے روایت لیتے تھے، مگر جب انہوں نے قرآن کے مسئلہ میں توقف کیا تو ہم نے اُن سے حدیث لینے میں توقف کیا اور محدثین نے ان کو ترک کر دیا ،چنانچہ میں کبھی کبھی اُن کی مسجد میں جاتا تو دیکھتا کہ وہ اکیلے بیٹھے ہیں اور کوئی اُن کے پاس نہیں جاتا ۔ تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ ابن شرقی کہتے ہیں کہ میں محمد ابن یحییٰ کے حلقہ میں گیا، انہوں نے اہل حلقہ کی طرف خطاب کر کے کہا کہ تلفظ بالقرآن کو جو شخص مخلوق کہے
وہ ہماری مجلس میں نہ آئے ۔ کشف بزدوی میں لکھا ہے کہ ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ مسئلہ خلق قرآن میں چھ مہینے تک ابو حنیفہ ؒ کے ساتھ میں مناظرہ کرتا رہا ،آخر میری اور اُن کی رائے کا اتفاق اس پر ہوا کہ جو شخص قرآن کو مخلوق کہے وہ کافر ہے اور محمدؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔
مقصود ہمارا اس بیان سے اسی قدر ہے کہ اس مسئلہ میں محدثین نے اس قدر احتیاط کی کہ امام بخاری ؒ جیسے مستند، شیخ وقت کی کسی نے نہ مانی اور مدتوں وہ مطعون رہے اور بہت سے محدثین متروک کرد یئے گئے اور سلاطین کی وہ جابرانہ کارروائیاں سب کان لم یکن ہوگئیں ،بلکہ بمصداق ’’ عد وشو د سبب خیر گر خدا خواہد ‘‘ جس قدر انہوں نے تشدد کیا تھا ،اُس سے زیادہ محدثین کی طرف سے اس مسئلہ میں تشدد ہوا اور سلطنت نے جس بات پر اپنا پورا زور لگایا تھا ،اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی مخالفت نہایت شدومد سے کی گئی اور سلطنت سے کچھ نہ ہوسکا ، غرضکہ سلاطین کی پوری مخالفت سے بھی دین کا ایک مسئلہ نہ بگڑ سکا، محدثین نے اِس مسئلہ میں اس قدر تشدد اس وجہ سے کیاکہ ایک حدیث شریف میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قرآن غیر مخلوق ہے، جس کی حفاظت ان جانبازان اسلام نے کی اب غور کیجئے کہ کس قدر اِن حضرات کو استقامت تھی کہ ہر چند سلطنت مخالف ہوگئی ،مگر ایک حدیث کو بھی انہوں نے تلف ہونے نہ دیا ، یہ لوگ ہیں جن سے دین کی حفاظت ہوئی ،اگر خالص دین پوچھئے تو وہی ہے جو اِن حضرات کے ذریعہ سے پہونچا ہے، ایسے ہی افراد سے دین لینے کی ضرورت عقلاً اور شرعاً ثابت ہے ، کنز العمال میں ہے ’’ عن ابن عمر ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ابن آدم دینک دینک انما ھو لحمک و دمک فانظر عمن تاخذ خذالدین عن الذین استقامو ولا تاخذ عن الذین قالوا ‘‘(عد) یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے ابن آدم !دین کو خوب مستحکم کر، وہ تیرا گوشت و خون ہے ،یعنی قوام روحانی اُسی سے ہے ،دین کودیکھ سمجھ کے لے ، ایسے لوگوں سے لے جن کو دین
میں استقامت حاصل ہے اور اُن لوگوں سے مت لے جو کہتے ہیں یعنی باتیں ہی باتیں ہیں اور عمل ندارد اور عقل بھی اسی کو مقتضی ہے، اس لئے کہ جو لوگ صرف طمع دنیوی سے دین کے مسائل میں تصرف کرتے ہیں یا عقل کی پیروی کر کے قرآن و حدیث کے معنی میں تحریف کرتے ہیں ، اُن سے جو بات لی جائیگی اُس کو دین سے کیا تعلق ،وہ تو اُن کی رائے ہوئی اور دین کسی کی رائے کا نام نہیں ، وہ خاص خدا و رسول کا مقرر کیا ہوا ہے، جس کا ثبوت آیات و احادیث سے صراحۃً ہوا ہو ۔