اسلامسوانحِ كربلا مصنف صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القویفضائل

دس محرم 61ھ؁ کے دِلْدوزواقعات

دس محرم 61ھ؁ کے دِلْدوزواقعات

جب کسی طرح شَکْلِ مُصَالَحَتْ پیدا نہ ہوئی اور کسی شکل سے جفا شِعار قوم صلح کی طرف مائل نہ ہوئی اور تمام صورتیں ان کے سامنے پیش کردی گئیں، لیکن تشنگانِ خونِ اہلِ بیت کسی بات پر راضی نہ ہوئے اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اب کوئی شکل خلاص کی باقی نہیں ہے نہ یہ شہر میں داخل ہونے دیتے ہیں نہ واپس جانے دیتے ہیں نہ ملک چھوڑنے پر ان کو تسلی ہوتی ہے۔ وہ جان کے خواہاں ہیں اور اب اس جنگ کو دفع کرنے کاکوئی طریقہ باقی نہ رہا۔اس وقت حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے قیام گاہ کے گرد ایک خندق کھودنے کا حکم دیا۔ خندق کھودی گئی اور اس کی صرف ایک راہ رکھی گئی ہے جہاں سے نکل کر دشمنوں سے مقابلہ کیاجائے۔خندق میں آگ جلادی گئی تاکہ اہلِ خیمہ دشمنوں کی ایذا سے محفوظ رہیں۔
دسویں محرم کا قیامت نُمادن آیا۔ جمعہ کی صبح حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام اپنے رُفقاءِ اہلِ بیت کے ساتھ فجر کے وقت اپنی عمر کی آخری نماز باجماعت نہایت ذوق و شوق تضرّع و خشوع کے ساتھ ادافرمائی۔ پیشانیوں نے سجدوں میں خوب مزے لئے، زبانوں نے قرأ ت و تسبیحات کے لطف اٹھائے۔ نماز سے فراغ کے بعد خیمہ میں تشریف لائے، دسویں محرم کا آفتاب قریب طلوع ہے، امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تمام رفقاء واہل بیت تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں، ایک قطرۂ آب میسر نہیں آیا اور ایک لقمہ حلق سے نہیں اترا، بھوک پیاس سے جس قدر ضعف و ناتوانی کا غلبہ ہوجاتا ہے اس کاس وہی لوگ کچھ اندازہ کرسکتے ہیں جنہیں کبھی دو تین وقت کے فاقہ کی بھی نوبت آئی ہو۔پھر بے وطنی ، تیز دھوپ، گرم ریت ، گرم ہوائیں، انہوں نے ناز پروردگانِ

آغوشِ رسالت کو کیساپَژْمُردہ کردیا ہوگا۔ ان غریبانِ بے وطن پر جوروجفا کے پہاڑ توڑنے کیلئے بائیس ہزار فوج اور تازہ دم لشکر تیروتَبَر،تیغ و سناں سے مسلح صفیں باندھے موجود، جنگ کا نقارہ بجادیا گیااور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند اور فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے جگر بند کو مہماں بناکر بلا نے والی قوم نے جانوں پر کھیلنے کی دعوت دی۔(1)
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرصۂ کارزار میں تشریف فرماکر ایک خطبہ فرمایا جس میں بیان فرمایاکہ ” خون ناحق حرام او رغضب الٰہی عزوجل کا موجب ہے، میں تمہیں آگاہ کرتاہوں کہ تم اس گناہ میں مبتلانہ ہو،میں نے کسی کو قتل نہیں کیاہے، کسی کا گھر نہیں جلایا، کسی پر حملہ آور نہیں ہوا۔ اگر تم اپنے شہر میں میرا آنا نہیں چاہتے ہوتو مجھے واپس جانے دو، تم سے کسی چیز کا طلب گار نہیں، تمہارے درپے آزارنہیں، تم کیوں میری جان کے درپے ہو اور تم کس طرح میرے خون کے الزام سے بری ہوسکتے ہو؟ روزِ محشر تمہارے پاس میرے خون کا کیاجواب ہوگا؟ اپنا انجام سو چو اور اپنی عاقبت پر نظر ڈالو،پھر یہ بھی سمجھو کہ میں کون اور بارگاہِ رسالت میں کس چشمِ کرم کا منظور نظرہوں، میرے والد کون ہیں اور میری والدہ کس کی لخت جگرہیں؟میں انھیں بتولِ زہرا کا نور ِدید ہ ہوں جن کے پل صراط پر گزرتے وقت عرش سے ندا کی جائے گی کہ اے اہل محشر! سر جھکاؤاور آنکھیں بندکروکہ حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہاپل صراط سے ستر (70) ہزار حوروں کو رکابِ سعادت میں لے کر گزرنے والی ہیں۔ میں وہی ہوں جس کی محبت کو سرورِعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی محبت فرمایاہے، میرے فضائل تمہیں خوب معلوم ہیں، میرے حق میں جو
احادیث وارد ہوئی ہیں اس سے تم بے خبر نہیں ہو۔”
اس کا جواب یہ دیا گیا کہ آپ کے تمام فضائل ہمیں معلوم ہیں مگر اس وقت یہ مسئلہ زیربحث نہیں ہے، آپ جنگ کے لئے کسی کو میدان میں بھیجئے اور گفتگوختم فرمائیے۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ” میں حجتیں ختم کرنا چاہتاہوں تاکہ اس جنگ کو دفع کرنے کی تدابیر میں سے میری طرف سے کوئی تدبیر رہ نہ جائے اور جب تم مجبور کرتے ہوتو بمجبوری وناچاری مجھ کوتلوار اٹھاناہی پڑے گی۔” (1)
ہُنوزگفتگو ہوہی رہی تھی کہ گروہِ اعداء میں سے ایک شخص گھوڑا دوڑاکر سامنے آیا (جس کانام مالک بن عروہ تھا) جب اس نے دیکھا کہ لشکر امام کے گرد خند ق میں آگ جل رہی ہے اور شعلے بلند ہورہے ہیں اور اس تدبیر سے اہلِ خیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے تو اس گستاخ بدباطن نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے حسین !رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگالی۔ حضرت امام عالی مقام علی جدہ وعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: کَذَبْتَ یَا عَدُوَّاللہِاے دشمن خدا! توکاذب ہے۔تجھے گمان ہے کہ میں دوزخ میں جاؤں گا۔
مسلم بن عوسجہ کو مالک بن عروہ کا یہ کلمہ بہت ناگوار ہوااور انہوں نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بدزبان کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت چاہی۔ صبر وتحمل اور تقویٰ

اورراست بازی اور عدالت و انصاف کا ایک عدیم ُالمثال منظرہے کہ ایسی حالت میں جب کہ جنگ کیلئے مجبور کئے گئے تھے۔ خون کے پیاسے تلواریں کھینچے ہوئے جان کے خواہاں تھے ۔بے باکوں نے کمالِ بے ادبی و گستاخی سے ایسا کلمہ کہا اور ایک جاں نثار اس کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت چاہتا ہے تو اس وقت اپنے جذبات قبضہ میں ہیں طیش نہیں آتا۔ فرماتے ہیں کہ خبردار! میری طرف سے کوئی جنگ کی ابتداء نہ کرے تاکہ اس خونریزی کا وبال اعداء ہی کی گردن پر رہے اور ہمارا دامن اقدام سے آلودہ نہ ہو لیکن تیرے جراحتِ قلب کا مرہم بھی میرے پاس ہے اورتیرے سوزِ جگر کی تشفی کی بھی تدبیر رکھتا ہوں، اب تو دیکھ ! یہ فرماکر دست دعا دراز فرمائے اور بارگاہ الٰہی عزوجل میں عرض کیا کہ یارب! عزوجل عذاب نار سے قبل اس گستاخ کو دنیا میں آتشِ عذاب میں مبتلا کر۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ اٹھانا تھا کہ اس کے گھوڑے کا پاؤں ایک سوراخ میں گیا اور وہ گھوڑے سے گرا اور اس کا پاؤں رِکاب میں الجھا اورگھوڑاا سے لے کر بھاگا اور آگ کی خندق میں ڈال دیا۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سجدۂ شکر کیا اوراپنے پروردگارعزوجل کی حمدو ثناء کی اور فرمایا:”اے پروردگار!عزوجل تیر ا شکر ہے کہ تو نے اہلِ بیتِ رسالت کے بدخواہ کو سزادی۔” حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے یہ کلمہ سن کر صفِ اعدا ء میں سے ایک اور بے باک نے کہاکہ آپ کو پیغمبرِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کیا نسبت؟ یہ کلمہ تو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ آپ نے اس کے لئے بھی بددعا فرمائی اور عرض کیا یارب!عزوجل اس بدزبان کو فوری عذاب میں گرفتار کر۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا فرمائی اور اس کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی، گھوڑے سے اتر کرایک طرف بھاگا اور کسی جگہ قضائے حاجت کے لئے برہنہ ہوکر بیٹھا ۔ایک سیاہ بچھو
نے ڈنگ مارا تو نجاست آلُودہ تڑپتاپھرتاتھا۔ اس رسوائی کے ساتھ تمام لشکر کے سامنے اس ناپاک کی جان نکلی مگر سخت دِلانِ بے حمیت کو غیرت نہ ہوئی۔(1)
ایک شخص مزنی نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے آکر کہا کہ” اے امام! رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھو تو دریائے فرات کیسا موجیں ماررہاہے۔ خد ا عزوجل کی قسم کھاکر کہتا ہوں تمہیں اس کا ایک قطرہ نہ ملے گا اورتم پیاسے ہلاک ہوجاؤگے ۔ ”حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے حق میں فرمایا: اَللّٰھُمَّ اَمِتْہ، عَطْشَانًا یارب !عزوجل اس کو پیاسا مار۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمانا تھا کہ مزنی کاگھوڑا چمکا، مزنی گرا، گھوڑا بھاگا اور مزنی اس کے پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑا اور پیاس اس پر غالب ہوئی، اس شدت کی غالب ہوئی کہ اَلْعَطَشْ اَلْعَطَشْ پکارتا تھا اور جب پانی اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ نہ پی سکتا تھا یہاں تک کہ اسی شدتِ پیاس میں مرگیا۔ (2)
فرزند ِرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات بھی دکھادینا تھی کہ ان کی مقبولیتِ بارگاہِ حق پر اور ان کے قرب و منزلت پر جیسی کہ نصوص کثیرہ واحادیث ِشہیرہ شاہد ہیں ایسے ہی ان کے خوارق و کرامات بھی گواہ ہیں۔ اپنے اس فضل کا عملی اظہار بھی اِتمامِ حجت کے سلسلہ کی ایک کڑی تھی کہ اگر تم آنکھ رکھتے ہو تو دیکھ لو کہ جو ایسا مُستجاب الدعوات ہے اس کے مقابلہ میں آناخدا عزوجل سے جنگ کرناہے اس کا انجام سو چ لواور باز رہو مگر شرارت کے مجسمے اس سے بھی سبق نہ لے سکے اور دنیائے ناپائیدار کی حرص کا بھوت جو اُن کے سروں پر سوار تھا اس نے انھیں اندھا بنادیا اور نیزے بازلشکر اعداء سے نکل کر رجز

خوانی کرتے ہوئے میدان میں آکودے اور تکبر و تبختر کے ساتھ اتراتے ہوئے گھوڑے دوڑا کر اور ہتھیار چمکا کرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مبار ز کے طالب ہوئے۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام کے خاندان کے نونہال شوق جانبازی میں سرشارتھے۔ انہوں نے میدان میں جانا چاہا لیکن قریب کے گاؤں والے جہاں اس ہنگامے کی خبر پہونچی تھی وہاں کے مسلمان بے تاب ہوکر حاضر خدمت ہوگئے تھے انہوں نے اصرار کئے حضرت کے درپے ہوگئے اور کسی طرح راضی نہ ہوئے کہ جب تک ان میں سے ایک بھی زندہ ہے خاندانِ اہلِ بیت کا کوئی بچہ بھی میدان میں جائے۔حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان اخلاص کیشوں کی سرفروشانہ التجائیں منظور فرمانا پڑیں اور انہوں نے میدان میں پہونچ کر دشمنانِ اہل بیت سے شجاعت وبسالت کے ساتھ مقابلے کئے اوراپنی بہادری کے سکے جمادئیے اور ایک ایک نے اعداء کی کثیر تعداد کو ہلاک کرکے راہِ جنت اختیار کرنا شروع کی۔ اس طرح بہت سے جانباز فرزند ان رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جانیں نثار کرگئے۔ ان صاحبوں کے اسماء اور ان کی جانبازیوں کے تفصیلی تذکرے سیر کی کتابوں میں مسطور ہیں۔یہاں اختصار اً اس تفصیل کوچھوڑدیا گیاہے، وہب ابن عبداللہ کلبی کا ایک واقعہ ذکر کیاجاتاہے۔
یہ قبیلہ بنی کلب کے زیبا و نیک خو، گُلرخ حسین جوان تھے ، اٹھتی جوانی اور عُنفوانِ شباب ، امنگوں کاوقت اور بہاروں کے دن تھے۔ صرف سترہ رو زشادی کو ہوئے تھے اور ابھی بساطِ عشرت و نِشاط گرم ہی تھی کہ آپ کے پاس آپ کی والدہ پہونچیں جو ایک بیوہ عورت تھیں اور جن کی ساری کمائی اور گھر کا چراغ یہی ایک نوجوان بیٹا تھا۔ اس مُشفِق ماں نے پیارے بیٹے کے گلے میں باہیں ڈال کر رونا شروع کردیا۔ بیٹا حیرت میں آکر

ماں سے دریافت کرتاہے کہ مادر محترمہ رنج و ملال کا سبب کیاہے ؟ میں نے اپنی عمر میں کبھی آپ کی نافرمانی نہ کی نہ آئندہ کرسکتا ہوں۔ ا ۤپ کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے اور میں تابہ زندگی مطیع و فرمانبردار رہوں گا۔ آپ کے دل کو کیاصدمہ پہونچا اور آپ کو کس غم نے رلایا؟ میری پیاری ماں! میں آپ کے حکم پر جان فدا کرنے کو تیار ہوں آپ غمگین نہ ہوں۔اکلوتے سعادت مند بیٹے کی یہ سعادت مندانہ گفتگو سن کر ماں اور چیخ مار کر رونے لگی اور کہنے لگی ، اے فرزند ِدلبند! میری آنکھ کا نور دل کا سرور توہی ہے اور اے میرے گھر کے چراغ اور میرے باغ کے پھول! میں نے اپنی جان گھلا گھلا کر تیری جوانی کی بہار پائی ہے، تو ہی میرے دل کا قرارہے توہی میری جان کا چین ہے، ایک دم تیری جدائی اور ایک لمحہ تیراا فتراق مجھے برداشت نہیں ہوسکتا ؎

چوں در خواب باشم توئی در خیالم
چوں بیدار گردم توئی در ضمیرم

اے جان مادر !میں نے تجھے اپناخونِ جگر پلایا ہے۔ آج مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جگر گوشہ، خاتون جنت کا نونہال دشت کربلا میں مبتلائے مصیبت وجفاہے، پیارے بیٹے! کیاتجھ سے ہوسکتاہے کہ تو ا پنا خون اس پر نثار کرے اور اپنی جان اس کے قدموں پر قربان کرڈالے۔ اس بے غیرت زندگی پر ہزار تف ہے کہ ہم زندہ رہیں اور سیّدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا لاڈلا ظلم و جفا کے ساتھ شہید کیاجائے اگر تجھے میری محبتیں کچھ یاد ہوں اور تیری پرورش میں جومحنتیں میں نے اٹھائی ہیں ان کو تو بھولانہ ہو توا ے میرے چمن کے پھول! تو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر صدقہ ہوجا۔ وہب نے کہا:اے مادر مہربان !خوبی نصیب ، یہ جان ، شہزادۂ کو نَین پر فدا ہوجائے اور یہ ناچیز ہدیہ وہ آقا

قبول کرلیں۔ میں دل و جان سے آمادہ ہو ں ، ایک لمحہ کی اجازت چاہتا ہوں تاکہ اس بی بی سے دو باتیں کرلوں جس نے اپنی زندگی کے عیش و راحت کا سہرا میرے سر باندھا ہے اور جس کے ارمان میرے سوا کسی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھتے، اس کی حسرتوں کے تڑپنے کا خیال ہے ، وہ اگر صبر نہ کرسکی تو میں اس کو اجازت دے دوں کہ وہ اپنی زندگی کو جس طرح چاہے گزارے۔ماں نے کہا: بیٹا !عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں۔مبادا تو اس کی باتوں میں آجائے اور یہ سعادت سرمدی تیرے ہاتھوں سے جاتی رہے۔وہب نے کہا :پیاری ماں ، امام حسین علیٰ جدہ و علیہ الصلوۃو السلام کی محبت کی گرہ دل میں ایسی مضبوط لگی ہے کہ اس کوکوئی کھول نہیں سکتااو ر ان کی جان نثاری کا نقش دل پر اس طرح جاگزیں ہواہے جو دنیا کے کسی بھی پانی سے نہیں دھویاجاسکتاہے۔ یہ کہہ کر بی بی کی طرف آیا اور اسے خبر دی کہ فرزندِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میدانِ کربلا میں بے یار ومددگار ہیں اور غداروں نے ان پر نرغہ کیاہے۔ میری تمنا ہے کہ ان پر جان نثار کروں۔ یہ سن کرنئی دلہن نے امید بھرے دل سے ایک آہ کھینچی اور کہنے لگی، اے میرے آرام جاں! افسوس یہ ہے کہ اس جنگ میں میں تیرا ساتھ نہیں دے سکتی، شریعتِ اسلامیہ نے عورتوں کوحرب کے لئے میدان میں آنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ افسوس! اس سعادت میں میرا حصہ نہیں کہ تیرے ساتھ میں بھی اس جان جہاں پر جان قربان کروں ابھی میں نے دل بھر کے تیرا چہرہ بھی نہیں دیکھا ہے اور تونے جنتی چمنستان کا ارادہ کردیا وہاں حوریں تیری خدمت کی آرزومند ہوں گی۔ مجھ سے عہد کرکہ جب سر دارانِ اہلِ بیت کے ساتھ جنت میں تیرے لئے بے شمار نعمتیں حاضر کی جائیں گی اور بہشتی حوریں تیری خدمت کے لئے حاضر ہوں اس وقت تو مجھے نہ بھول جائے۔

یہ نوجوان اپنی اس نیک بی بی اور برگزیدہ ماں کو لے کر فرزند ِرسول…. صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔دلہن نے عرض کیا: یاابن رسول! شہداء گھوڑے سے زمین پر گرتے ہی حوروں کی گود میں پہونچتے ہیں اور بہشتی حسین کمالِ اطاعت شعاری کے ساتھ ان کی خدمت کرتے ہیں، میرا یہ نوجوان شوہر حضور پر جاں نثار ی کی تمنا رکھتاہے اور میں نہایت بے کس ہوں ، نہ میری ماں ہے نہ باپ ہے نہ کوئی بھائی ہے نہ ایسے قرابتی رشتہ دار ہیں جو میری کچھ خبرگیری کرسکیں۔التجا یہ ہے کہ عرصہ گاہِ محشر میں میرے اس شوہر سے جدائی نہ ہو اور دنیامیں مجھ غریب کو آپ کے اہلِ بیت اپنی کنیزوں میں رکھیں اور میری عمر کا آخری حصہ آپ کی پاک بیبیوں کی خدمت میں گزر جائے۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ تمام عہد ہوگئے اور وہب نے عرض کردیا کہ اے امام! رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے مجھے جنت ملی تو میں عرض کروں گا کہ یہ بی بی میرے ساتھ رہے اور میں نے اس سے عہد کیاہے۔ وہب اجازت چاہ کر میدان میں چل دیا۔ لشکر اعداء نے دیکھاکہ گھوڑے پر ایک ماہرُ و، سوار ہے اور اجلِ ناگہانی کی طرح دشمن پر تاخت لاتاہے، ہاتھ میں نیزہ ہے، دوش پرسِپَر ہے اوردل ہلادینے والی آواز کے ساتھ یہ رجز پڑھتا آرہاہے:

اَمِیْرٌ حُسَیْنٌ وَ نِعْمَ الْاَمِیْرُ
لَہٗ لَمْعَۃٌ کَالسِّرَاجِ الْمُنِیْرِ

ایں چہ ذو قست کہ جاں می بازو

وہب کلبی بسگِ کوئے حسین
دست او تیغ زند تاکہ کند

روئے اشرار چو گیسوئے حسین
برق خاطف کی طر ح میدان میں پہونچا۔ کوہ پیکر گھوڑے پر سپہ گری کے

فنون دکھائے۔ صف اعداء سے مبارز طلب کیا جو سامنے آیاتلوار سے اس کا سراڑایا، گردو پیش خود سروں کے سروں کا انبار لگا دیااور ناکسوں کے تن خون و خاک میں تڑپتے نظر آنے لگے،یکبارگی گھوڑے کی باگ موڑدی اور ماں کے پاس آکر عرض کیا کہ اے مادر مشفقہ! تو مجھ سے راضی ہوئی اور بیوی کی طرف جاکر اس کے سر پرہاتھ رکھا جو بیقرار رورہی تھی اور اس کو صبر دلایا اس کی زبانِ حا ل کہتی تھی:
جان ز غم فرسودہ دارم چوں نہ نالم آہ آہ
دل بدرد آلودہ دارم چوں نہ گریم زار زار
اتنے میں اعدا ء کی طرف سے آواز آئی کہ کیاکوئی مبارز ہے۔ وہب گھوڑے پر سوار ہوکر میدان کی طرف روانہ ہوا۔ نئی دلہن ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھ رہی ہے اور آنکھوں سے آنسو کے دریا بہارہی ہے ؎
از پیش من آں یار چو تعجیل کناں رفت
دل نعرہ بر آورد کہ جاں رفت رواں رفت
وہب شیر ژیاں کی طرح تیغ آبدار و نیزۂ جاں شکار لے کر معرکۂ کا رزار میں صاعقہ وار آپہنچا۔ اس وقت میدان میں اعدا ء کی طرف سے ایک مشہور بہادر اور نامدار سوا ر حکم بن طفیل غرورِنبرد آزمائی میں سرشارتھا۔ وہب نے ایک ہی حملے میں اس کو نیزہ پر اٹھاکر اس طرح زمین پر دے مارا کہ ہڈیاں چکنا چو ر ہوگئیں اور دونوں لشکروں میں شور مچ گیااور مبارزوں میں ہمت مقابلہ نہ رہی وہب گھوڑادوڑاتاقلب دشمن پر پہنچا، جو مبارز سامنے آتااس کو نیزہ کی نوک پراٹھا کر خاک پر پٹک دیتا یہاں تک کہ نیزہ پارہ پارہ ہوگیا، تلوار میان سے نکالی اور تیغ زنوں کی گردنیں اـڑا کر خاک میں ملادیں۔ جب

اعداء اس جنگ سے تنگ آگئے تو عمر بن سعد نے حکم دیا کہ لوگ اس کے گرد ہجوم کرکے حملہ کردیں اور ہرطرف سے یکبار گی ہاتھ چھوڑیں ایساہی کیا اورجب وہ نوجوان زخموں سے چورہوکر زمین پر آیاتو سیاہ دِلانِ بد باطن نے اس کا سر کاٹ کرلشکر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ڈال دیا۔ اس کی ماں بیٹے کے سر کواپنے منہ سے ملتی تھی اور کہتی تھی اے بیٹا! بہادر بیٹا! اب تیری ماں تجھ سے راضی ہوئی۔ پھروہ سر اس دلہن کی گود میں لاکر رکھ دیا، دلہن نے اپنے پیارے شوہر کے سر کو بوسہ دیا۔ اسی وقت پروانہ کی طرح اس شمع جمال پر قربان ہوگئی اور اس کا طائر ِروح اپنے نوشاہ کے ساتھ ہم آغوش ہوگیا۔(1) ؎
سر خروئی اسے کہتے ہیں کہ راہِ حق میں
سر کے دینے میں ذرا تو نے تامل نہ کیا

اَسْکَنکُمَا اللہُ فَرَادِیْسَ الْجِنَانِ وَاَغْرَقَکُمَا فِیْ بِحَارِ الرَّحْمَۃِ وَالرِّضْوَانِ
(روضۃ الاحباب )

ان کے بعد اور سعادت مند جاں نثار ،دادِ جان نثاری دیتے اور جانیں فدا کرتے رہے۔ جن جن خوش نصیبوں کی قسمت میں تھا انہوں نے خاندانِ اہلِ بیت پر اپنی جانیں فداکرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس زمرہ میں حُربن یزید ریاحی قابل ذکر ہے۔ جنگ کے وقت حُرکا دل بہت مضطرب تھا اور اس کی سیماب وا ر بیقراری اس کو ایک جگہ نہ ٹھہرنے دیتی تھی، کبھی وہ عمربن سعد سے جاکر کہتے تھے کہ تم امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ کروگے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کیا جواب دوگے؟عمربن سعد کو اس کا جواب نہ بن آتاتھا۔ وہاں سے ہٹ کر پھر میدا ن میں آتے ہیں،بدن کانپ رہاہے،
چہرہ زرد ہے، پریشانی کے ا ۤثار نمایاں ہیں،دل دھڑک رہاہے، ان کے بھائی مصعب بن یزید نے ان کایہ حال دیکھ کر پوچھا کہ اے برادر! آپ مشہور جنگ آزمااوردلاور وشجاع ہیں، آپ کے ليے یہ پہلا ہی معرکہ نہیں بارہا جنگ کے خونیں مناظر آپ کی نظر کے سامنے گزرے ہیں اور بہت سے دیوپیکر آپ کی خون آشام تلوار سے پیو ند خاک ہوئے ہیں۔ آپ کا یہ کیاحال ہے اور آپ پر اس قدرخوف وہراس کیوں غالب ہے؟
حُر نے کہا کہ اے برادر! یہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند سے جنگ ہے، اپنی عاقبت سے لڑائی ہے،میں بہشت ودوزخ کے درمیان کھڑا ہوں، دنیا پوری قوت کے ساتھ مجھ کو جہنم کی طرف کھینچ رہی ہے اور میرا دل اس کی ہیبت سے کانپ رہاہے۔ اسی اثناء میں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز آئی فرماتے ہیں:”کوئی ہے جو آج آلِ رسول پر جان نثار کرے اور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری میں سرخروئی پائے۔”
یہ صدا تھی جس نے پاؤں کی بیڑیاں کاٹ دیں، دلِ بے تاب کو قرار بخشا اور اطمینان ہوا کہ شاہزادۂ کونین حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری پہلی جرأت سے چشم پوشی فرمائیں توعجب نہیں، کریم نے کرم سے بشارت دی ہے، جان فدا کرنے کے ارادہ سے چل پڑو۔ گھوڑا دوڑایا اور امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر گھوڑے سے اتر کر نیاز مندوں کے طریقہ پر رِکاب تھامی اور عرض کیا کہ اے ابنِ رسول ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم، فرزندِ بتول!میں وہی حُر ہوں جو پہلے آپ کے مقابل آیا اور جس نے آپ کو اس میدان بیابان میں روکا۔ اپنی اس جسارت و مبادرت پر نادم ہوں، شرمندگی اور خَجالَت نظر نہیں اٹھانے دیتی ، آپ کی کریمانہ صدا سن کر امیدوں نے ہمت بندھائی تو حاضر خدمت ہواہوں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کرم سے کیا بعید کہ عفوِ جرم فرمائیں اور

غلامانِ بااخلاص میں شامل کریں اور اپنے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر جان قربان کرنے کی اجازت دیں۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حُر کے سر پردست مبارک رکھا اور فرمایا: ”اے حر!بارگاہ الٰہی میں اخلاص مندوں کے استغفار مقبول ہیں اور توبہ مستجاب، عذر خواہ محروم نہیں جاتے وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ (1)

شادباش کہ میں نے تیری تقصیر معاف کی اور اس سعادت کے حصول کی اجازت دی۔ ”
حُراجازت پاکر میدان کی طرف روانہ ہوا،گھوڑا چمکاکرصفِ اعداء پر پہنچا، حُر کے بھائی مصعب بن یزید نے دیکھا کہ حُرنے دولت سعادت پائی اور نعمت آخرت سے بہرہ مند ہوا اور حرصِ دنیا کے غبار سے اس کا دامن پاک ہوا، اس کے دل میں بھی ولولہ اٹھااور باگ اٹھاکر گھوڑادوڑا تا ہوا چلا۔ عمربن سعد کے لشکر کوگمان ہواکہ بھائی کے مقابلہ کے لئے جاتاہے۔ جب میدان میں پہنچا ، بھائی سے کہنے لگا:بھائی! تو میرے لئے خِضْرِ راہ ہوگیا اور مجھے تونے سخت ترین مَہْلَکَہ سے نجات دلائی، میں بھی تیرے ساتھ ہوں اور رَفاقَتِ حضرتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اعدائے بدکیش کو اس واقعہ سے نہایت حیرانی ہوئی۔ یہ واقعہ دیکھ کر عمربن سعد کے بدن پر لرزہ پڑگیااوروہ گھبرا اٹھا اور اس نے ایک شخص کو منتخب کرکے اس کے لئے بھیجا اور کہا کہ رِفق و مدارات کے ساتھ سمجھا بہکا کر حُر کو اپنے موافق کرنے کی کوشش کرے اورا پنی چالبازی اور فریب کاری انتہاکو پہنچادے۔ پھر بھی ناکامی ہو تو اس کا سرکاٹ کر لے آئے۔ وہ شخص چلا او ر حُر سے آکر کہنے لگا، اے حر! تیری عقل و دانائی پر ہم فخر کیا کرتے تھے مگر آج

تونے کمال نادانی کی کہ اس لشکرِجَرَّار سے نکل کر یزید کے انعام وا کرام پر ٹھوکر مار کر چند بیکس مسافروں کا ساتھ دیا جن کے ساتھ نانِ خشک کا ایک ٹکڑا اور پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے، تیری اس نادانی پر افسوس آتا ہے۔ حر نے کہا: ”اے بے عقل ناصح تجھے اپنی نادانی پررنج کرنا چاہیے کہ تو نے طاہر کو چھوڑ کر نجس کو قبول کیا اور دولت باقی کے مقابلہ میں دنیائے فانی کے مَوہُوم آرام کوترجیح دی، حضور سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپناپھول فرمایا ہے۔ میں اس گلستانِ رسالت پرجان قربان کرنے کی تمنا رکھتاہوں، رضائے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کونَین میں کونسی دولت ہے۔ ”کہنے لگا:” اے حُر! یہ تو میں بھی خوب جانتا ہوں لیکن ہم لوگ سپاہی ہیں اور آج دولت و مال یزید کے پاس ہے۔” حُر نے کہا:”اے کم ہمت! اس حوصلہ پر لعنت ۔”
اب تو ناصح بد باطن کویقین ہوگیا کہ اس کی چَرْب زبانی حُرپر اثر نہیں کرسکتی، اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبت اس کے قلب میں اتر گئی ہے اور اس کا سینہ آلِ ر سول علیہ السلام کی وِلا سے مَمْلوہے، کوئی مکرو فریب اس پر نہ چلے گا۔ باتیں کرتے کرتے ایک تیرحُر کے سینہ پر کھینچ مارا،حُرنے زخم کھاکر ایک نیزہ کاوار کیاجو سینہ سے پار ہوگیا اور زِین سے اٹھا کر زمین پر پٹک دیا۔ اس شخص کے تین بھائی تھے،یکبارگی حُر پر دوڑ پڑے، حر نے آگے بڑھ کرایک کا سر تلوار سے اڑادیا۔ دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر زِین سے اٹھا کر اس طرح پھینکا کہ گردن ٹوٹ گئی۔ تیسرا بھاگ نکلا اورحرنے اس کا تعاقب کیا، قریب پہنچ کر اس کی پشت پر نیزہ مارا وہ سینہ سے نکل گیا، ا ب حر نے لشکر ِ ابنِ سعد کے مَیْمَنَہ پر حملہ کیا اور خوب زورکی جنگ ہوئی،لشکر ابن سعد کو حر کے جنگی ہنر کا اعترا ف کرنا پڑا اور وہ جانباز صادق دادِ شجاعت دے کر فرزند ِرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جان فدا کرگیا۔

حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ حر کو اٹھا کر لائے او ر اس کے سر کو زانوئے مبارک پر رکھ کر اپنے پاک دامن سے اس کے چہرے کا غبار دور فرمانے لگے، ابھی رَمَقِ جان باقی تھی، ابنِ زَہرا کے پھول کے مہکتے دامن کی خوشبوحر کے دماغ میں پہنچی، مَشامِ جاں معطر ہوگیا، آنکھیں کھول دیں،دیکھا کہ ابن رسول اللہ کی گود میں ہے۔ اپنے بَخْت ومقدر پر ناز کرتا ہوا فردوس بریں کوروانہ ہوا۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حر کے ساتھ اس کے بھائی اور غلام نے بھی نوبت بہ نوبت داد ِشجاعت دے کر اپنی جانیں اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر قربان کیں۔پچاس سے زیادہ آدمی شہید ہو چکے اب صرف خاندان اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم باقی ہے اور دشمنان بد باطن کی انھیں پر نظرہے یہ حضر ات پروانہ وار حضرت امام ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نثار ہیں۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس چھوٹے سے لشکر میں سے اس مصیبت کے وقت میں کسی نے بھی ہمت نہ ہاري رُفَقا اور مَوالی میں سے کسی کوبھی تو اپنی جان پیاری نہ معلوم ہوئی، ساتھیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جواپنی جان لے کر بھاگتا یادشمنوں کی پناہ چاہتا۔ جان نثار انِ امام نے اپنے صدق و جانبازی میں پروانہ و بلبل کے افسانے ہیچ کردئیے، ہرایک کی تمنا تھی اور ہر ایک کا اصرار تھا کہ پہلے جاں نثاری کو ان کو موقع دیاجائے، عشق ومحبت کے متوالے شوق شہادت میں مست تھے، تنوں کا سر سے جدا ہونا اور راہِ خداعزوجل میں شہادت پانا ان پر وجد کی کیفیت طاری کرتا تھا، ایک کو شہید ہوتا دیکھ کر دوسرے کے دلوں میں شہادتوں کی امنگیں جوش مارتی تھں۔(1)
اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نوجوانوں نے خاک ِکر بلا کے صفحات پر اپنے خون

سے شجاعت و جو انمردی کے وہ بے مثال نُقوش ثَبَت فرمائے جن کو تَبَدُّلِ اَزْمِنَہ کے ہاتھ مَحْوکرنے سے قاصر ہیں۔ اب تک نیاز مندوں اور عقیدت کیشوں کی معرکہ آرائیاں تھیں جنہوں نے عَلَم بردار انِ شجاعت کو خاک و خون میں لِٹا کر اپنی بہادری کے غُلْغُلے دکھائے تھے اب اسد اللہ کے شیرانِ حق کا موقع آیا اور علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے بہادروں کے گھوڑوں نے میدانِ کر بلا کو جولانگاہ بنایا۔
ان حضرات کا میدان میں آنا تھا کہ بہادروں کے دل سینوں میں لرزنے لگے اور ان کے حملوں سے شیردل بہاد ر چیخ اٹھے، اسد اللہی تلواریں تھیں یا شِہابِ ثاقِب کی آتش باری، بنی ہاشم کی نبردآزمائی اور جاں شکار حملوں نے کربلا کی تشنہ لب زمین کو دشمنوں کے خون سے سیراب کردیا اور خشک ریگستان سرخ نظر آنے لگا۔ نیزوں کی نوکوں پر صف شکن بہادروں کو اٹھانا اورخاک میں ملانا ہاشمی نوجوانوں کا معمولی کرتب تھا، ہر ساعت نیا مبارز آتاتھا اور ہاتھ اٹھاتے ہی فنا ہوجاتاتھا، ان کی تِیغ بے نیام اجل کا پیام تھی اور نوکِ سناں قضا کا فرمان، تلواروں کی چمک نے نگاہیں خِیْرہ کردیں اورحرب و ضرب کے جوہر دیکھ کر کوہ پیکر ترساں وہراساں ہوگئے۔ کبھی مَیْمَنَہ پر حملہ کیا تو صفیں درہم برہم کر ڈالیں معلوم ہوتا تھا کہ سوار مقتولوں کے سمند ر میں تیر رہا ہے کبھی مَیْسَرَہ کی طرف رخ کیا تومعلوم ہوا کہ مردوں کی جماعت کھڑی تھی جو اشارہ کرتے ہی لوٹ گئی۔ صاعقہ کی طرح چمکنے والی تیغ خون میں ڈوب ڈو ب کرنکلتی تھی اور خون کے قطرات اس سے ٹپکتے رہتے تھے۔ اس طر ح خاندان امام کے نوجوان اپنے اپنے جوہر دکھا دکھا کر امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جان قربان کرتے چلے جارہے تھے۔ خیمہ سے چلتے تھے تو

بَلْ اَحْیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمْ (1)

کے چمنستان کی دلکش فضاء ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی ، میدانِ کربلا کی راہ سے اس منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔
فرزند انِ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محاربہ نے دشمن کے ہوش اڑادئیے، ابنِ سعد نے اعتراف کیا کہ اگر فریب کاریوں سے کام نہ لیاجاتا یا ان حضرات پر پانی بند نہ کیا جاتا تو اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ایک ایک نوجوان تمام لشکر کوبربا د کرڈالتا، جب وہ مقابلہ کیلئے اٹھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ قہرالٰہی عزوجل آرہاہے، ان کا ایک ایک ہُنَرْوَرْ صف شکنی و مبارزفگنی میں فردتھا۔ الحاصل اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نونہالوں اور ناز کے پالوں نے میدان کربلا میں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی جانیں فدا کیں اور تیر وسناں کی بارش میں حمایتِ حق سے منہ نہ موڑا، گردنیں کٹوائیں ،خون بہائے ، جانیں دیں مگر کلمۂ ناحق زبان پر نہ آنے دیا، نوبت بہ نوبت تمام شہزادے شہید ہوتے چلے گئے۔ اب حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کے نورِ نظرحضرت علی اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہیں، میدان کی اجازت چاہتے ہیں، مِنَّت وسَماجَت ہورہی ہے، عجیب وقت ہے، چہیتا بیٹا شفیق باپ سے گردن کٹوانے کی اجازت چاہتاہے اور اس پر اصرار کرتاہے جس کی کوئی ہٹ ، کوئی ضدایسی نہ تھی جو پوری نہ کی جاتی، جس نازنین کو کبھی پدرِ مہربان نے انکاری جواب نہ دیاتھا آج اس کی یہ تمنا یہ التجا دل وجگر پر کیا اثر کرتی ہوگی۔ اجازت دیں تو کس بات کی! گردن کٹانے اور خون بہانے کی! نہ دیں تو چمنستانِ رسالت کا وہ گلِ شاداب کمہلایا جاتاہے مگر اس آرزو مند ِشہادت کا اصرا ر اس حد پر تھا اور شوقِ شہادت نے ایسا وار فتہ بنادیا تھا کہ چا رونا چارحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت دینا ہی پڑی۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نوجوان جمیل کو خود گھوڑے پر سوار کیا، اسلحہ اپنے دست

مبارک سے لگائے، فولادی مِغْفَر سر پر رکھا، کمر پرپٹکا باندھا، تلوار حمائل کی، نیزہ اس ناز پر وردۂ سیادت کے مبارک ہاتھ میں دیا اس وقت اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیبیوں بچوں پر کیا گزر رہی تھی جن کا تمام کنبہ و قبیلہ برادر و فرزند سب شہید ہوچکے تھے اور ایک جگمگاتا ہوا چراغ بھی آخری سلام کررہاتھا۔
ان تمام مصائب کواہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رضا ئے حق کے لئے بڑے اِسْتِقْلال کے ساتھ برداشت کیا اور یہ انھیں کا حوصلہ تھا۔ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خیمہ سے رخصت ہوکر میدان کارزار کی طرف تشریف فرماہوئے، جنگ کے مطلع میں ایک آفتاب چمکا،مشکین کا کُل کی خوشبو سے میدان مہک گیا، چہرہ کی تجلی نے معرکۂ کارزار کو عالَمِ انوار بنادیا۔(1) ؎

نور نگاہ فاطمۂ آسماں جناب

صبرِ دلِ خدیجۂ پاک ارم قباب
لخت دل امام حسین ابنِ ابو تراب

شیر خدا کا شیر وہ شیروں میں انتخاب
صورت تھی انتخاب تو قامت تھا لاجواب

گیسو تھے مشک ناب تو چہرہ تھا آفتاب
چہرہ سے شاہزادہ کا اٹھا جبھی نقاب

مہر سپہر ہوگیا خجلت سے آب آب
کاکل کی شام رخ کی سحر موسم شباب

سنبل نثار شام فدائے سحر گلاب
شہزادۂ جلیل علی اکبرِ جمیل

بستان حُسن میں گل خوش منظر شباب
پالا تھا اہل بیت نے آغوش ناز میں!

شرمندہ اس کی ناز کی سے شیشۂ حباب
صحرائے کوفہ عالَمِ انوار بن گیا!

چمکا جو رن میں فاطمہ زہرا کا ماہتاب
خورشید جلوہ گر ہوا پُشْتِ سَمَنْد پر

یا ہاشمی جوان کے رُخ سے اٹھا نقاب

صولت نے مرحبا کہا شوکت تھی رجز خواں

جرأت نے باگ تھامی شجاعت نے کی رکاب
چہرہ کو اس کے دیکھ کے آنکھیں جھپک گئیں

دل کانپ اٹھے ہوگیا اعداء کو اضطراب
سینوں میں آگ لگ گئی اعدائے دین کے

غیظ و غضب کے شعلوں سے دل ہوگئے کباب
نیزہ جگر شگاف تھا اس گل کے ہاتھ میں

یا اژدہا تھا موت کا یا اسوء العقاب
چمکا کے تیغ مردوں کو نامرد کردیا

اس سے نظر ملاتا یہ تھی کس کے دل میں تاب
کہتے تھے آج تک نہیں دیکھا کوئی جواں

ایسا شجاع ہوتا جو اس شیر کا جواب
میدان کار لرزہ براندام ہوگئے

شیرا فگنوں کی حالتیں ہونے لگیں خراب
کہنہ پیکروں کو تیغ سے دو پارہ کردیا

کی ضرب خَود پر تو اڑا ڈالا تا رکاب
تلوار تھی کہ صاعقۂ برق بار تھا

یا ازبرائے رجم شیاطین تھا شہاب
چہرہ میں آفتاب نبوت کا نور تھا

آنکھوں میں شان صولت سرکار بو تراب
پیاسا رکھا جنہوں نے انہیں سیر کردیا

اس جود پر ہے آج تری تیغ زہر آب
میداں میں اس کے حسن عمل دیکھ کر نعیم
حیرت سے بد حواس تھے جتنے تھے شیخ و شاب

میدان کربلا میں فاطمی نوجوان پُشْتِ سَمَنْدپر جلوہ آراتھا، چہرہ کی تابش ماہِ تاباں کو شرمارہی تھی، سروقامت نے اپنے جمال سے ریگستان کو بستانِ حسن بنادیا، جوانی کی بہاریں قدموں پر نثار ہورہی تھیں،سنبل کاکُل سے خجل، برگ ِگل اس کی نزاکت سے مُنْفَعِل ، حسن کی تصویر،مصطفی کی تنویر حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثناء کے جمال اقدس کاخطبہ پڑھ رہی تھی، یہ چہرۂ تاباں اس روئے درخشاں کی یاد دلارہاتھا۔ ان سنگدلوں پر حیرت جو اس گلِ شاداب کے مقابلہ کا ارادہ رکھتے تھے، ان بے دینوں پر بے شمار نفرت جو حبیب

خدا عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نونہال کو گَزَنْد پہچانا چاہتے تھے۔ یہ اسداللہی شیر میدان میں آیا، صف ِاعدا ء کی طرف نظر کی،ذوالفقارِ حیدری کو چمکایا اوراپنی مبارک زبان سے رَجز شروع کی:

اَنَا عَلِیُّ ابْنُ الحُسَیْنِ ابْنِ عَلِیٍّ نَحْنُ اَھْلُ الْبَیْتِ اَوْلٰی بِالنَّبِیِّ

جس وقت شاہزادۂ عالی قدررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رَجز پڑھی ہوگی کربلا کا چپہ چپہ اور ریگستانِ کوفہ کاذرہ ذ رہ کانپ گیا ہوگا۔ ان مدعیانِ ایمان کے دل پتھر سے بدرجہا بدتر تھے جنہوں نے اس نوبادۂ چمنستانِ رسالت کی زبانِ شیریں سے یہ کلمے سنے پھر بھی ان کی آتشِ عِناد سَرْد نہ ہوئی اور کمینہ سینہ سے کینہ دور نہ ہوا۔ لشکریوں نے عمربن سعد سے پوچھا: یہ سوار کون ہے جس کی تجلی نگاہوں کوخِیْرہ کر رہی ہے اور جس کی ہیبت و صَولَت سے بہادروں کے دل ہر اساں ہیں، شانِ شجاعت اس کی ایک ایک ادا سے ظاہر؟ کہنے لگا: یہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہیں، صورت و سیرت میں اپنے جد کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم سے بہت مناسبت رکھتے ہیں۔ یہ سن کر لشکریوں کو کچھ پریشانی ہوئی اور ان کے دلوں نے ان پر ملامت کی کہ اس آقازادے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل آنا اور ایسے جلیل القدر مہمان کے ساتھ یہ سلوک بے مروتی کرنا نہایت سفلہ پن اور بد باطنی ہے ، لیکن ابن زیاد کے وعدے اور یزید کے انعام و اکرام وطمعِ د ولت و مال کی حرص نے اس طرح گرفتار کیاتھا کہ وہ اہل بیت اطہار کی قدرو شان اور اپنے افعال و کردار کی شامت و نحوست جاننے کے باوجود اپنے ضمیر کی ملامت کی پرواہ نہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے باغی بنے اور آل رسول کے خون سے کنارہ کرنے اور اپنے دارین کی روسیاہی سے بچنے کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی شاہزادۂ عالی وقاررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے

مبارز طلب فرمایا صف اعداء میں کسی کو جنبش نہ ہوئی، کسی بہادر کا قدم نہ بڑھا، معلوم ہوتا تھا کہ شیر کے مقابل بکریوں کا ایک گلہ ہے جو دم بخود اور ساکت ہے۔
حضرت علی اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر نعرہ مارا اور فرمایا کہ اے ظالمانِ جفا کیش! اگر بنی فاطمہ کے خون کی پیاس ہے تو تم میں سے جوبہادر ہواسے میدان میں بھیجو ، زور بازوئے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھنا ہوتو میرے مقابل آؤ۔ مگر کس کو ہمت تھی کہ آگے بڑھتا، کس کے دل میں تاب و تواں تھی کہ شیر ژیاں کے سامنے آتا۔ جب آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ دشمنان خونخوار میں سے کوئی ایک آگے نہیں بڑھتا اور ان کوبرابر کی ہمت نہیں ہے کہ ایک کو ایک کے مقابل کریں تو آپ نے سَمَندبادپا کی با گ اٹھائی اور توسن ِصبا رفتار کے مِہْمِیْز لگائی اور صاعقہ وار دشمن کے لشکر پرحملہ کیا، جس طرف زد کی پرّے کے پرّے ہٹادئیے، ایک ایک وار میں کئی کئی دیو پیکر گرادئیے، ابھی مَیْمَنَہ پر چمکے تو اس کو منتشر کیا، ابھی مَیْسَرَہ کی طرف پلٹے تو صفیں درہم برہم کرڈالیں۔ کبھی قلب لشکر میں غوطہ لگایا تو گردن کشوں کے سر موسم خزاں کے پتوں کی طرح تن کے درختوں سے جدا ہوکر گرنے لگے، ہر طرف شوربرپا ہوگیا، دلاوروں کے دل چھوٹ گئے، بہادروں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں، کبھی نیزے کی ضرب تھی، کبھی تلوار کا وار تھا، شہزادۂ اہلِ بیت کا حملہ نہ تھا عذابِ الٰہی کی بلائے عظیم تھی۔
دھوپ میں جنگ کرتے کرتے چمنستانِ اہلِ بیت کے گلِ شاداب کو تشنگی کا غلبہ ہوا، باگ موڑ کر والدِ ماجد کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا:

یَا اَبَتَاہْ! اَلْعَطَشْ

اے پدر ِبزرگو ار !پیاس کا بہت غلبہ ہے۔ غلبہ کی کیا انتہا تین دن سے پانی بند ہے،تیز دھوپ اور اس میں جانباز انہ دوڑ دھوپ ، گرم ریگستان ، لوہے کے ہتھیار جو بدن پر لگے

ہوئے ہیں وہ تمازتِ آفتاب سے آگ ہو رہے ہیں۔ اگر اس وقت حلق تر کرنے کے لئے چند قطرے مل جائیں توفاطمی شیرگُرْبَہ خصلتوں کو پیوندِخاک کر ڈالے۔شفیق باپ نے جانباز بیٹے کی پیاس دیکھی مگر پانی کہاں تھا جو اس تشنۂ شہادت کو دیا جاتا، دستِ شفقت سے چہرۂ گلگوں کا گردو غبار صاف کیا اور اپنی انگشتری فرزند ِارجمند کے دَہان اقدس میں رکھدی۔ پدرِ مہربان کی شفقت سے فی الجملہ تسکین ہوئی پھر شہزادہ نے میدان کا رخ کیا پھر صدا دی:”ہَلْ مِنْ مُّبَارِزْ”کوئی جان پر کھیلنے والا ہوتو سامنے آئے۔
عمربن سعد نے طارق سے کہا: بڑے شرم کی بات ہے کہ اہل بیت کا اکیلا نوجوا ن میدان میں ہے اور تم ہزاروں کی تعداد میں ہو، اس نے پہلی مرتبہ مبارز طلب کیا تو تمہاری جماعت میں کسی کو ہمت نہ ہوئی پھر وہ آگے بڑھاتو صفیں کی صفیں درہم برہم کرڈالیں اور بہادروں کاکھیت کردیا، بھوکا ہے ، پیاسا ہے، دھوپ میں لڑتے لڑتے تھک گیا ہے، خستہ اور ماندہ ہوچکاہے پھر مبارز طلب کرتاہے اور تمہاری تازہ دم جماعت میں سے کسی کو یارائے مقابلہ نہیں۔ تف ہے تمہارے دعوائے شجاعت و بسالت پر ،ہو کچھ غیرت تو میدان میں پہنچ کر مقابلہ کرکے فتح حاصل کر تو میں وعدہ کرتاہوں کہ تونے یہ کام انجام دیا تو عبداللہ ابن زیاد سے تجھ کو موصل کی حکومت دلادوں گا۔ طارق نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں فرزند ِرسول اور اولاد ِبتول سے مقابلہ کرکے اپنی عاقبت بھی خراب کروں پھر بھی تو اپنا وعدہ وفانہ کرے تو نہ میں دنیا کارہا نہ دین کا۔ ابن سعد نے قسم کھائی اور پختہ قول و قرارکیا۔اس پر حریص طارق موصل کی حکومت کی لالچ میں گلِ بستانِ رسالت کے مقابلہ کے لئے چلا، سامنے پہنچتے ہی شہزادۂ والاتبار پر نیزہ کا وار کیا۔ شاہزادۂ عالیجاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا نیزہ ردفرماکر

سینہ پر ایک ایسا نیزہ مارا کہ طارق کی پیٹھ سے نکل گیا اور وہ ایک دم گھوڑے سے گرگیا۔ شہزادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکمالِ ہنرمندی گھوڑے کو ایڑھ دے کر اس کو روندھ ڈالا اور ہڈیاں چکنا چور کردیں۔ یہ دیکھ کر طارق کے بیٹے عمر بن طارق کو طیش آیا اوروہ جھلاتا ہوا گھوڑا دوڑا کر شہزادہ پر حملہ آور ہوا شاہزادہ نے ایک ہی نیزہ میں اس کا کام بھی تمام کیا۔ اس کے بعد اس کا بھائی طلحہ بن طارق اپنے باپ اور بھائی کا بدلہ لینے کے لئے ا ۤتشیں شعلہ کی طرح شہزادہ پر دوڑ پڑا۔ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کرزین سے اٹھالیا اور زمین پر اس زور سے پٹکا کہ اس کا دم نکل گیا، شہزادہ کی ہیبت سے لشکر میں شور برپا ہوگیا۔ابن سعد نے ایک مشہور بہادر مصراع ابن غالب کو شہزادہ کے مقابلہ کیلئے بھیجا، مصراع نے شہزادہ پر حملہ کیا، آپ نے تلوار سے نیزہ قلم کرکے اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ زین تک کٹ گئی دو ٹکڑے ہوکر گر گیا، اب کسی میں ہمت نہ رہی تھی کہ تنہا اس شیر کے مقابل آتا، ناچار ابن سعد نے محکم بن طفیل اور ا بن نوفل کو ایک ایک ہزار سواروں کے ساتھ شاہزادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یکبار گی حملہ کرنے کیلئے بھیجا۔ شاہزادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیزہ اٹھاکر ان پر حملہ کیا اور انہیں دھکیل کر قلب لشکر تک بھگادیا۔
اس حملہ میں شہزادہ کے ہاتھ سے کتنے بدنصیب ہلاک ہوئے، کتنے پیچھے ہٹے، آپ پر پیاس کی شدت بہت ہوئی، پھر گھوڑا دوڑا کرپدرِ عالی قدر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اَلْعَطَشْ اَلْعَطَشْبابا!پیاس کی بہت شدت ہے۔ اس مرتبہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” اے نورِدیدہ !حوضِ کوثر سے سیرابی کا وقت قریب آگیاہے، دستِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناء سے وہ جام ملے گا جس کی لذت نہ تصور میں آسکتی

ہے نہ زبان بیان کرسکتی ہے۔” یہ سن کرحضرت علی اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خوشی ہوئی اور وہ پھر میدان کی طرف لوٹ گئے اور لشکر دشمن کے یمین ویسیار پر حملہ کرنے لگے، اس مرتبہ لشکر ِاشرار نے یکبارگی چاروں طرف سے گھیر کر حملے کرنا شروع کردئیے۔ آپ بھی حملہ فرماتے رہے اور دشمن ہلاک ہوہوکر خاک وخون میں لوٹتے رہے لیکن چاروں طرف سے نیزوں کے زخموں نے تن نازنین کو چکنا چور کردیا تھا اور چمنِ فاطمہ کا گلِ رنگیں اپنے خون میں نہا گیاتھا، پیہم تیغ وسنان کی ضربیں پڑرہی تھیں اور فاطمی شہسوار پر تیر و تلوار کا مینہ برس رہاتھا، اس حالت میں آپ پشت زین سے روئے زمین پر آئے اور سروقامت نے خاکِ کربلا پر استراحت کی۔ اس وقت آپ نے آواز دی:

یَا اَبَتَاہْ!اَدْ رِکْنِیْ اے پدرِبزرگوار!مجھ کو لیجئے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑا بڑھا کر میدان میں پہنچے اور جانباز نونہال کوخیمہ میں لائے، اس کا سرگود میں لیا، حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنکھ کھولی اور اپناسروالد کی گود میں دیکھ کر فرمایا:”جان ما نیاز مندان قربان توباد۔” اے پدر بزرگوار! میں دیکھ رہا ہوں آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں بہشتی حوریں شربت کے جام لئے انتظار کررہی ہیں ۔یہ کہا ا ور جان ، جان آفریں کے سپرد کی۔(1)

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

اہل بیت کا صبرو تحمل اللہ اکبر! امید کے گل نوشگفتہ کو کمھلایا ہوا دیکھا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ِکہا،ناز کے پالوں کو قربان کردیااور شکر الٰہی عزوجل بجالائے،مصیبت واندوہ کی کچھ نہایت ہے، فاقہ پر فاقہ ہیں، پانی کانام و نشان نہیں، بھوکے پیاسے فرزند تڑپ تڑپ کر جانیں دے چکے ہیں، جلتے ریت پر فاطمی نونہال ظلم و جفاسے ذبح کئے گئے، عزیز

واقارب، دوست واحباب، خادم ، موالی ، دلبند، جگرپیوند سب آئین وفااداکرکے دوپہر میں شربت شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قافلہ میں سناٹا ہوگیا ہے۔ جن کا کلمہ کلمہ تسکینِ دل و راحتِ جان تھا وہ نور کی تصویریں خاک و خون میں خاموش پڑی ہوئی ہیں۔ آل رسول نے رضاو صبر کا وہ امتحان دیا جس نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیاہے۔ بڑے سے لے کر بچے تک مبتلائے مصیبت تھے۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے فرزند علی اصغررضی اللہ تعالیٰ عنہ جوا بھی کمسن ہیں، شیرخوار ہیں، پیاس سے بیتاب ہیں،شدتِ تشنگی سے تڑپ رہے ہیں، ماں کا دودھ خشک ہوگیا ہے،پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے، اس چھوٹے بچے کی خشک ننھی زبان باہر آتی ہے، بے چینی میں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور پیچ کھا کھا کر رہ جاتے ہیں، کبھی ماں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کو سوکھی زبان دکھلاتے ہیں۔ نادان بچہ کیا جانتا ہے کہ ظالموں نے پانی بند کردیاہے۔ ماں کا دل اس بے چینی سے پاش پاش ہوا جاتاہے کبھی بچہ باپ کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ جانتاتھاکہ ہر چیز یہ لاکردیا کرتے تھے۔ میری اس بے کسی کے وقت بھی پانی بہم پہنچائیں گے ، چھوٹے بچے کی بے تابی دیکھی نہ گئی۔ والدہ نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: اس ننھی سی جان کی بے تابی دیکھی نہیں جاتی اس کو گود میں لے جائیے اور اس کا حال ظالمانِ سنگدل کو دکھائیے اس پر تورحم آئے گا۔ اس کو تو چند قطرے دے دیں گے۔ یہ نہ جنگ کرنے کے لائق ہے نہ میدا ن کے لائق ہے۔ اس سے کیا عداوت ہے۔
حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس چھوٹے نورِ نظر کو سینہ سے لگاکر سپاہ ِدشمن کے سامنے پہنچے اور فرمایا کہ اپنا تمام کنبہ تو تمہاری بے رحمی اور جوروجفا کے نذر کرچکااور

اب اگر آتش بغض و عناد جوش پر ہے تو اس کے لئے میں ہوں۔ یہ شیر خواربچہ پیاس سے دم توڑ رہا ہے اس کی بے تابی دیکھو اور کچھ شائبہ بھی رحم کا ہوتو اس کا حلق تر کرنے کو ایک گھونٹ پانی دو۔
جفا کار انِ سنگدل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا اور ان کو ذرا رحم نہ آیا۔ بجائے پانی کے ایک بدبخت نے تیر مارا جو علی اصغررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلق چھیدتا ہوا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باز و میں بیٹھ گیا۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ تیر کھینچا، بچہ نے تڑپ کر جان دی، باپ کی گود سے ایک نور کا پتلا لپٹا ہواہے، خون میں نہارہاہے، ا ہل خیمہ کو گمان ہے کہ سیاہ دلانِ بے رحم اس بچہ کو ضرور پانی دے دیں گے اوراس کی تشنگی دلوں پر ضرور اثر کرے گی لیکن جب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شگوفۂ تمنا کوخیمہ میں لائے اور اس کی والدہ نے اول نظر میں دیکھا کہ بچہ میں بے تابانہ حرکتیں نہیں ہیں، سکون کا عالم ہے، نہ وہ اضطراب ہے نہ بے قراری ، گمان ہواکہ پانی دے دیا ہوگا۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، فرمایا: وہ بھی ساقی کوثر کے جامِ رحمت و کرم سے سیراب ہونے کے لیے اپنے بھائیوں سے جا ملا، اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ چھوٹی قربانی بھی قبول فرمائی۔(1)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ اِحْسَانِہٖ وَنَوَالِہٖ۔

رضا و تسلیم کی امتحان گاہ میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے متوسلین نے وہ ثابت قدمی دکھائی کہ عالمِ ملائکہ بھی حیرت میں آگیا ہوگا

قَالَ اِنِّیۡۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾(2) کارازان پر منکشف ہوگیا ہوگا۔

1۔۔۔۔۔۔البدایۃ والنہایۃ، سنۃ احدی وستین،ج۵،ص۶۸۵ملخصاً
والکامل فی التاریخ، سنۃ احدی وستین، ذکر مقتل الحسین،المعرکۃ،ج۳،ص۴۱۷ملخصاً

1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ، سنۃ احدی وستین، ذکر مقتل الحسین، المعرکۃ،ج۳،ص۴۱۸۔۴۱۹ملتقطاً
واللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،کتاب المناقب، باب مناقب اہل البیت،
ج۱،ص۳۶۸
والمستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، باب ذکر شان الاذان،
الحدیث:۴۸۵۲، ج۴،ص۱۶۳

1۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم)، باب نہم، ج۲، ص۱۸۶۔۱۸۸
2۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم)، باب نہم، ج۲، ص۱۸۸

1۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم) ، باب نہم، ج۲، ص۲۳۱۔۲۳۹
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان:اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔(پ۲۵،الشورٰی:۲۵)
1۔۔۔۔۔۔ روضۃ الشہداء (مترجم) ، باب نہم، ج۲، ص۲۰۵۔۲۱۶ ملخصاً و ملتقطاً

1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان:بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۶۹)
۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم) ، باب نہم، ج۲، ص۲۱۶۔۳۳۴ ملخصاً و ملتقطاً

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!