مُردہ بول اُٹھا
حکایت نمبر391: مُردہ بول اُٹھا۔۔۔۔۔۔!
حضرتِ سیِّدُنا ابو علی رُوذَبَارِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں: میں حضرتِ سیِّدُنامَرْعَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے پاس اَنْطَاکِیَہ گیا ،ان کا ایک شاگرد گو ر کن( یعنی قبر کھودنے والا) تھا ۔ اب اس نے اس پیشے کو بالکل تر ک کردیا تھا ۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو اس نے اپنا ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا: ”میں اُجرت پر لوگوں کی قبریں کھودا کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ قبر کھودتے ہوئے میں ایک کافی پرانی قبر میں جاگِرا اور میرا پھاؤڑا قبر پر رکھی ہوئی اینٹ پر لگا تو قبر کا اندرونی منظر ظاہر ہو گیا ۔ میں نے ایک نوجوان کو قبر میں لیٹے ہوئے دیکھا اس کا جسم بالکل تر وتازہ تھا، بہترین خوشبودار ہوا نے اس کی نورانی داڑھی کے سیاہ بالوں کو ایک سمت کر رکھا تھا۔ اس کا کفن بالکل صحیح وسالم تھا گو یا آج ہی پہنایا گیا ہو۔ اچانک اس نے آنکھیں کھول دیں اور میری طرف متوجہ ہو کر کہا: ”اے میرے بھائی! کیا قیامت قائم ہوگئی ؟” میں نے ڈرتے ہوئے کہا: ” نہیں، ابھی قیامت قائم نہیں ہوئی۔”
یہ سن کر اس نے بڑی ہی پیاری آواز میں کہا: ”میرے بھائی! میری قبر کو بند کردو۔” میں نے فورا ًاس کے چہرے پر کفن ڈالا اور قبر بند کر کے واپس چلاآیا اور پھر قسم کھالی کہ آئندہ کبھی بھی کسی کی قبر نہیں کھودوں گا ۔”
(میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ ربُّ العِزَّت نے انسان کو دنیا میں ایک مقررہ مدت کے لئے بھیجا ہے جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ اپنے اعمال کے ذخیرہ کے ساتھ قبر میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کے مطابق اس کا حشر ہوتا ہے۔ اگر نیک ہو تو اس کے لئے قبر میں جنت کی کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں اور وہ پُر سکون نیند سوجاتا ہے۔ موت سے لے کر قیامت تک کی ہزار ہا سال کی مدت اس کے لئے بہت قلیل کردی جاتی ہے۔جبکہ گناہ گاروں کی قبر میں طرح طرح کے عذابات تیار ہوتے ہیں او راس پر یہ مدت بہت طویل کردی جاتی ہے ۔ اللہ ربُّ العزَّت اعمالِ صالحہ کو ہماری اندھیر ی قبر کا چراغ بنائے اور ہمیں عذاب قبر سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)