واقعات

درسِ زہد وتوکُّل

حکایت نمبر271: درسِ زہد وتوکُّل

حضرتِ سیِّدُنا احمد بن حَوَارِی علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُنا ابو سلمان علیہ رحمۃ الرحمن کو یہ فرماتے ہوئے سنا :” ایک مرتبہ میں ”لُکَام” کے پہاڑوں میں گیا،وہاں ایک نوجوان اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس طرح مناجات کر رہا تھا :” اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اے امیدوں کو پورا کرنے والے! اے امید دلانے والے! اے وہ ذات جس کی
عطا سے میرے اعمال مکمل ہوتے ہیں! میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس دعا سے جو تیری بارگاہ تک نہ پہنچے ۔ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بد ن سے جو تیری عبادت کے لئے کھڑا نہ ہو۔الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو تیرا مشتاق نہ ہو ، میں پناہ چاہتا ہوں ایسی آنکھ سے جو تیری یاد میں نہ روئے ۔”
حضرتِ سیِّدُنا ابوسلمان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”جب میں نے اس کا یہ جملہ سنا ” میں پناہ چاہتا ہوں ایسی آنکھ سے جو تیری یاد میں نہ روئے ” تو میں سمجھ گیا کہ اس شخص کو مقامِ معرفت حاصل ہے۔ میں نے کہا :” اے نوجوان! بے شک عارفین کے لئے مقامات ومراتب اورمشتاقوں کے لئے نشانیاں ہیں۔” نوجوان نے پوچھا: وہ علامتیں اور مراتب کیا ہیں ؟ میں نے کہا :”مصائب کو چھپانا، کرامات دکھانے سے بچنا ۔”کہا :” مجھے کچھ اور نصیحت کیجئے۔” میں نے کہا :” ابھی تشریف لے جائیے اور اُس (پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ) کے علاوہ کسی کی طر ف نہ جاؤ اور اُس کے علاوہ کسی سے اُمید نہ رکھو۔ اس راستے میں فقر غِناء ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آنے والی آزمائش درحقیقت شفاء ہے۔ اور تو کُّل زندگی کا بہترین سرمایہ ہے ، بے شک ہر مصیبت کا ایک مقررہ وقت ہے۔نہ اس کی طرف سے ملنے والی خیر کو ٹھکرا، نہ ہی اس کی عطا کردہ اشیاء میں بخل کر ۔ دنیوی خواہشات کی طرف ہر گز نہ جا۔ میری یہ باتیں سن کر اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور آہ وزاری کرنے لگا ۔ میں اسے اسی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ کچھ دور مجھے ایک اور نوجوان سویاہوا نظر آیا ، میں نے اسے جگاکر کہا:” اے نوجوان! اب بیدار ہوجا ، بے شک مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں نہیں آنا ، مرنے کے بعد آرام کرلینا۔”
؎ جاگنا ہے جاگ لے افلاک کے سائے تلے حشر تک سوتا رہے گا خاک کے سائے تلے
نوجوان نے میری آواز سن کر اپنا سر اٹھایا اور کہا:” اے ابوسلمان علیہ رحمۃ ا لرحمن ! مرنے کے بعد موت سے بھی زیادہ سختیاں ہیں۔”میں نے کہا :” اے نوجوان ! جو موت پریقین رکھتا ہے وہ اعمالِ صالحہ کے لئے ہر دم کوشاں رہتا اور اپنے آپ کو تیار رکھتا ہے اور پھر اسے دُنیوی نعمتوں کی خواہش نہیں ہوتی ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقینا خوش نصیب وخوش بخت ہیں وہ لوگ جو آنے والے وقت سے قبل اس کی تیاری کرلیتے ہیں۔ جسے ہر وقت موت کا ڈر ہو اس کے لئے اعمالِ صالحہ کی کوشش آسان ہوجاتی ہے۔جسے اس بات کی فکر ہو کہ موت تمام آسائشوں کو ختم کر دے گی اس کا دل دنیوی چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ جسے فکرِ آخر ت ہو اسے دنیوی افکار سے نجات مل جاتی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دنیاوی فکروں سے نجات عطا فرما کر فکرِ آخرت عطا فرمائے ۔ نفسانی خواہشات کے شر سے ہر دم ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!