نعرۂ تکبیرکی برکت
حکایت نمبر243: نعرۂ تکبیرکی برکت
حضرتِ سیِّدُنامحمدسَمِیْن علیہ رحمۃ اللہ المبین فرماتے ہیں:” اَیامِ ریاضت میں میری کیفیت یہ تھی کہ جو بھی عمل کرتا اسے مستقل کرتا۔ایک مرتبہ میں مجاہدین کے ایک لشکر کے ساتھ جہاد پر گیا۔ دشمنوں کے بہت بڑے رومی لشکر نے مسلمانوں پر زبردست حملہ کیا اور غالب آنے کی بھر پور کوشش کرنے لگے۔ رومی لشکر کی کثرت دیکھ کر مسلمان مجاہدین پر خوف کی سی کیفیت طاری ہونے لگی ۔ میں بھی خو ف محسوس کررہا تھا،میرا نفس مجھے اپنے وطن کی یاددلارہاتھا۔جب نفس نے بہت زیادہ بزدلی کا مظاہرہ کیا تو میں نے اسے ڈانٹااو رشرم دلاتے ہوئے کہا : اے نفسِ کذّاب!تُو تو دعویٰ کرتا تھا کہ تو بہت عبادت گزار اورمجاہدات کا شوقین ہے۔ اب جب وطن سے دور آگیا ہے تو بزدلی کا مظاہرہ کررہا ہے حالانکہ یہی تو موقع ہے کہ تو اپنے شوق کا مظاہر ہ کرے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے تجھے شرم آنی چاہے ۔
پھر میرے دل میں خیال آیا کہ سامنے نہر میں اُتر جاؤں اور غسل کروں۔ چنانچہ، میں نے غسل کیا اورباہر آگیا۔اب میری کیفیت ہی کچھ اورتھی۔ جذبۂ شوق میرے روئیں روئیں سے عیاں تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر میرے اندر اتنا جذبہ کہاں سے آگیا۔ میں نے اپنا اسلحہ زیب ِ تن کیاا ورمیدان جنگ میں گھس کربڑی شدت سے دشمنوں کی صفوں پرحملہ کیا۔ میں خود نہیں جانتا تھا کہ کس طرح لڑرہا ہوں۔ میں دشمن کی صفوں کو چیرتاہواان کے پیچھے چلا گیا اورنہر کے قریب پہنچ کر ”اللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبَر،اللہُ اَکْبَر”کی صدائیں بلند کیں۔ دشمنوں نے تکبیر کی آواز سنی تو ان کے ہوش اُڑ گئے،وہ سمجھے کہ شاید مسلمانوں کی کُمُک (یعنی مدد) کے لئے مجاہدین کی فوج پہنچ چکی ہے۔ پھر رومی فوج کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ دُم دَبا کر بھاگ گئے۔ مسلمان مجاہدین نے ان پربھر پور حملہ کیا ۔ نعرۂ تکبیر کی برکت سے اس جنگ میں رومیوں کے چار ہزار سپاہی مارے گئے اور اللہ ربُّ العزَّت نے میرے اس نعرہ کو مسلمانوں کی فتح ونصرت کا سبب بنادیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)