علماء کی شان وشوکت
علماء کی شان وشوکت
حضر ت سیدنا امام ابن شہاب زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے مروی ہے کہ جب ابراہیم بن ہشام حاکم بنا تو میں اس کے ساتھ ہی رہتا ۔وہ کئی معاملات میں مجھ سے مشورہ کرتا ۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا :” اے زہری (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) !کیا ہمارے شہر میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی صحبت پائی ہو، اگر کوئی ایساشخص تمہاری نظر میں ہے تو بتا ؤ ۔” میں نے کہا : ”ہاں،حضرت سیدنا ابو حازم علیہ ر حمۃ اللہ الدائم اس شہر میں رہتے ہیں، انہیں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبتِ با برکت حاصل ہوئی ہے او ران سے سنی ہوئی کئی حدیثیں بھی آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) بیان فرماتے ہیں ۔”
چنانچہ ابراہیم بن ہشام نے ایک قاصد بھیج کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بلوایا ، آپ تشریف لائے اور سلام کیا ۔ابراہیم بن ہشام نے جواب دیا اور کہا:” اے ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم !ہمیں کوئی حدیث سنائیے ۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”اے ابراہیم بن ہشام! اگر مجھے تمہاری آخرت کی بھلائی مقصود نہ ہوتی تو میں کبھی بھی تیرے پاس حدیث نبوی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سنانے نہ آتا۔ ابراہیم بن ہشام نے پوچھا: ”حضور! آپ یہ بتائیں کہ ہمیں نجات کس طرح حاصل ہوگی؟”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” اس کا ایک ہی طر یقہ ہے کہ تم اللہ عزوجل کے اَحکام کو تمام مخلوق پر ترجیح دو، اللہ عزوجل کے حکم
کے خلاف کسی کی بھی بات نہ مانو، مال حلال طریقے سے حاصل کر و اور جہاں اسے صرف کرنے کا حق ہے وہیں صرف کرو ۔”
ابراہیم بن ہشام کہنے لگا :” ان باتوں پرکَمَا حَقُّہٗ کون عمل کر سکتا ہے؟”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ” اے ابراہیم! اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے دنیا میں سے اتنی چیز ملے جو تجھے کافی ہو تو تیرے لئے تھوڑی سی دنیوی نعمتیں بھی کافی ہیں اگر تو صبر کرے۔ اور اگر تُودنیا کا حریص ہے تو چاہے کتنا ہی مال و زر جمع کرلے تیری حرص ختم نہ ہوگی تُو کبھی بھی دُنیوی دولت سے بے نیاز نہ ہوگا، ہر وقت اس میں اضافے کا متمنی ہوگا ۔”
ابراہیم بن ہشام نے پوچھا :”کیا بات ہے کہ ہم جیسے لوگ موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”تم لوگو ں نے اپنی ساری تو جہ دنیا کی دولت پر دے رکھی ہے او رہر وقت تمہارے سامنے دنیوی نعمتیں موجود رہتی ہیں ۔ اس لئے تمہیں ان نعمتوں سے جدا ہونا پسند نہیں۔ اگر تم آخرت کی تیاری کرتے اور آخرت کے لئے اعمال صالحہ کئے ہوتے تو تم موت کو کبھی بھی ناپسند نہ کرتے بلکہ آخرت کی نعمتوں کی طرف جلدی کرتے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ حکمت بھری باتیں سن کر حضرت سیدنا امام زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے فرمایا:” اے امیر!خدا عزوجل کی قسم !میں نے آج تک کبھی بھی اس کلام سے بہتر کلام نہیں سنا۔” شیخ ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم نے کیسے جامع کلمات کے ساتھ ہمیں نصیحت کی ہے، میں عرصہ دراز سے ان کا پڑوسی ہوں لیکن افسوس !میں کبھی ان کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوسکااوران کی صحبتِ بابر کت سے محروم رہا ۔”
شیخ ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم نے فرمایا: ”اے ابن شہاب زہری( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! اگر تو ان علماء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم میں سے ہوتا جو دنیا داروں سے بے نیاز ی کو پسند کرتے ہیں تو ضرور میری مجلس میں بیٹھتا اور ضرور مجھ سے ملاقات کا سلسلہ رکھتا ۔”
اس پر حضرت سیدناابن شہاب زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے عرض کی: ”اے ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم ! مجھے آپ کی اس بات نے غمزدہ کردیاہے۔” توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”اے زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی! جب کوئی شخص اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر علم حاصل کرتا ہے تو وہ شخص اپنے اس علم کی بدولت مخلوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے، اسے کوئی دُنیوی غرض وغایت نہیں ہوتی اور ایسے عالم ِربّانی کی طرف لوگ اِکتسابِ علم کے لئے آتے ہیں۔ بڑے بڑے اُمراء ودنیا دار لوگ اس عالم ربّانی کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا عالم اُمراء اور عوام دونوں کے لئے با عث نجات ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ انہیں حق با ت ہی کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے۔
اگر علماء کودنیا کی حرص با دشا ہوں کے درباروں میں لے جائے تو پھر علماء اپنی شان کھو بیٹھتے ہیں اور اُمراء ان کو زیادہ
اہمیت نہیں دیتے، ایسے لوگو ں کا علم حاصل کرنا اس لئے ہوتاہے کہ ہماری تعظیم کی جائے، ہماری بات کو اہمیت دی جائے لیکن جب یہ امراء کی محفل میں جاتے ہیں تو ان کا وقار گر جاتا ہے ۔یہ حق بات کہنے کی جرأ ت نہیں رکھتے، ہر وقت با دشاہوں اور اُمراء کی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں ، ایسے علماء ان بادشاہوں اور عوام الناس دو نوں کے لئے ہلاکت کا باعث بنتے ہیں ۔”
حضرت سیدنا ابو حازم علیہ رحمۃ اللہ الدائم کی یہ باتیں سننے کے بعد ابراہیم بن ہشام نے کہا :”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی حاجت بیان کریں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو جس چیز کی ضرورت ہو وہ دی جائے گی۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”اے ابراہیم بن ہشام! میں اپنی حاجتیں اس پاک پروردگار عزوجل کی بارگاہ میں عرض کرتا ہوں جو زمین وآسمان کا مالک ہے، میری اُمیدوں کا مرکز صرف میرامالکِ حقیقی عزوجل ہے ۔میں اس کے علاوہ کسی اور کا محتاج نہیں ، میرا مالک عزوجل مجھے جو چیز بھی عطا فرماتا ہے میں اسے بخوشی قبول کرلیتا ہوں اور جس چیز کو مجھ سے روک لیتا ہے میں کبھی بھی اس کی شکایت نہیں کرتا نہ ہی ناشکری کرتا ہوں بلکہ میں اپنے پروردگار عزوجل سے ہر حال میں خوش ہوں۔اس کے علاوہ کسی چیز کو پسند نہیں کرتا۔ یہ دو نعمتیں میرے نزدیک بہت بڑا سرمایہ ہیں:(۱)۔۔۔۔۔۔ اللہ عزوجل کی رضا(۲)۔۔۔۔۔۔زُہدوتقوی۔یہ دو نعمتیں مجھے ہر چیز سے محبوب ہیں۔”
ابراہیم بن ہشام نے عرض کی:” اے ابو حازم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! برائے کرم آپ ہمارے ہاں تشریف لایا کریں تا کہ ہم آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اکتساب فیض کر سکیں ، اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہ آنا چاہیں تو میں خودحاضر ہوجایا کرو ں گا۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” اے ابراہیم بن ہشام !تُو میرا خیال چھوڑدے اور میرے گھر بھی نہ آنا، اسی میں میری بھلائی ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ تُونیک اعمال کی طر ف را غب ہوجا، اگر نیک کام کریگا تو کامیابی کی راہ پر گا مزن ہوجائے گا اور تجھے نجات حاصل ہوجائے گی ۔” اتنا کہنے کے بعدآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)