اسلام

مالِ یتیم کی حفاظت

مالِ یتیم کی حفاظت

ابو عبداللہ احمد بن سلمان کہتے ہیں: ” میں موسیٰ بن بُغاء کا کاتب تھا ، اس وقت ہم ”رے” میں تھے اور وہاں کے قاضی حضرت سیدنا احمد بن بدیل کوفی علیہ رحمۃاللہ القوی تھے ۔
احمد بن بُغاء کی اس علاقے میں کچھ زمین تھی، جس میں وہ تعمیراتی کام کروانا چاہتا تھا ۔ اسی جگہ سے متصل زمین کا ایک ٹکڑا ایک یتیم بچے کی ملکیت میں تھا ، مجھے موسی بن بُغاء نے حکم دیا کہ وہاں جاکر زمین وغیرہ دیکھوں اور مزید زمین خرید نی پڑے تو خرید لوں۔ میں وہاں پہنچا اور زمین کو دیکھا تو یہی بات سمجھ آئی کہ جب تک اس یتیم کی زمین نہ خرید ی جائے گی اس وقت تک تعمیراتی کام ٹھیک انداز میں نہ ہوگا۔ چنانچہ میں وہاں کے قاضی حضرت سیدنا احمد بن بدیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گیا اورعرض کی: ”آپ یتیم بچے کی زمین ہمیں فروخت کردیں ۔” قاضی صاحب نے انکار کرتے ہوئے فرمایا :” اس یتیم بچے کو اپنی زمین بیچنے کی ابھی کوئی حاجت نہیں اور میں یہ جرأ ت نہیں کرسکتا کہ زمین بیچ کر اسے زمین سے محروم کردوں۔ ہوسکتا ہے میں زمین کے بدلے قیمت لے لو ں اور خدا نخواستہ کسی طر ح اس کا مال ہلاک ہوجائے توگو یا میں اس کے حق کو ضائع کرنے والا ہوجاؤں گا۔”
میں نے کہا : ”آپ ہمیں وہ زمین بیچ دیں ہم اس کی دُ گنی قیمت ادا کریں گے۔ ” قاضی صاحب نے کہا : ”میں دگنی قیمت پر بھی اس کی زمین نہیں بیچوں گا کیونکہ مال تو گھٹتابڑھتا رہتا ہے۔ زیادہ مال کا لالچ مجھے زمین بیچنے کی طرف راغب نہیں کرسکتا۔” الغر ض میں نے قاضی صاحب کو ہر طر ح سے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود ۔ ان کے سامنے میری ایک نہ چلی۔ ان کی باتوں نے مجھے پریشان کردیا۔ میں نے تنگ آ کر کہا:”قاضی صاحب! آپ ایسا قدم نہ اٹھائیے جس سے آپ کو پریشانی ہو، کیا آپ جانتے نہیں کہ یہ موسیٰ بن بغاء کا معاملہ ہے؟ ذرا سوچ سمجھ کر قدم اٹھایئے، ایسے لوگو ں سے ٹکر لینا درست نہیں۔” قاضی صاحب نے کہا :” اللہ عزوجل تجھے عزت عطا فرمائے ،تو میرے معاملے میں پریشان نہ ہو ،بے شک میرا پر ورد گار عزوجل عزت والا اور بلندوبرتر ہے۔”قاضی صاحب کی یہ باتیں سن کر میں واپس پلٹ آیا اور اللہ عزوجل سے حیا ء کرتے ہوئے میں دوبارہ قاضی صاحب کے پاس نہ گیا۔ جب میں ” موسیٰ بن بغاء ” کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے پوچھا:” تمہیں جس کام کے لئے بھیجا تھا اس کا کیا ہوا ؟” میں نے قاضی صاحب سے ملاقات کا سارا واقعہ بیان کردیا اور جب اسے قاضی صاحب کا یہ جملہ بتایاکہ ” بے شک میرا پرورد گار عزوجل بلند و عظیم ہے۔ ”تویہ سنتے ہی موسیٰ بن بغاء رونے لگا اور بار بار اسی جملے کو دہراتا رہا پھر مجھ سے کہا :”اب تم اس زمین کورہنے دو اور قاضی صاحب کو تنگ نہ کرو۔ جاؤ! اور اس نیک مرد کے حالات معلوم کرو۔اگر اسے کوئی حاجت درپیش ہو تو میں اسے پورا کرو ں گا، ایسے نیک لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں ۔”

میں موسیٰ بن بغاء سے رخصت ہوکرحضرت سیدنا احمد بن بذیل کوفی علیہ رحمۃاللہ القوی کے پاس آیا اور کہا : ”قاضی صاحب! مبارک ہو، امیر موسیٰ بن بغاء نے زمین والے معاملے میں آپ کوعافیت بخشی اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ میں نے وہ تمام باتیں جو ہمارے درمیان ہوئی تھیں،تفصیلاًموسیٰ بن بغاء کو بتادیں۔ اب امیر موسیٰ بن بغاء نے یہ حکم دیا ہے کہ اگرآپ کو کوئی حاجت ہو تو ہمیں بتا ئیں ہم ضرور پورا کریں گے ۔”
قاضی صاحب نے اسے دعا ئیں دی اور کہا: ”یہ سب اس کا صلہ ہے کہ میں نے ایک یتیم کے مال کی حفاظت کی، میں اس کے بدلے دنیوی مال ودولت کا طلب گار نہیں۔” پھر میں نے موسیٰ بن بغاء کے حکم سے قاضی صاحب کو ایک لونڈی ہبہ کر دی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامين صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!