قبر کا عذاب حق ہے
قبر کا عذاب حق ہے
(۱) عَنْ الْبَرَاء بْنِ عَازِبٍ عَنَْ رَّسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ َیَأْتِیہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُولَانِ لَہُ مَنْ رَبُّکَ فَیَقُولُ رَبِّیَ اللَّہُ فَیَقُولَانِ لَہُ مَا دِینُکَ فَیَقُولُ دِینِیَ الْإِسْلَامُ فَیَقُولَانِ مَا ہَذَا الرَّجُلُ الَّذِی بُعِثَ فِیکُمْ قَالَ فَیَقُولُ ہُوَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَقُولَانِ لَہُ وَمَا یُدْرِیکَ فَیَقُولُ قَرَأْتُ کِتَابَ اللَّہِ فَآمَنْتُ بِہِ وَصَدَّقْتُ فَذَلِکَ قَوْلُہٗ:{یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ} الْآیَۃُ قَالَ فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنْ السَّمَاءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِی فَأَفْرِشُوہُ مِنْ الْجَنَّۃِ وَأَلْبِسُوہُ مِنْ الْجَنَّۃِ وَافْتَحُوا لَہُ بَابًا إِلَی الْجَنَّۃِ فَیُفْتَحُ قَالَ فَیَأْتِیہِ مِنْ رَوْحِہَا وَطِیبِہَا قَالَ وَیُفْسَحُ لَہُ فِیہَا مَدَّ بَصَرِہِ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَذَکَرَ مَوْتَہُ قَالَ وَیُعَادُ رُوحُہُ فِی جَسَدِہِ وَیَأْتِیہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہِ فَیَقُولَانِ مَنْ رَبُّکَ فَیَقُولُ ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی فَیَقُولَانِ لَہُ مَا دِینُکَ فَیَقُولُ ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی فَیَقُولَانِ مَا ہَذَا الرَّجُل الَّذِی بُعِثَ فِیکُمْ فَیَقُولُ ہَاہْ ہَاہْ لَا أَدْرِی
حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں تو اس کو بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ تو مردہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ۔ تو فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر فرشتے پوچھتے ہیں کون ہیں یہ جو تم میں مبعوث فرمائے گئے تھے ؟ تو مردہ کہتا ہے کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیں۔ پھر فرشتے دریافت کرتے ہیں کہ تمہیں کس نے بتایا ( کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیں) تو مردہ کہتا ہے میں نے خدائے تعالیٰ کی کتاب کو پڑھا تو ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی ( حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا) تو خدائے تعالیٰ کے اس قول{ یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوْابِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ }(1) کا یہی مطلب ہے (یعنی مومن خدائے تعالیٰ کے فضل سے فرشتوں کو جواب دینے میں ثابت رہتا ہے ) حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا پھر ایک پکار نے والا آسمان سے پکارکر کہتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا تو اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھائو اور اس کو جنت کا کپڑا
فَیُنَادِی مُنَادٍ مِنْ السَّمَاء أَنْ کَذَبَ فَأَفْرِشُوہُ مِنْ النَّارِ وَأَلْبِسُوہُ مِنْ النَّارِ وَافْتَحُوا لَہُ بَابًا إِلَی النَّارِ قَالَ فَیَأْتِیہِ مِنْ حَرِّہَا وَسَمُومِہَا قَالَ وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتَّی تَخْتَلِفَ فِیہِ أَضْلَاعُہُ ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہُ أَعْمَی وَاَصَمُّ مَعَہُ مِرْزَبَّۃٌ مِنْ حَدِیدٍ لَوْ ضُرِبَ بِہَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا فَیَضْرِبُہُ بِہَا ضَرْبَۃً یَسْمَعُہَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیرُ تُرَابًا ثُمَّ یُعَادُ فِیہِ الرُّوحُ۔ (1)
پہنائو او راس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ تو دروازہ کھول دیا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو اس کے پاس جنت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے ۔ اور حدِّ نگاہ تک اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے ۔ ( یہ حال تو مومن کا ہے ) اور اب رہ گیا کافر تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس کی روح اس کے جسم میں واپس کی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں تو اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون
ہے ؟توکافر مردہ کہتاہے ہاہ ہاہ میں نہیںجانتا۔ پھر فرشتے دریافت کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا ، پھر فرشتے پوچھتے ہیں کون ہیں جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے تو وہ کہتا ہے ہا ہ ہاہ میں نہیں جانتا۔ تو آسمان سے ایک ندا دینے والا پکار کر کہتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھائو، اور آگ کا کپڑا پہنائو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا تو اس کے پاس جہنم کی گرمی اور لپٹ آتی ہے اور کافر کی قبر اس پر تنگ کی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں اِدھر کی اُدھر ہوجاتی ہیں پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس کو پہاڑ پر مار ا جائے تو وہ مٹی ہوجائے ۔ فرشتہ اس گرز سے کافر کو ایسا مارتا ہے کہ اس کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہے مگر انسان اور جن نہیں سنتے ہیں تو وہ مٹی ہوجاتا ہے پھر اس کے اندر روح لوٹائی جاتی ہے ۔ (احمد، ابوداود، مشکوۃ)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ:
اشارت بہذا بآں حضرت صلی اللہ تعالیعلیہ وسلم یا از جہت شہرت امر وحضور او ست در اذہان ما اگرچہ غائب، ست یا باحضار ذات شریف وے در عیاں وبایں طریق کہ در قبر مثالے از حضرت وے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حاضر می ساختہ باشند تا بمشاہدہ جمال جاں افزائے او عقدہ اشکال کہ درکار افتادہ کشادہ شود و ظلمت فراق بنور لقائے دل کشائے او روشن گردد۔ (1)
یعنی ھذا ’’ یہ ‘‘ کے ساتھ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اشارہ کرنا یا تو اس وجہ سے ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ذات مقدس مشہور ہے اور حضور کا تصور ہمارے دلوں میں موجود ہے اگرچہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہمارے سامنے رونق افروز نہیں۔ اور یا توا س وجہ سے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ذات گرامی کھلم کھلا پیش کی جاتی ہے اس طرح کہ قبر میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی شبیہ مبارک لائی جاتی ہے تاکہ ان کے جمالِ جان افزاء سے ا ن مشکلات کی گرہیں کہ جواب دینے میں پیش آئیں کھل جائیں اور فراق کی تاریکی ان کی دل کشا ملاقات کے نور سے روشن ہوجائے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول، ص ۱۱۵)
(۲)عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا اُقْبِرَ(2) الْمَیِّتُْ أَتَاہُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ یُقَالُ لِأَحَدِہِمَا الْمُنْکَرُ وَلِلْآخَرِ النَّکِیرُ فَیَقُولَانِ مَا کُنْتَ تَقُولُ فِی ہَذَا الرَّجُلِ فَیَقُولُ ہُوَ عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَیَقُولَانِ قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُولُ ہَذَا ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکار ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جب قبر میں مردہ کو رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو کالے فرشتے نیلی آنکھوں والے آتے ہیں جن میں سے ایک کا نام منکر (3)ہے اور دوسر ے کا نکیر، دونوں فرشتے اس مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تو اس ذات ِ گرامی کے بارے میں کیا کہتا تھا تو مر دہ کہتا ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتاہوں
فِی سَبْعِینَ ثُمَّ یُنَوَّرُ لَہُ فِیہِ ثُمَّ یُقَالُ لَہُ نَمْ فَیَقُولُ أَرْجِعُ إِلَی أَہْلِی فَأُخْبِرُہُمْ فَیَقُولَانِ نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوسِ الَّذِی لَا یُوقِظُہُ إِلَّا أَحَبُّ أَہْلِہِ إِلَیْہِ حَتَّی یَبْعَثَہُ اللَّہُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِکَ وَإِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُ مِثْلَہُ لَا أَدْرِی فَیَقُولَانِ قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُولُ ذَلِکَ فَیُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِی عَلَیْہِ فَتَلْتَئِمُ عَلَیْہِ فَتَخْتَلِفُ أَضْلَاعُہُ فَلَا یَزَالُ فِیہَا مُعَذَّبًا حَتَّی یَبْعَثَہُ اللَّہُ مِنْ مَضْجَعِہِ۔ (1)
کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) خدائے تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ( یہ سن کر ) وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں کہ ہم پہلے سے جانتے تھے کہ تو یہی کہے گا۔ پھر اس کی قبر ستر(۷۰) گز لمبی اور ستر(۷۰) گز چوڑی کردی جاتی ہے اس کے بعد قبر میں روشنی کی جاتی ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’سوجا‘‘ تو مردہ کہتا ہے کہ میں اپنے اہل و عیال میں جا کر اس حال سے ان کو آگاہ کردوں۔ تو فرشتے
کہتے ہیں۔ ’’سو جیسے دولہا سوتا ہے ‘‘ جس کو صرف وہی شخص جگا سکتا ہے کہ جو اس کے اہل میں سب سے زیادہ محبوب ہو (تو وہ سو جاتا ہے ) یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) اس کی قبر سے اٹھائے گا۔ (یہ حال تو مومن کا ہے ) اور اگر مردہ منافق ہوتا ہے تو فرشتوں کے جواب میں کہتا ہے کہ میں نے لوگوںکو جو کہتے ہوئے سنا تھا اسی کے مثل میں بھی کہتا تھا۔ خود میں کچھ جانتا نہیں تھا تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم لوگ جانتے تھے کہ تو ایسا ہی کہے گا۔ پھر زمین کو حکم دیا جائے گاکہ اس کو دبا تو وہ دبائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجائیں گی تو اسی طرح وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔ یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے ۔ (ترمذی، مشکوۃ)
(۳)عَنْ أَبِی سَعِیْدنِ الْخُدْرِی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَیُسَلَّطُ عَلَی الْکَافِرِ فِی قَبْرِہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ تِنِّیناً تَنْہَسُہُ وَتَلْدَغُہُ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَۃُ، وَلَوْ أَنَّ تِنِّیناً مِنْہَا نَفَخَ فِی الأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ خَضْرَاء۔ (2)
حضرت ابوسعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسول کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ کافر پر اس کی قبر میں ننانوے (۹۹) اژدھے مقرر کیے جاتے ہیں جو اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈستے رہیں گے ان اژدھوں میں کا کوئی ایک اگر زمین پر پھنکار دے تو
زمین سبزہ پیدا کرنے سے محروم ہوجائے ۔ (دارمی ، مشکوۃ)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’ملائکہ و ماروکژدم گزیدن ایشاں کہ درا حادیث واقع شدہ است ہمہ بحکم واقع موجود اند نہ محض مثال و خیال و آنکہ مانہ بنییم و نہ دریا بیم در وجودآن زیاں نہ داردزیر ا کہ عالم ملکوت رابچشم سر نہ تواں دید آنراچشم دیگر ست۔ ‘‘ (1)
یعنی فرشتوں اور سانپوں اور بچھوئوں کا مردوں کو تکلیف پہنچانا جیسا کہ احادیث کریمہ میں بیان کیا گیا ہے سب حقیقت میں واقع اور موجود ہیں محض مثال و خیال نہیں۔ اور ہمارا نہ دیکھنا اور معلوم نہ کرپانا ان کے وجود کو مضر نہیں اس لیے کہ عالم ملکوت کو سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے اس کے لیے ایک دوسری آنکھ چاہیے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول ص۱۱۴)
اور حضرت مُلاّ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں:
’’إِنْ قِیلَ نَحنُ نُشاھِدُ المیِّتَ عَلی حَالِہِ فَکَیفَ یُسئالُ وَیُقعَدُ وَیُضرَبُ وَلَا یَظْھَرُ أَثَرٌ؟ فَالْجَوَابُ أَنَّہُ مُمْکنٌ وَلہ نَظیرٌ فِی الشَّاھدِ وَھُوَ النَّائِم فَإِنَّہ یَجِدُ لَذَّۃً وَأَلمًا یحسّہٗ وَلَا نحسّہٗ وَکذَا یَجِدُ الیقظان لذّۃً وألمًا یَسْمعہُ وَیتفکَّر فِیہِ وَلَا یشَاھِد ذَلکَ جَلِیْسہ وَکَذَلک کَانَ جبریل یَأتِی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَیوحِيْ بالقرآن المجید وَلَا یَرَاہُ أَصْحَابُہُ‘‘(2)
یعنی اگر اعتراض کیا جائے کہ ہم لوگ مردہ کو اس کے حال پر دیکھتے ہیں پھر کیونکر بٹھا کر اس سے پوچھا جاتا ہے اور مارا جاتا ہے حالانکہ کوئی بات نظر نہیں آتی۔ تو جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن ہے ( کہ مردہ کے ساتھ سب کاروائیاں ہوں اور ہمیں نظر نہ آئیں) اور اس کی نظیر مشاہدہ کی دنیا میں موجود ہے چنانچہ سونے والا آدمی نیند میں راحت و رنج (کی چیزوں کو) دیکھ کر احساس کرتا ہے اور ہم ( اس کے پاس رہ کر) نہیں معلوم کر پاتے ( کہ سونے والے پر کیا واقعہ گزررہا
ہے ) اور اسی طرح بیدار آدمی اچھی یا بری خبر سن کر اور سوچ کر لذت یا تکلیف محسوس کرتا ہے اور پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا ، اور اسی طرح حضرت جبریل عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام قرآن مجید کی وحی لے کر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاس حاضر ہوتے تھے ( خود حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تو حضرت جبریل عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کو دیکھتے تھے ۔ )مگر صحابہ کرام ان کو نہیں دیکھ پاتے تھے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ، جلد اول، ص ۱۶۳)
انتباہ :
(۱)… مرنے کے بعد مسلمانوں کی روحیں حسب مراتب مختلف مقاموں میں رہتی ہیں۔ بعض کی قبر پر، بعض کی چاہ زمزم میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان ، بعض کی پہلے دوسرے ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی اوپر اور بعض کی روحیں زیر عرش قندیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ علیین میں ۔ اور کافروں کی خبیث روحیں بعض کی ان کے مرگھٹ یا قبر پر، بعض کی چاہ برہوت میں کہ یمن میں ایک نالا ہے ، بعض کی پہلی دوسری ساتویں زمین تک اور بعض کی اس کے بھی نیچے سجین میں مگر کہیں بھی ہوں اپنے جسم سے ان کا تعلق باقی رہتا ہے ۔ (1) (بہار شریعت)
(۲)…قبر میں منکر نکیر کا سوال حق ہے ۔ اس کا انکار کرنے والا گمراہ بدمذہب ہے ۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فقہ اکبر مع شرح للملا علی قاری ص:۱۲۱ میں فرماتے ہیں ’’سُوَالُ مُنْکَرٍوَ نَکِیرفِی القبرحقّ‘‘ یعنی قبر میں منکر نکیر کا سوال حق ہے ۔ (2)
(۳)…مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے تو جہاں کہیں ہوگا وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب پائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کسی جانور نے کھالیا تو اس کے پیٹ میں سوال ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب پائے گا۔
حضرت ملّا علی قاری علیہ ر حمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں : ’’السُّوَالُ یَشْمَلُ الأَموَاتِ جَمِیْعَھَا حَتَّی أَنَّ مَنْ مَاتَ وَأَکَلتْہُ السِّبَا عُ‘‘ یعنی سوال سب مردوں سے کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد درندے جانور کھا لیں تو بھی سوال کیا جائے گا۔ (3) (مرقاۃ جلد اول ص۱۶۸)
(۴)… عذابِ قبر اور تنعیم قبر حق ہے اس کا انکار کرنے والا گمراہ ہے ۔ اہلِ سنت و جماعت سے خارج ہے ۔ حضرت مّلا علی قاری علیہ ر حمۃ اللہ الباری شرح فقہ اکبرص:۱۲۲ میں فرماتے ہیں ’’ عَذَابُہٗ (أیِ الْقَبْرِ) حَقٌّ کَائِنٌ لِکُفَّارٍ کُلِّھِمْ أَجْمَعِیْنَ وَلِبَعْضِ الْمُسْلِمِیْنَ وَکَذَا تَنْعِیْمُ بَعضِ المُؤمِنِینَ حَقٌّ ‘‘(1)
یعنی قبرکا عذاب حق ہے جو سب کافروں اور بعض (گنہگار) مسلمانوں پر ہوگا اور ایسے ہی تنعیم قبر بعض مومنین کے لیے حق ہے ۔
(۵)…جسم اگرچہ گل جائے جل جائے یا خاک ہوجائے مگر اس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے اور وہی مَوْرِدِ عذاب و ثواب ہوں گے ۔ وہ اجزاء ریڑھ کی ہڈی میں ہوتے ہیں اور اس قدر باریک ہوتے ہیں کہ نہ کسی خرد بین سے نظر آتے ہیں ، نہ آگ انہیں جلاتی ہے اور نہ زمین انہیں گلا سکتی ہے ۔ یہی جسم کے تخم ہیں خدائے تعالیٰ قیامت کے دن مردہ کے منتشر اجزاء کو پہلی ہیئت پر لا کر اِنہیں اجزائے اصلیہ پر کہ محفوظ ہیں ترکیب دے گا اور ہر روح کو اسی جسم سابق میں بھیجے گا۔ (2) (بہار شریعت)
(۶)…انبیائے عِظَام علیہم الصلوۃ والسلام اولیائے کِرام علمائے اَعلام، شہدائے اسلام، حفاظ قر آن جو قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور جو منصب محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ تعالیٰ کی معصیت نہ کی ہو۔ اور وہ لوگ کہ اپنے اوقات درود شر یف میں مستغرق رکھتے ہیں ان کے بدن کو مٹی نہیں کھاسکتی ، جو شخص انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی شان میں یہ خبیث کلمے کہے کہ ’’ مرکے مٹی میں مل گئے ‘‘ تو وہ گمراہ ، بددین خبیث اور مرتکب توہین ہے ۔ (3) (بہار شریعت ، جلد اول ص ۲۹)
٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – پارہ ۱۳، رکوع ۱۶۔ یعنی خدائے تعالی ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ۔ ۱۲منہ