بادشاہ کے سامنے حق گوئی
بادشاہ کے سامنے حق گوئی
ایک دفعہ بادشاہ حضرت سیِّدُنا ابو محمد عبداللّٰہ قطان رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے قتل
کے در پے ہو گیا تو سپاہی آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو گرفتار کر کے وزیر کے پاس لے گئے ۔وزیرنے آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہکو اپنے سامنے بٹھایا تو آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’اے ظالم انسان! اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور اپنے نفس کے دشمن! مجھے کیوں تکلیف پہنچا رہا ہے ؟‘‘وزیر بولا : ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے جو زندگی تمہیں دی ہے اس کے بعد اب تم کبھی زندہ نہیں رہ سکتے ۔‘‘ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اس سے ارشاد فرمایا : ’’تو موت کو قریب نہیں لاسکتا اورتقدیر کا لکھا ٹال نہیں سکتا بلکہ یہ سب کچھ جو تُوکہہ رہا ہے نہیں ہو گا، البتہ! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! میں تمہارے جنازے میں ضرور شریک ہوں گا۔‘‘ وزیر نے اپنے محافظوں کو حکم دیا : ’’اسے قید کر دو یہاں تک کہ میں اس کے قتل کے بارے میں بادشاہ سے مشورہ کر لوں ۔‘‘ پس اس رات آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو قید کر دیا گیااورآپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ قید خانے کی طرف جاتے ہوئے فرما رہے تھے : ’’مومن کا قید خانے میں مسلسل رہنا انتہائی تعجب کی بات ہے بلکہ یہ بھی قیدخانے (یعنی دُنیا)کے بعض گھروں میں سے ایک گھرہے ۔‘‘دوسرے دن جب بادشاہ تخت پربیٹھاتو وزیر نے شیخ (رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ)کا سارا ماجرا کہہ سنایا۔بادشاہ نے آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو دربار میں بلالیا، اس نے ایسی وضع قطع کے ایک انسان کو دیکھا جس کی طرف کوئی توجہ نہ کرے اور نہ ہی اہل دنیا میں سے کوئی اس کی بھلائی چاہتا ہو ۔یہ سب کچھ ان کی حقیقت بیانی اور لوگوں کے عیوب کوظاہر کر دینے کے سبب تھااوروہ لوگ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ پر ظلم و جبر کی قدرت نہ رکھتے تھے ۔بہرحال
بادشاہ نے آپ سے نام ونسب پوچھنے کے بعدکہا : ’’کیا آپ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدت کا اقرار کرتے ہیں ؟‘‘ تو آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے مختلف جگہوں سے قرآنِ کریم کی تلاوت فرمائی جس سے بادشاہ کوبہت تعجب ہوااوروہ آپ سے بے تکلف ہو کر اپنی سلطنت اور اس کی وسعت کے بارے میں پوچھنے لگا کہ ’’آپ میری سلطنت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟‘‘تو آپ مسکرانے لگے ۔بادشاہ نے کہا : ’’آپ کس بات پرمسکرا رہے ہیں ؟‘‘ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہنے جواب دیا : ’’جس یاوہ گوئی کا تو شکار ہے اسے تُو بادشاہی و سلطنت کا نام دیتاہے جبکہ تُو خود کو بادشاہ و سلطان کہہ رہا ہے حالانکہ تمہاری حیثیت اس بادشاہ کی سی ہے جس کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے یہ ارشاد فرمایا :
وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا(۷۹) (پ ۱۶ ، الکھف : ۷۹)
ترجمۂ کنز الایمان : اور ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا۔
وہ بادشاہ توآج آگ کی مشقت جھیل رہاہوگایااسے آگ سے جزادی جارہی ہوگی اور تو ایسا شخص ہے جس کے لئے روٹی پکائی گئی ہے اورکہاجاتاہے : ’’ اسے کھائیے ۔‘‘پھرآپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے بادشاہ پراپنی گفتگوکومزیدسخت کرتے ہوئے ہروہ بات کہہ ڈالی جواسے ناپسندہواور غضب میں مبتلا کردے ۔دربارمیں وزرا اورفقہاءِکرام کی ایک کثیر تعداد موجود تھی، بادشاہ چپ ہو گیا اورشرمندہ ونادم ہوکرکہنے
لگا : ’’یہ شخص ہدایت یافتہ ہے ۔‘‘پھرآپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہسے عرض کی : ’’اے عبداللّٰہ ! آپ ہماری مجلس میں آتے رہاکریں ۔‘‘ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : ’’یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ تیری مجلس زبردستی کی ہے اور جس محل میں تورہتا ہے یہ بھی تم نے ناحق چھینا ہوا ہے ، اگر میں مجبور نہ ہوتا تو کبھی بھی یہاں نہ آتا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّمجھے ، تمہیں اورتم جیسوں کو الگ الگ رکھے ۔‘‘ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ وہی وزیر فوت ہو گیا اور آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اس کی نماز ِ جنازہ پڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’میں اپنی قسم سے بَری ہو گیا۔‘‘ (الحدیقۃ الندیۃ، ۱/۲۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائی !کسی کے سادہ لباس وغیرہ کودیکھ کر اُسے حقیر اور کمزور جاننا بڑی بھول ہے ۔کیا معلوم ہم جسے حقیر تصوُّر کررہے ہیں وہ کوئی گدڑی کا لعل یعنی مقبول ہستی ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد