اسلامواقعات

تعظیم و توقیر

تعظیم و توقیر:

ذیل میں وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کا ذکر ہے:
(الف)
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ (۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا (۹) (فتح، ع۱)
ہم نے تجھے احوال بتانے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ تم اللّٰہ اور اسکے رسول پر ایمان لاؤاور اسکی مدد کرو اور اسکی تعظیم کرو اور خدا کو شام و صبح پاکی کے ساتھ یاد کرو۔ (۱ )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کے واجب ہونے کی تعلیم دی ہے۔
(ب)
{1} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (۱)
اے ایمان والو! اللّٰہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللّٰہ سے ڈرو تحقیق اللّٰہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ( ۲)
{2} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (۲)
اے ایمان والو! تم اپنی آواز نبی کی آواز سے اونچی نہ کرواور اس سے بات اونچی نہ کہو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کہتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت جاویں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (۳ )

{3} اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (۳)
تحقیق جو لوگ رسول اللّٰہ کے پاس اپنی آوازیں پست کرتے ہیں وہی ہیں جن کے دلوں کو اللّٰہ نے پرہیزگاری کیلئے جانچا ہے ان کیلئے معافی اور بڑا ثواب ہے۔ (۱ )
{4} اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ (۴)
تحقیق وہ لوگ جو تجھے حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ (۲ )
{5} وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۵) (حجرات، شروع)
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تو ان کی طرف نکلتا تو ان کے واسطے بہتر ہوتا اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۳ )
سورۂ حجرات کی ان پانچ آیتوں میں اللّٰہ تعالٰی نے مومنوں کو آداب تعلیم فرمائے ہیں ۔
آیہ {1} میں بتایا گیا ہے کہ تم کسی قول یا فعل یا حکم میں آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پیش دستی نہ کرو۔ (۴ ) مثلاً جب حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں کوئی سوال کرے تو تم حضور سے پہلے اس کا جواب نہ دو۔ جب کھانا حاضر ہو تو حضور سے پہلے کھانا شروع نہ کرو۔جب حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی جگہ کو تشریف لے جائیں تو تم بغیر کسی مصلحت کے حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے نہ چلو۔امام سہل بن عبد اللّٰہ تُسْتَرِی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰیعَلَیْہاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی نے اپنے مومن بندوں کو یہ ادب سکھایا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے تم بات نہ کرو۔ جب آپ فرمائیں تو تم آپ کے ارشاد کو کان لگا کر سنو اور چپ رہو۔آپ کے حق کی فروگذاشت (۵ ) اور آپ کے احترام و توقیر کے ضائع کرنے میں تم خدا سے ڈرو۔خدا تمہارے قول کو سنتا اور تمہارے عمل کو جانتا ہے۔

آیہ {2} کا شان نزول یہ ہے کہ ۹ ھ میں بنی تمیم کا ایک وفد آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہم پرکسی کو امیر مقرر فرما دیں ۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ آپ قَعْقَاع بن مَعْبَد کو امیر بنادیں ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ اقرع بن حابس کو امیر بنادیں ۔حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ آپ میری مخالفت کرتے ہیں ۔ حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ نہیں ! اس طرح دونوں جھگڑ پڑے اور ان کی آوازیں بلند ہو گئیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر دھیمی آواز سے کلام کیا کرتے کہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دوبارہ دریافت کرنے کی حاجت پڑتی (۱ ) اور حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بقول حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا قسم کھالی کہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کلام نہ کیا کروں گامگر اس طرح جیسا کہ کوئی اپنے ہمراز سے پوشیدہ باتیں کرتا ہے۔ ( ۲)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ جب آیہ
’’ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘ (۳ )
نازل ہوئی تو حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (جو بلند آواز اور خطیب ِانصار تھے) گھر میں بیٹھ گئے۔ کہنے لگے کہ میں دوزخیوں میں سے ہوں اور وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے۔ ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا کہ ثابت کا کیا حال ہے۔ کیا وہ بیمار ہے؟ حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ وہ میرا ہمسایہ ہے مجھے معلوم نہیں کہ وہ بیمار ہے۔ اس کے بعد سعد نے حضرت ثابت سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قول ذکر کیا۔ حضرت ثابت نے کہا کہ یہ آیت

نازل ہوئی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے تم سب سے زیادہ بلند آواز ہوں اس لئے میں دوزخیوں میں سے ہوں ۔حضرت سعد نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ ذکر کردیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: نہیں بلکہ وہ بہشتیوں میں سے ہے۔ (۱ )
اس آیت کی رُو سے آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس شریف میں بلند آواز سے بولنا اتنا بھاری گناہ تھا کہ اس سے اَعمال اَکارت و برباد ہوجاتے۔ اللّٰہ تعالٰی کو حضراتِ شیخین واَمثالہماکا طریق ادب پسند آیا۔ ان کی مدح میں آیہ {3} نازل فرمائی اور ان کو متقی ہونے کی سند عطا فرمائی اور قیامت کے دن ان کو مغفرت و اجر عظیم کی بشارت دی۔
ایک دفعہ بعض لوگوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حجروں کے باہر سے یا محمد یا محمد کہہ کر پکارا۔ اس پر آیہ {4} نازل ہوئی (۲ ) جس میں بتادیا گیا ہے کہ اس طرح پکارنا سوء ادب ہے ایسی جرأت وہ لوگ کرتے ہیں جن کو عقل نہیں۔حسن ادب اور تعظیم حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تو اس میں تھی کہ وہ لوگ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے در دولت پر بیٹھ جاتے اور انتظار کرتے یہاں تک کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود باہر تشریف لاتے۔ اس طرح کا حسن ادب ان کے لئے موجب ثواب تھا۔ جیسا کہ آیہ {5} میں ہے۔
(ج)
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (نور، ع۹)
تم اپنے درمیان رسول کا پکارنا ایسا نہ ٹھہراؤ جیسا کہ ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ ( ۳)
اس آیت میں بتادیاگیا ہے کہ تم رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نام لے کر (یامحمد یا محمد ) نہ پکارا کرو جیسا کہ ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہوبلکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اَدب سے یوں پکارا کرو: یا رسول
اللّٰہ، یا نبی اللّٰہ، یا خیر خلق اللّٰہ۔ اس کا مزید بیان پہلے آچکا ہے۔
(د)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۱۰۴) (بقرہ، ع۱۳)
اے ایمان والو! تم راعنا نہ کہو اور انظرنا کہو اور بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۱ )
جس وقت رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کچھ ارشاد فرماتے تو مسلمان عرض کیا کرتے: ’’ رَاعِنَا ‘‘ (ہماری طرف متوجہ ہوجئے، یعنی ذرا ٹھہرئیے کہ ہم سمجھ لیں ) عبرانی زبان میں اس لفظ کے معنی شریر کے ہیں ۔ یہود اس لفظ کو بطریق استہزاء استعمال کرتے تھے اور تعریض و اشارہ اسی معنی کی طرف کیا کرتے تھے۔ چونکہ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کا التباس (۲ ) عبرانی لفظ سے ہوتا تھا اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے مومنوں کو تعلیم دی کہ تم بجائے ’’ رَاعِنَا ‘‘ کے ’’ انْظُرْنَا ‘‘ (ہماری طرف متوجہ ہوجئے) استعمال کیا کرو۔ ( ۳) جس کے معنی وہی ہیں جو ’’ رَاعِنَا ‘‘ کے ہیں اور اس میں کسی قسم کی تلبیس ( ۴) کا احتمال نہیں اور تم بغور سنا کرو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہود جو اس طرح تعریض و استہزاء کرتے ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔اس آیت شریف سے ظاہر ہے کہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان مبارک میں ایسے الفاظ محتملہ استعمال نہ کرنے چاہئیں کہ جن میں تعریض ہو اور تنقیص شان کا وہم ہو۔

________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتاتاکہ اے لوگو تم اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللّٰہ کی پاکی بولو۔ (پ۲۶،الفتح:۸۔۹) ۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والو اللّٰہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ سنتا جانتا ہے۔ (پ۲۶،الحجرات:۱) ۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ۲۶،الحجرات:۲) ۔علمیہ

________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللّٰہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللّٰہ نے پرہیزگاری کے لئے پرکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (پ۲۶،الحجرات:۳) ۔علمیہ
2 – ترجمۂکنزالایمان:بیشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔ (پ۲۶،الحجرات:۴) ۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ۲۶،الحجرات:۵) ۔علمیہ
4 – یعنی آگے نہ بڑھو۔
5 – کوتاہی۔

________________________________
1 – بخاری، تفسیر سورۂ حجرات۔ (صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الحجرات، باب :لاترفعوا اصواتکم۔۔۔الخ، الحدیث :۴۸۴۵، ج۳ ص۳۳۱ وباب ان الذین ینادونک۔۔۔الخ،ص۳۳۲،الحدیث:۴۸۴۷ ۔علمیہ)
2 – اسباب نزول للواحدی۔ (جامع اسباب النزول، سورۃ الحجرات، ص ۳۲۳ ۔علمیہ)
3 – ترجمۂکنزالایمان: اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے۔ (پ۲۶،الحجرات:۲) ۔علمیہ

________________________________
1 – صحیح مسلم، باب مخافات المؤمن ان یحبط عملہ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الایمان،باب:مخافۃ المؤمن ان یحبط عملہ، الحدیث: ۱۱۹، ص۷۳-۷۴ ۔علمیہ)
2 – جامع اسباب النزول، سورۃ الحجرات، ص ۳۲۳۔۳۲۴ ۔علمیہ
3 – ترجمۂکنزالایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔(پ۱۸،النور:۶۳) ۔علمیہ

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!