حجاز کی آگ
صحیحین (۲ ) میں بروایت سعید بن المسیب مذکور ہے کہ حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھے خبر دی کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ایک آگ حجاز کی زمین سے نکلے گی جو بصریٰ ( ۳) میں اونٹوں کی گر دنیں روشن کرے گی۔ ( ۴)
مذکورہ بالا پیشین گوئی کے مطابق وہ آگ سر زمین حجا ز میں ظاہر ہو ئی۔اس کے ظہور سے پہلے کئی زلزلے آئے جو اس کا پیش خیمہ تھے۔ چنانچہ ماہ جُمَادَی الا ُوْلیٰ ۶۵۴ ھ کی اَخیر تاریخ کو مدینہ منورہ میں کئی دفعہ زلزلہ آیا مگر چو نکہ خفیف
تھا اس لئے بعض لوگوں کو محسوس نہ ہوا۔سہ شنبہ کے روز (۱ ) سخت زلزلہ آیا جسے عام وخاص سب نے محسوس کیا۔ شب ِچہار شنبہ ( ۲) ۳جمادی الا خریٰ کو رات کے اَخیر تہائی حصہ میں مدینہ میں ایسا سخت زلز لہ آیا کہ لوگ ڈرگئے اور اس کی ہیبت سے دل کانپ گئے۔زلز لے کا یہ سلسلہ جمعہ کے دن تک رہا۔اس کی آواز بجلی سے بڑھ کر تھی ، زمین کانپتی تھی اور دیوار یں ہل رہی تھیں یہاں تک کہ صرف دن کے وقت اٹھا رہ دفعہ حرکت ہو ئی۔جمعہ کو چاشت کے وقت زلز لہ بند ہو گیا دو پہر کے وقت مدینہ منورہ سے تقریبا ایک منزل جانب شرق یہ آگ نمودارہو ئی اس کے ظاہر ہو نے کی جگہ سے آسمان کی طرف بکثرت دھواں اٹھا جس نے افق کو گھیر لیاجب تاریکی چھاگئی اور رات آگئی تو آگ کے شعلے تیز ہوگئے یہ آگ ایک ایسے بڑے شہر کی مانند معلوم ہو تی تھی جس کے گردایک فصیل ہو اور اس فصیل پر کنگرے اور برج اور مینار ہوں غرض اس آگ کو دیکھ کر اہل مدینہ ڈر گئے۔ ( ۳) چنانچہ قاضی سنان حسینی کا بیان ہے کہ ’’ میں امیر مدینہ عزالدین منیف بن شیحہ ( ۴) کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ عذاب نے ہم کو گھیر لیا ہے۔اللّٰہ کی طرف رجوع کر۔ یہ سن کر اس نے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے اور لوگوں کے اموال ان کو واپس کردیئے پھر وہ اپنے قلعہ سے نکل کر حرم شریف میں آیا۔اس نے اور تمام اہل مدینہ حتی کہ عورتوں اور بچوں نے جمعہ اور ہفتہ کی رات حرم شریف میں گز اری اور باغات میں کوئی ایسا نہ رہا جو حرم شریف میں نہ آیا ہو۔ لوگ رات کو گر یہ وزاری اور تضرع کر تے تھے اور حجر ہ شریف کے گرد ننگے سراپنے گنا ہوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑ اکر دعا مانگ رہے تھے اور نبی الرحمۃ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پناہ طلب کررہے تھے۔ ‘‘
قطب قسطلانی جواس وقت مکہ میں مقیم تھے، ان کا بیان ہے کہ یہ آگ بڑھتی ہوئی حر ّہ اور وادیٔ شظات کے متصل آپہنچی اور وادیٔ شظات میں سے جس کے ایک طرف وادیٔ حمزہ ہے گز ر کرحرم نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مقابل ٹھہر گئی۔ اس آگ کے شعلے ایسے تیز تھے کہ شجر وحجر جو اس کے راستے میں آتا اسے پارہ پارہ کر دیتی اور پگھلا دیتی۔ غرض
اس رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تربت شریف کی بر کت سے یہ آگ حرم شریف سے خارج ہی رہی اور وہاں سے پیچھے ہٹ کر اپنا رخ جانب شمال کر لیا اور۵۲دن تک روشن رہی۔
یہ آگ مکہ ، ینبع اور تیماء سے دکھائی دیتی تھی اور شہر بصریٰ کے لوگوں کو اس کی روشنی میں اونٹوں کی گر دنیں نظر آگئیں جیساکہ حدیث شریف میں وار دہے۔مؤر خین کاقول ہے کہ یہ آگ چار فرسنگ لمبی اور چار میل چوڑی اور ڈیڑھ قامت عمیق وادی میں چلتی تھی۔اس کی حرارت سے پتھر رانگ کی مانند پگھل جاتا تھا۔اس طرح وادی کے اخیر میں حر ّہ کے منتہا کے نزدیک پگھلے ہو ئے پتھر جمع ہو تے گئے اور آخرکار وادیٔ شظات کے وسط میں کو ہِ وعیرہ کی طرف ایک سد ّ (دیوار) بن گئی۔اس سد کے آثار ہنوزباقی ہیں اور اہل مدینہ اسے حبس کہتے ہیں ۔ مدینہ منورہ میں اس آگ کا ظہور ایسا مشہور ہے کہ مؤر خین کے نزدیک حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے۔ (۱ ) کذا فی وفاء الوفاء للسمھودی۔
امام نووی ( متوفی ۶۷۶ ھ) جو اس زمانے میں مو جود تھے۔اس آگ کی نسبت شرح صحیح مسلم (مطبوعہ انصاری، جلد ثانی، کتاب الفتن، ص۳۹۳) میں یوں تحریر فرماتے ہیں :
وقد خرجت فی زماننا نار بالمدینۃ سنۃ اربع و خمسین و ستمائۃ و کانت نارًا عظیمۃ جدا خرجت من جنب المدینۃ الشرقی وراء الحرۃ تواتر العلم بھا عند جمیع اھل الشام و سائر البلدان و اخبرنی من حضرھا من اھل المدینۃ ۔ ( ۲)
اور تحقیق ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ھ میں مدینہ میں ایک آگ نکلی اور نہایت بڑی آگ تھی جو مدینہ کے شرقی جانب سے حر ّہ کے پیچھے نکلی۔شام اور باقی شہروں کے تمام با شند وں کو بطریق تو اتر اس کا علم ہوا اور مجھے اہل مدینہ میں سے ایک شخص نے خبر دی جس نے اس آگ کو دیکھا۔
علامہ تاج الدین سبکی (متوفی ۷۷۱ ھ ) طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ( جزء خامس، ص ۱۱۲) میں لکھتے ہیں کہ جب ماہ
جمادی الا خریٰ ۶۵۴ ھ کی پانچویں تا ریخ ہو ئی تو مدینۃ النبی میں اس آگ کا ظہور ہوا اور اس سے پہلے کی دو راتوں میں ایک بڑی آواز ظاہر ہو ئی پھر ایک بڑا ز لزلہ آیاپھر قریظہ کے قریب حر ّہ میں آگ ظاہر ہوئی۔اہل مدینہ اپنے گھر وں سے اسے دیکھتے تھے۔اس آگ کی روئیں پانی کی طرح جاری ہوئیں اور پہاڑ آگ بن کر رواں ہو ئے۔یہ آگ حاجیوں کے راستۂ عراقی کی طرف روانہ ہو ئی پھر ٹھہر گئی اور زمین کو کھا نے لگی۔رات کے اخیر حصہ سے چاشت کے وقت تک اس میں سے ایک بڑی آواز آتی تھی۔ لوگوں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مدد طلب کی اور گناہ ترک کر دیئے۔یہ آگ ایک مہینہ سے زیادہ روشن رہی۔یہ وہی آگ ہے جس کی خبر جناب مصطفیٰ صَلَواتُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے دی تھی۔کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سر زمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی جس سے بصر یٰ میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔ ‘‘ ایک شخص سے جو رات کے وقت بصریٰ میں تھا روایت ہے کہ اس کو اس آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنیں نظر آگئیں ۔ (۱ )
________________________________
1 – صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب ذھاب الایمان آخر الزمان ،الحدیث :۲۳۴،ص۸۸ شعب الایمان، باب فی حشر الناس۔۔۔إلخ،فصل فی صفۃ یوم القیامۃ ، الحدیث :۳۵۳،ج۱، ص ۳۱۲۔۳۱۳۔علمیہ
2 – صحیح بخاری و مسلم، کتاب الفتن۔ امام بخاری کی ولادت ۱۹۲ھ میں اور وفات ۲۵۶ھ میں ، امام مسلم کی ولادت ۲۰۴ھ میں اور وفات ۲۶۱ھ میں ہوئی۔۱۲منہ
3 – ملک شام کے ایک شہر کانام۔۱۲منہ
4 – صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب لاتقوم الساعۃ حتی تخرج نار من ارض الحجاز،الحدیث:۲۹۰۲،ج۱، ص:۱۵۵۲۔علمیہ
________________________________
1 – بروز منگل۔
2 – بدھ کی شب۔
3 – مفصّل حالات کے لیے دیکھو وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ للعلامۃ السمہودی المتوفی ۹۹۱ ھ ،جزء اول، صفحہ ۹۹ تا ۱۰۶۔۱۲منہ
4 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں امیر مدینہ کا نام ’’ عزالدین منیف بن شیمہ ‘‘ لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا، البتہ ’’ وفاء الوفا للسمہودی ‘‘ اور دیگر کتب میں ’’ عِزُّالدین مُنیف بن شِیْحَۃ ‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ عزالدین منیف بن شیمہ ‘‘ کے بجائے ’’عزالدین مُنیف بن شِیْحَۃ ‘‘ لکھا ہے۔و اللّٰہ تعالی اعلم۔علمیہ
________________________________
1 – وفاء الوفاء باخبار دارا لمصطفی،الباب الثانی۔۔۔الخ،الفصل السادس عشر فی ظھور نار الحجاز۔۔۔الخ،ج۱،الجزء ۱، ص۱۴۲-۱۵۰ملخصاً۔علمیہ
2 – شرح النووی علی صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب لاتقوم الساعۃ حتی تخرج نار من ارض الحجاز،تحت الحدیث:۲۹۰۱،الجزء الثامن عشر،ج۹،ص۲۸ ۔علمیہ
1 – طبقات الشافعیۃ الکبری، الطبقۃ السادسۃ فیمن توفی۔۔۔إلخ،الجزء ۸، ص ۲۶۶۔علمیہ