کل نہیں آج بلکہ ابھی توبہ کرلیجئے
کل نہیں آج بلکہ ابھی توبہ کرلیجئے
حضرتِ سیِّدُنا عبدُ الرّحمن ابنِ جَوْزی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی گناہوں میں پڑے ہوئے اور توبہ کو آئندہ پر ٹالنے والے شخص کو علاج تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تَسْوِیف کرنے والا (یعنی توبہ کو آئندہ پر ٹالنے والا) یہ سوچے کہ اکثر جہنمی اسی تَسْوِیف کی وجہ سے جہنم میں پہنچیں گے ۔تَسْوِیف کرنے والا اپنے کام کی بنیاد ایسی چیز پر رکھتا ہے جو اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتی یعنی زندہ رہنے کی امید، تو ممکن ہے وہ زندہ نہ رہے اور اگر بالفرض زندہ رہ بھی جائے توضروری نہیں کہ وہ آج جس انداز میں برائیوں کی روک تھام کر سکتا ہے کل بھی اسی انداز میں کرنے پر قادر ہو اور آج یہ نفسانی خواہشات کے غالب ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے سے عاجز ہے تو کیا کل ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا ؟ بلکہ عادت بن کر مزید پختہ ہوجائے گی ۔یہ لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ یہ دو ایک جیسی باتوں میں فرق کر بیٹھتے ہیں ۔تَسْوِیف (یعنی توبہ کو آئندہ پر ٹالنے ) والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کوئی درخت اُکھاڑنا چاہے ، پھر جب دیکھے کہ یہ تو بہت مضبوط ہے اور اسے اکھیڑنے کے لئے بہت مشقت کرنا پڑے گی تو بولے : میں ایک سال بعد اسے اُکھاڑوں گا ، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ درخت جب تک باقی رہے گا اس کی جڑیں مزید مضبوط ہوتی چلی جائیں گی اور جوں جوں اس کی اپنی عمر طویل ہوتی جائے گی یہ کمزور ہوتا جائے گا ۔تعجب ہے کہ طاقتور ہوتے ہوئے یہ اُکھاڑنے سے عاجز ہے اور کمزور ہوجانے پر اُکھاڑ لے گا !حالانکہ جب یہ کمزور ہوگا
درخت مضبوط ترین ہوجائے گا تو اس وقت یہ کیسے اس درخت پر غلبہ حاصل کرنے کی سوچ رکھے ہوئے ہے ؟ (منہاج القاصدین ، ربع المنجیات ، کتاب التوبۃ ، ۳/ ۱۰۳۳)