اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سید المرسلین، سرورِ معصومین،رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم امتِمسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور نصرت واعانت کے ليے پسندیدہ اور برگزیدہ فرمایا، ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت ومدح میں قرآنِ پاک میں جابجا آیاتِ مبارکہ وارد ہیں جن میں ان کے حسن ِعمل، حسن ِاخلاق اور حسن ِایمان کا تذکرہ ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت اور انعاماتِ اخروی کا مثردہ سنا دیا گیا۔ جن کے اوصافِ حمیدہ کی خود اللہ عزوجل تعریف فرمائے ان کی عظمت اور رفعت کا اندازہ کون لگا سکتاہے۔ ان پاک ہستیوں کے بارے میں قرآنِ پاک کی کچھ آیات درج ذیل ہيں:
اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾
ترجمۂ کنزالایمان:یہی سچے مسلمان ہیں انکے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی(پ9،الانفال:4)
سورۂ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:
رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور انکے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے(پ11،التوبۃ: 100)
سورۃ الفتح کی آیت نمبر۲۹ کا ترجمہ کنزالایمان میں یوں ہے:
محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) اللہ (عزوجل) کے رسول ہیں، اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے، ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے۔(پ۲۶،الفتح:۲۹)
آیاتِ قرآنیہ کے علاوہ کتب ِاحادیث بھی فضائل ِصحابہ کے ذکر سے مالا مال ہیں چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا للہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب، باب مناقب الصحابۃ،الحدیث: ۶۰۱۲،ج۲،ص۴۱۳)
ایک حدیث پاک میں ہے میرے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب الصحابۃ، الحدیث: ۶۰۱۸،ج۲،ص۴۱۴)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: سبحان اللہ! کیسی نفیس تشبیہ ہے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ہدایت کے تارے فرمایا اور دوسری حدیث میں اپنے اہل ِبیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کشتی نوح فرمایا، سمندر کا مسافر کشتی کا بھی حاجت مند ہوتا ہے اور تاروں کی رہبری کا بھی کہ جہاز ستاروں کی رہنمائی پر ہی سمندر میں چلتے ہیں۔ اس طرح امتِمسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں اہل ِبیت اَطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بھی محتاج ہیں اور صحابہ کبار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بھی حاجت مند، امت کے لئے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اقتداء میں ہی اہتداء یعنی ہدایت ہے۔
(مرآۃ المناجیح،ج۸،ص۳۴۵)
امامِ اہل ِسنت، مجدد ِدین وملت مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار ،اصحابِ حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
(حدائقِ بخشش،حصہ اول،ص۱۱۱)
انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد تمام انسانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب سے زیادہ تعظیم وتوقیر کے لائق ہیں یہ وہ مقدس ومبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا، دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اور تن من دھن سے اسلام کے آفاقی اور ابدی پیغام کو دنیا کے ایک ایک گوشے میں پہنچانے کے ليے کمر بستہ ہوگئے۔تاریخ گواہ ہے کہ ان مبارک ہستیوں نے قرآن وحدیث کی تعلیمات کو عام کرنے اور پرچم اسلام کی سربلندی کے ليے ایسی بے مثال قربانیاں دی ہیں کہ آج کے دور میں جن کاتصور بھی مشکل ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کی زیارت وہ عظیم سعادت ہے کہ دنیا جہاں کی کوئی نعمت اس کے برابر نہیں ہو سکتی اور صحابہ کرام تو وہ ہیں کہ شب وروز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور آپ کی صحبت فیض سے مستفیض ہوتے رہے قرآن ودین کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان سے سنااور بے واسطہ اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے مخَاطب رہے۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو فقہا صحابہ میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں آپ ایک موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عظمت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:جو شخص راہِ راست پر چلنا چاہے اسے چاہيے کہ ان لوگوں کے راستے پر چلے اور ان کی اقتدا وپیروی کرے جو اس جہاں سے گزر گئے کہ زندوں کے بارے میں یہ اندیشہ موجود ہے کہ وہ دین میں کسی فتنہ اور ابتلا میں مبتلا ہوجائیں اور یہ لوگ
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں یہ حضرات امت میں سب سے زیادہ افضل ہیں ساری امت میں سب سے زیادہ ان کے دل نیکو کار،ان کا علم سب سے زیادہ گہرا، ان کے اعمال تکلف سے خالی ،یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی رفاقت وصحبت اور اقامت وخدمت دین کے ليے چناتو ان کا فضل وکما ل پہچانو اور ان کے آثار وطریقوں کی پیروی کرو اور حتی الوسع ان کے اَخلاق اور ان کی سیرت ورَوِش اختیار کروکہ بے شک یہ لوگ ہدایت مستقیم پر قائم تھے۔
(مشکاۃ المصابیح،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،الحدیث: ۱۹۳،ج۱،ص۵۷)
ان سب آیات وروایات پر نظر کرتے ہوئے یہ جزم و یقین حاصل ہوتا ہے کہ ان حضرات کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے ،ان مقدس ہستیوں پر اللہ عزوجل کا بے حد فضل وکرم ہے لہٰذا ہمیں چاہيے کہ ان پاکیزہ نفوس کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کے حالات وواقعات کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں اور دونوں جہاں میں کامیابی کے ليے ان کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔
اس سلسلے میں شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے صحابہ کرام کے واقعات و حالات کو انتہائی اِختصار کے ساتھ کرامات کے ضمن میں تحریر فرمایا اور اس مجموعے کا نام ”کراماتِ صحابہ” رکھا۔اس کتاب میں انہوں نے ان حضرات کی عبادات وریاضات ،اِخلاص وتقویٰ،عدل وصدق ،حسن ِاَخلاق اوردیگر صفات کا تذکرہ فرمایا ہے ،ان شآء اللہ عزوجل اس کتاب کو پڑھتے وقت آپ اپنی دلی کیفیات میں تبدیلی محسوس فرمائیں گے ۔