وعدے کے بارے میں دو مدنی پھول
وعدے کے بارے میں دو مدنی پھول
(۱)اعلیٰ حضرت ، مجدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : جوشخص کسی سے ایک امرکاوعدہ کرے اور اس وقت اس کی نیت میں فریب نہ ہو ، بعد کو اس میں کوئی حرج ظاہرہو ، اور اس وجہ سے اس اَمر کو ترک کرے تو اس پربھی خلافِ وعدہ کااِلزام نہیں ۔(فتاوی رضویہ ، ۲۴/ ۳۵۱)
(۲)صدرا لشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمیعلیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی لکھتے ہیں : وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اور وعدہ خلاف کرنے کا جو گناہ ہے اس صورت میں نہیں ہوگا اگرچہ وعدہ کرنے کے وقت اس نے اِستثناء نہ کیا ہو کہ یہاں شریعت کی جانب سے اِستثناء موجود ہے اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً وعدہ کیا تھا کہ’’ میں فلاں جگہ پر آؤں گا اور وہاں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا ۔‘‘مگر جب وہاں گیا تو دیکھتا ہے کہ ناچ رنگ اور شراب خواری وغیرہ میں لوگ مشغول ہیں ، وہاں سے یہ چلا آیا تو یہ وعدہ خلافی نہیں ہے ، یا اس کا انتظار کرنے کا وعدہ کیا اور انتظار کر رہا تھا کہ نماز کا وقت آگیا ، یہ چلا آیا (تو یہ)وعدہ کے خلاف نہیں ہوا۔(بہار شریعت ، ۳/ ۶۵۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد