ندامت ہو تو ایسی ہو:
ندامت ہو تو ایسی ہو:
بصرہ میں ایک نوجوان رہتاتھا جس کا نام رضوان تھا۔وہ اکثر کھیل کوداور نافرمانیوں میں مبتلا رہتا، آوارہ گردی اور سرکشی میں مبتلا رہتا، رات بھر شراب کے نشے میں مست رہتا۔ اس پر بدبختی غالب تھی اور شیطان نے اسے گمراہ کر رکھاتھا۔ ایک دن جب وہ شراب کے نشے میں مدہوش تھا اورنافرمان دوست بھی اس کے ساتھ تھے کہ اس نے ایک فقیر دیکھا جو راستے پر چلتے چلتے
چند اشعار گنگنا رہا تھا، جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
”جب تو کسی دن اہلِ زمانہ سے تنہائی میں ہو تو یوں نہ کہہ کہ میں خلوت میں ہوں بلکہ یوں کہہ کہ مجھ پر ایک نگہبان ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کو لمحہ بھر بھی غافل نہ جان اور نہ یہ گمان کر کہ اس پر کوئی چھپی بات پوشیدہ ہے۔”
یہ نصیحت بھراکلام سنتے ہی نوجوان رونے لگ گیا، اس نے فقیر کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا واسطہ دے کرکہا کہ وہ یہ اشعار دوبارہ پڑھے۔ فقیر نے دوبارہ پڑھے۔نوجوان نے اسے اپنی مجلس میں آنے کا اصرار کیا۔ چنانچہ،وہ چلا آیا،نوجوان کہنے لگا: ”یا سیِّدی! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ کی زیارت ہمارے لئے باعث ِ سعادت ہے، ہمیں آپ کی آواز اور نغمہ بھلا لگا۔لہٰذا اپنے نغموں سے ہماری زندگی کو پاکیزہ کر دو ۔” چنانچہ،فقیر نے چند اشعار پڑھنا شروع کر دئیے، جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے :
” اللہ عَزَّوَجَلَّ کارزق کھاکر بھی تُو اس کی نافرمانی کرتاہے۔ جب تو اس کی مخلوق سے چُھپتا ہے تووہ تجھے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اے انسان! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی سے بچ۔ توجو بھی گناہ کرتا ہے وہ تجھے دیکھ رہا ہوتاہے اور جانتاہے۔”
نوجوان پھر رونے لگا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ جب اسے ہوش آیا تو اُس نے شراب کے برتن توڑ ڈالے اور فقیر کی طرف متوجہ ہو کرعرض کی: ”یا سیِّدی! کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟”اُس نے جواب دیا:”یہ رب عَزَّوَجَلَّ سے صلح کی گھڑی ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے نیکی کے دروازے پر لوٹنے کی توفیق عطا فرمائی ہے ، آج تیرے گناہ معاف کر دئیے جائیں تو تیرے لئے کتنی بڑی سعادت ہے! (لہٰذا تم بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں سچی توبہ کر لو)۔” نوجوان نے پھرچیخ ماری،اس پر غشی طاری ہوگئی اور زمین پر گِر گیا۔ جب افاقہ ہوا تو عرض کرنے لگا: ”یا سیدی ! کیا مجھ سے گذشتہ گناہوں کا مؤاخذہ ہو گا؟” فقیر نے کہا:”نہیں،اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! خالص محبت کتنی عمدہ ہے! محبین کے لئے دوری کے بعدلذّتِ قرب کتنی اچھی ہے ! پھر قرب کے بعد ہجروفراق کی گھڑی کتنی شدید ہے! اے ( اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے )عہد ِ محبت کو بھولنے والے! تو نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے معاملہ کیا پھر غفلت کی میٹھی نیند سو گیا۔ تُو کس فضول کام میں مشغول ہے؟ اس سے تو نے کیا پایا؟ نہیں، بلکہ تُو نے تو اپنا مقصود ضائع کر دیا۔ آج ہی نیکیوں پر کمربستہ ہو جا اور گذشتہ گناہوں کو ترک کر دے اوردرویشی اختیار کر لے۔ تیرے سابقہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔”اس پر نوجوان کے آنسو بہہ پڑے اور اس کے دوست بھی رونے لگے پھر انہوں نے توبہ کی اور لباسِ زیب وزینت اُتار پھینکا۔نوجوان نے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور سچی توبہ کی اور اپنے پچھلے بُرے افعال پر بے حد شرمسار ہوا۔ اس نے ساری رات آہ وبُکا،گریہ وزاری اور حسرت وندامت سے پچھاڑیں کھاتے ہوئے فقیر کے پاس گزار ی۔جب سحری کا وقت ہوا تواسے پھر اپنے گناہ اور نافرمانیاں یاد آگئیں۔ چنانچہ، اس کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اور آنکھوں سے سَیلِ اَشک رواں ہو گیا اور اس پر غشی طاری ہو گئی۔جب فقیر نے اُسے حرکت دے کر دیکھا تو وہ دنیائے فانی سے رخصت ہو چکا تھا۔
ا ے میرے اسلامی بھائیو! کب تک تم سنتوں اور فرضوں کو ضائع کرتے رہو گے؟ کب تک مِٹی سے تیمم کرتے رہو گے حالانکہ پانی بہہ رہا ہے؟ اے اطاعتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں سستی کرنے والے! وہ تیری نافرمانی پر خبردار ہے ۔ خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم! جس کا دل خود وعظ ونصیحت کرنے والا نہ ہو اسے وعظ بھی نفع نہیں دیتا۔