موضوع حدیثوں کا دین پر کوئی اثر نہ پڑا
موضوع حدیثوں کا دین پر کوئی اثر نہ پڑا
اب رہی یہ بات کہ اُن کے اثر تعلیم سے مذاہب باطلہ کے فرقے بن گئے سو یہ بات دوسری ہے ۔ اس میں طبائع کی مناسبت اور انفعال کو دخل تام ہے۔ جدت پسندطبیعتیں ہمیشہ مذاہب باطلہ کو مدد دیتے آئے اسی کو دیکھ لیجئے کہ قادیانی مذہب کے خیالات کو نہ کوئی عقلمند
مطابق عقل سمجھتا ہے نہ کوئی دیندار مناسب دین ،جن کا حال افادۃ الافہام سے معلوم ہوسکتا ہے ۔ پھر مرزا صاحب کی زندگی میں یہ کہنے کو گنجائش تھی کہ جب وہ عیسیٰ موعود ہیں تو دجال کو کبھی نہ کبھی قتل ضرور کریں گے مگر اُن کے مرنے سے تو ثابت ہوگیا کہ وہ عیسیٰ موعود ہرگز نہیں تھے کیونکہ نہ انہوں نے مسلمانوں کے دجال کو قتل کیا جس کا حال احادیث میں مذکور ہے اور نہ اپنے تاویلی دجال یعنی پادریوں کو باوجود اس کے ان کے پیرو اب بھی یہی کہے جاتے ہیں کہ وہ عیسیٰ موعود ضرور تھے ۔ بلکہ کرشن جی بھی تھے بلکہ سب کچھ تھے اور ان خیالات کے رد میں کتابیں لکھی گئیں ۔ ماہانہ پرچے شائع ہوئے ، اخباروں میں مضحکے اڑائے گئے ۔ مگر اُن کو جنبش نہیں اور کچھ بھی کہدے کر اُس کو جواب فرض کرلیتے ہیں ۔ غرضکہ اس قدر پُراثر تعلیم اورپُرزور ترویج پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس مذہب کے نئی باتوں کا ذرا بھی برا اثر مذاہب حقہ پر نہیں پڑا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ کسی مذہب کے شیوع سے اور دوسرے مذاہب پر اثر نہیں پڑتا بہرحال کئی اسباب سے ہم یقیناً کہتے ہیں کہ اہل سنت کا مذہب‘ اہل بدعت کی کارروائیوں سے محفوظ رہا اور صحیح حدیثوں میں اُن کا کوئی تصرف نہیں ہونے پایا ۔
مختلف خیالات ، مختلف عادات ، مختلف عقائد ، مختلف قوم کے لوگ جو ہمارے دین میں داخل ہوتے گئے ، اُن سے ہمارے دین میںکوئی تغیر نہیں آیا بلکہ خود اُن کے خیالات اور عادات بدلتے گئے ۔ باوجود یکہ اس وقت ہماری قوم میں افلاس ہے مگر یوروپین ، ہنود وغیرہ جو مسلمان ہوتے ہیں تو اسلام کا طریقہ اختیار کر کے اپنے طریقہ کو خیرباد کہدیتے ہیں اُس وقت تو اسلام کی حالت ظاہری بھی دوسری اقوام سے بدرجہا بہتر تھی ۔ غرضکہ ان اسباب کو احادیث کے ضعف میں کوئی دخل نہیں ۔ البتہ اُس زمانہ میں جعلساز دھوکے بھی دیا کرتے تھے تو اُن کی وجہ سے محدثین نے بھی اسناد میں بہت سے شروط لگا کر تشدد کر دیا اور عدم واقفیت سے کسی نے ایسے لوگوں سے روایت لی بھی ،تو اطلاع کے بعد لکھے ہوئے اجزاء
تلف کر دیئے جاتے تھے ۔ جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ بصرف زر کثیر جو کتابیں لکھوائی گئیں تھیں مخالفت اعتقاد کی وجہ سے سب پھاڑ دی گئیں ۔
پھر جیسا جیسا زمانہ گزرتا گیا مخالفت بڑھتی گئی اور منافرت گٹھتی گئی ۔ یہاں تک کہ ہر مذہب کے لوگ ،مستند شیوخ کے حلقوں میں شریک ہو کربحسب لیاقت و قابلیت فن حدیث میں کمال حاصل کرنے لگے ۔ اور بعض افراد اُن میں ایسے سربرآوردہ بھی نکلے کہ شہرۂ آفاق ہوئے۔ ایسے لوگوں سے بعد اس کے کہ اُن کا صدق مسلم اور مکرر تجربوں سے ثابت ہوا ۔ ہمارے محدثین نے بھی روایت کی ہے اور اُن کو مستند بھی جانتے تھے جیسا کہ تذکرۃ الحفاظ میں ترجمہ ابن رمیح میں لکھا ہے کہ ابن معین کا قول ہے ، اگر عبدالرزاق مرتد بھی ہوجائیں تو ہم اُن کی حدیث کو نہ چھوڑیں گے ۔ وجہ یہ ہے کہ صدق ایک علحدہ مستقل صفت ہے اُس کو کبھی مذہب سے تعلق نہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بعض یوروپین اور ہندو ایسے راستگو ہوتے ہیں کہ عموماً اُن کا اعتبار ہوتا ہے اور بعض مسلمان بلکہ ذی علم ایسے جھوٹے ہوتے ہیں کہ خود اُن کے دوستوں کو اُن کے قول کا اعتبار نہیں ہوتا ۔ چونکہ ابن معین ؒ کو مکرر تجربوں سے عبدالرزاق کے صدق کا یقین ہوگیا تھا ، اِس لئے انہوں نے اُن لوگوں کے جواب میں جو عبدالرزاق پر شیعیت کا الزام لگاتے تھے کہا کہ وہ شیعی تو کیا ، اگر مرتد بھی ہوجائیں تو جھوٹ نہ کہیں گے اس لئے ہم اُن کی حدیث نہ چھوڑیں گے۔ غرضکہ اہل بدعت سے جو روایتیں لی گئی ہیں وہ غفلت سے نہیں لی گئیں جس سے بے احتیاطی کا الزام عائد ہو۔ یہ بات مشاہد ہے کہ جن کو اپنی ہوشیاری اور تجربہ کاری پر پورا بھروسہ ہوتا ہے ، وہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ مگر جہاں دھوکے کا اندیشہ ہوتا ہے ، احتیاط سے زیادہ تر کام لیتے ہیں بہرحال دھوکا نہیں کھاتے اسی طرح نقادان حدیث نے اہل بدعت وغیرہم سے حدیثیں لیں پھر جن میں شرائط صحت پورے پائے ، اُن کو صحیح کہا اور جن
میں نہیں پائے علی حسب مدارج ضعیف ، منکر ، موضوع وغیرہ میںداخل کر دیا ۔ بہرحال جن پر صحت کا اتفاق ہے وہ یقیناً صحیح ہیں ۔
مولوی صاحب نے اشاعت حدیث پر جو حکم لگا دیا کہ اُس سے اعتماد اور صحت حدیث کا معیار کم ہوتا گیا ۔ اس میں نظرغائر اور واقعہ سے مدد نہیں لی ، ورنہ یہ بھی نہ کہتے ۔