مناقبِ صالحین رحمہم اللہ
مناقبِ صالحین رحمہم اللہ
حمد ِباری تعالیٰ:
تمام خوبیاں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جو کبھی مفلس ومحتاج نہیں ہوتا، وہ کرم فرمانے والا، قدیم اوریکتا ہے، باپ بیٹے سے منزّہ ہے، حصہ دار اور مددگار سے پاک ہے، کسی حاکم،مماثل(یعنی مشابہ)، ہٹ دھرم اور سرکش سے بہت بلند ہے، تمام اچھی نعمتوں پر تمام تعریفوں کے ساتھ اس کا شکر ادا کیا جاتا ہے،وہ نافرمان پر اپنا پردہ ڈال دیتا ہے حالانکہ وہ اسے نافرمانی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا اور ملاحظہ کر رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے ذلیل بندے پراپنے بے پایاں احسانات فرماتا ہے اور اس کے تمام مقاصد پورے فرماتا ہے۔ پاک ہے وہ جو مضبوط چٹانوں اور پتھریلی زمین سے نہریں نکالتا ہے، خشک بے جان لکڑی سے درخت اور خوشنما کلیاں اُگاتا ہے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والی باہم ملی ہوئی یا جدا جدا سیدھی شاخوں سے مختلف ذائقوں اور رنگوں کے تروتازہ پھل پیدا فر ما تا ہے۔ یہ اس کی قدرت کی بعض نشانیاں اور اس کی حکمت وکاریگری کے بعض عجائبات ہیں۔ انسان کو اس کا مشاہدہ کرنا چاہے
وسیلۂ اولیاء ذریعۂ شفاء:
حضرت سیِّدُنا یحیٰ بن جلادرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنے والد محترم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے سنا: ”میں حضرت سیِّدُنا معروف کرخی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس حاضر تھا کہ ایک شخص نے حاضر ہو کران سے عرض کی: ”اے ابومحفوظ!(یہ آپ کی کُنْیَت ہے) میں نے اس رات عجیب چیز دیکھی۔”انہوں نے دریافت فرمایا: ”کیادیکھا؟” عرض کی:”میرے گھروالوں کومچھلی کھانے کی خواہش ہوئی،میں بازار گیا اورمچھلی خریدکرایک مزدور بچے کوساتھ لیاکہ وہ مچھلی اُٹھا کر گھر تک میرے ساتھ چلے۔ چنانچہ، وہ میرے ساتھ چل پڑا، راستے میں جب اس نے ظہر کی اذان سنی تو مجھے کہا: ”اے محترم! کیاآپ نمازنہیں پڑھیں گے؟” گویا اس نے اچانک مجھے غفلت سے بیدار کردیا ہو،میں نے کہا :”ہاں! ہاں!کیوں نہیں!ضرور پڑھیں گے۔”اس نے مچھلی والا برتن مسجد کے دروازے پر رکھااورمسجدمیں داخل ہوگیا،میں نے اپنے دل میں کہا:”اس بچے نے طشت کونمازپرقربان کردیا تو کیا میں مچھلی قربان نہیں کرسکتا۔”بہرحال وہ نماز پڑھتا رہایہاں تک کہ اقامت کہی گئی اورہم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اور نماز کے بعد چند رکعتیں بھی ادا کیں۔جب باہرنکلے تودیکھا کہ طشت اپنی جگہ موجود تھا۔میں نے گھر آکریہ واقعہ گھر والوں کو سنایاتووہ کہنے لگے:”اس بچے کو ہمارے ساتھ مچھلی کھانے کی دعوت دیں۔”جب میں نے اسے دعوت دی تو اس نے کہا:”میں روزے سے ہوں۔”میں نے اس سے کہا :”پھرتم ہمارے ہاں روزہ افطارکرو۔”اس نے کہا:”مجھے آپ کی دعوت قبول ہے ، اب مجھے مسجد کا راستہ دکھادیجئے۔”میں نے اسے راستہ دکھایا تو وہ مسجد میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب ہم نے نمازِ مغرب ادا کر لی تومیں نے
اسے کہا:”اب ہمارے گھر چلئے ۔”اس نے جواب دیا:”نمازِ عشاء پڑھ کر چلیں گے۔” نمازِعشاء پڑھنے کے بعد میں اس کو اپنے گھر لے آیا جس میں تین کمرے تھے:ایک میرا اور میرے بچوں کی امی کا تھا، دوسرے میں ہماری بیس سال سے معذور لڑکی رہتی تھی اور تیسرے میں ہمارا مہمان تھا۔رات کے آخری حصے میں، مَیں اپنی بیوی کے پاس بیٹھاہواتھاکہ اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا:”کون ہے؟” تو باہر سے آواز آئی: ”میں آپ کی فلاں بیٹی ہوں ؟”میں نے کہا :”وہ تو بیس سال سے معذورہے اور گھر میں پڑا ہوا محض گوشت کاایک ٹکڑا ہے، وہ کیسے سیدھی ہوکر چل سکتی ہے؟”یہ سن کر وہ کہنے لگی :” میں آپ کی وہی بیٹی ہوں، آپ دروازہ توکھولیں۔”جب میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو بالکل سیدھی کھڑی تھی۔ ہم نے اس سے کہا: ”ہمیں بتاؤ کہ تم کیسے شفا یاب ہوئی ہو؟ تو اس نے بتایاکہ”میں نے آپ کو اپنے اس مہمان کا بھلائی کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے سنا تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس کا وسیلہ پیش کروں کہ وہ میری تکلیف دور کر دے لہٰذا میں نے عرض کی: ”یااللہ عزَّوَجَلَّ! تیری بارگاہ میں ہمارے اس مہمان کی عظمت کا صدقہ!میری تکلیف دور فرمااور مجھے عافیت عطا فرما۔” یہ دعا کرتے ہی میں سیدھی کھڑی ہوگئی جیسا کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔”اس کی یہ بات سن کرمیں اپنے مہمان کی طرف گیا توگھر میں اس کو نہ پایا، دروازے پر آیا تو اس کو بھی بندپایا۔”یہ سارا واقعہ سماعت فرمانے کے بعد حضرت سیِّدُنامعروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”ہاں! واقعی اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں چھوٹے بڑے سبھی ہوتے ہیں(اور یہ بھی انہیں میں سے تھے)۔”
سبحانَ اللہ عزَّوَجَلَّ! کیا شان ہے ان لوگوں کی جنہوں نے محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی وجہ سے عبادت کی نہ کہ جنت کے لئے اور وہ خدا کو پانے کے لئے اس کی بارگاہ میں حاضر رہے نہ کہ بخشش کے لئے۔ پس وہی لوگ معرفت کے نور سے اس کا دیدار کرتے ہیں، شوق کے پروں سے اس کی طرف اڑتے ہیں اور سحری کے وقت اس کی مناجات سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
(1) اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ62﴾
ترجمۂ کنزالایمان :سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔(پ11،یونس:62)