اعمال

معاشی خوشحالی کی وجہ

معاشی خوشحالی کی وجہ

معلوم ہوا کہ حضرت سیِّدُنا عُمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے مُبارک دور

میں تمام مُسلمان غنی ہوچکے تھے اورکوئی بھی زکوٰۃ کا مستحق نہیں تھا ۔اس کی ایک وجہ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا عدل وانصاف تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اُس دور میں مُسلمانوں کی تمام تر کاروباری سرگرمیاں شرعی حُدود کے اندر رہ کرہوتی تھیں گویا کہ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے معاشی میدان میں بے مثال ترقّی کی ،یہاں تک کہ ہر طرف مال ودولت کی فراوانی ، آسودگی اور خوشحالی عام ہوچکی تھی اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ معاشی ترقی کیلئے ہر طرح کی آزادی کے بجائے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضامندی اور شریعت کی قید و پابندی ضروری ہے ۔

معاشی بحران کا سبب

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے معاشی اصول حقیقی ترقّی اور خوشحالی کے ضامن ہیں اور ان کی خلاف ورزی ایسی معاشی برائیاں پیدا کرتی ہے جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ۔کسی بھی جگہ آنے والے معاشی بحران کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سرمائے اور دولت کا چند لوگوں اور چند اداروں کی تجوریوں میں رُک جانابھی ہےکیونکہ سرمائے کا چند ہاتھوں میں ٹھہر جانا اعتدال اور توازُن کو ختم کردیتا ہے اور درحقیقت یہی عدمِ توازُن معاشی بحران کا سبب بنتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں دو قسم کے معاشی نظام رائج ہیں۔٭ ایک اشتراکیت اور ٭دوسرا سرمایہ داریت ، لیکن یہ دونوں نظام اِفْراط و تَفْریط کا شکار ہیں کیونکہ اِشْتِراکی

نظام میں تمام لوگوں کی ذاتی ملکیتوں کوان کی مرضی کے خلاف جبراً (زبردستی) چھین کر ایک مخصوص جماعت کی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے البتہ اس کے بدلے ایک حد تک ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مالداروں کو اتنی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ وہ دولت سے اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امیر، امیر تر اور غریب، غریبتر ہوتا جاتا ہے ۔اس کے برعکس اسلام کے معاشی نظام میں نہ اشتراکیت کی قید ہے نہ سرمایہ داریت کی کھلی آزادی، بلکہ یہ نظام تقویٰ،احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکّل اور قناعت جیسی عظیم اخلاقی قَدروں پر قائم ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کو دیگر تمام نظاموں پر فوقیت حاصل ہے ۔

معیشت کی تباہی میں سُود کاکردار

بدقسمتی سے اس وقت ہمارے ہاں جو معاشی نظام رائج ہے وہ سرمایہ داریت کا نظام ہے اور اس پورے نظام کی عمارت ”سُود“ کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ مثلاً: ایک شخص نے سُودی ادارے میں دس فيصد سُود پر دس لاکھ روپے جمع کروائے۔اُس ادارے نےوہی دس لاکھ روپے پندرہ فیصد سُود پر صنعت کار کو دیئے ، جب مہینہ پورا ہوا تو اس صنعت کار نے پندرہ فیصد سُود ادارے کو دیا، ادارے نے دس فیصد سُود رقم کے مالک کو دیا اور پانچ فیصد خود رکھ لیا ۔رقم کے مالک کوبھی فائدہ ہوا اور سُودی ادارے کو بھی مگر جس صنعت کار نے سُود ادا کیا اسے بھی کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ
اس نے سُود پر لی گئی رقم سے جومصنوعات( Products) تیار کیں ان کی قیمت میں پندرہ فیصد اضافہ کردیا۔ یوں اُس صنعت کار نے سُود کی رقم اپنی مصنوعات سے حاصل کرلی لہٰذا اُس کا بھی فائدہ ہوگیا۔لیکن اس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑا کہ جب اشیاء کی قیمتیں اسکی قوتِ خرید سے بڑھ گئیں اور ضروریاتِ زندگی کی چیزیں خریدنا بھی ان کے لئے مشکل ہوگیا۔اسی طرح کچھ کمپنیاں اپنی پروڈکشن بڑھانے اور مارکیٹ میں اپنا نام برقرار رکھنے کے لئےتشہیر (Advertisement) کا سہارا لیتی ہیں ،عموماً اس تشہیر کے لئے سُود پر پیسہ لیا جاتا ہےاور اس سُود کی ادائیگی بھی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کے پیسوں سے ہی کی جاتی ہےغرض اس ظلم و ناانصافی اور معاشی تباہی کی ابتداء سُود (Interest) نے کی ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!