بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِِّ الْعٰلمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلیٰ رَسُوْلِہِ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَ اَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
اما بعد ! اب تھوڑا سا حال فقہ حنفیہ کی تدوین اور اُس کی شہرت اور مقبولیت اور اُس پر اجماع ہونے کا بھی سُن لیجئے ۔
امام صاحب کی پیدائش ۸۰ھ (اَسی ) ہجری میں ہے ،جو صحابہ کی موجودگی اور اعلیٰ درجہ کی برکت کا زمانہ تھا اور انتقال ۱۵۰ھ (ایک سو پچاس ) ہجری میں ہوا ، اس ستر سال کی عمر کا ایک بڑا حصہ آپ نے تحصیل علم میں صرف کیا ، اُس کے بعد حماد بن سلیمان کے حلقہ میں فقہ حاصل کرنے کی غرض سے گئے ، چنانچہ ’’تبییض الصحیفہ ‘‘میں امام سیوطی ؒ نے لکھا ہے کہ امام صاحب فرماتے ہیں: ہر روز میں اُن کے حلقہ میں جایا کرتا اور جو کچھ اُن سے سنتا یاد رکھتا ، جب دوسرے روز وہ پڑھے ہوئے سبق کا اعادہ کراتے تو دوسرے ہمدرس اکثر خطا کرتے اور میں بے کم و کاست بیان کر دیتا ، اس وجہ سے حمادؒ نے حکم دیا کہ صدر حلقہ میں سوائے ابو حنیفہ کے کوئی نہ بیٹھے ۔ دس سال تک یہ حاضر باشی اور استفادہ رہا ، ایک روز میرے نفس نے خواہش کی کہ تفقہ میں بہرہ کافی حاصل ہوگیا ہے اس لئے اپنا حلقہ علٰحدہ بنالیاجائے ، چنانچہ اس ارادہ سے میں نکلا ، جب مسجد میں داخل ہوا اور حماد رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تو جرأت نہ ہوئی کہ استاذ کے مقابلہ میں خودسری کا دعویٰ کروں ؛ چنانچہ حسب عادت، شیخ کے حلقہ میں بیٹھ گیا ۔ قضارا اُسی رات اُن کو خبر پہونچی کہ بصرہ میں اُن کے کوئی قرابتدار تھے اُن کا انتقال ہوا اور سوائے اُن کے کوئی دوسرا وارث نہیں ، یہ سنتے ہی مجھے اپنا جانشین کر کے وہ روانہ ہوگئے اور دو مہینے تک میں اُن کی خدمت کو انجام دیتا رہا ۔ اس عرصہ میں ساٹھ مسئلے ایسے پیش ہوئے کہ اُن کا حکم میں نے سنا نہ تھا ، اُن کا جواب تو دے دیا مگر وہ لکھ رکھا ۔ جب وہ واپس تشریف لائے ، میں نے وہ مسائل اور اپنے
جوابات پیش کئے ، انہوں نے چالیس مسئلوں میں اتفاق کیا اور بیس مسئلوں میں مخالفت کی ، اُس کے بعد میں نے قسم کھائی کہ اب اُن کے حلقہ کو کبھی نہ چھوڑوں گا ۔