اسلامواقعات

 قصۂ ہجرت

 قصۂ ہجرت

جب قریش قتل پر اتفاق کر کے اپنے اپنے گھر وں کو چلے گئے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور قریش کے ار ادہ کی آپ کو اطلاع دی

اور عرض کیا کہ آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔عین (1) دوپہر کے وقت حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے گئے دروازے پر دستک دی، اجازت کے بعد اندر داخل ہوئے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ’’ جو تمہارے پاس ہیں ان کو نکال دو۔ ‘‘ حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! میرا باپ آپ پر قربان! آپ کے سوا کوئی اور نہیں ۔ ‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ مجھے ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے۔ ‘‘ حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرا باپ آپ پر قربان! میں آپ کی ہمراہی چاہتا ہوں ۔ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منظور فرمایا۔ حضرت صدیق نے پھر عرض کیا: ’’ یا رسول اللّٰہ! میرا باپ آپ پر قربان ! آپ ان دواو نٹنیوں (2) میں سے ایک پسند فرمالیں ۔ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں قیمت سے لوں گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاجو شادی کے بعد سے اس وقت تک اپنے والد بزرگوار کے گھر میں تھیں بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے سفر کی ضروریات کو جلدی تیار کر دیا اور دونوں کے لئے کچھ کھا نا توشہ دان میں رکھ دیا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے اپنے نِطاق (پٹکے ) (3) کے دو ٹکڑ ے کر کے ایک سے توشہ دان کا منہ اور دوسرے سے مشکیزہ کا منہ با ندھا۔جس کی وجہ سے ان کو ذَاتُ ا لنطاقین کہا جاتا ہے۔ ایک کا فر عبداللّٰہ بن اُرَیْقِط دُئَلِی جو راستہ سے خوب واقف تھا رہنمائی کے لئے اجر ت پر نوکر رکھ لیا گیا اور دونوں اونٹنیاں اس کے سپر دکر دی گئیں تاکہ تین راتوں کے بعد غار پر حاضرکر دے۔اس انتظام کے بعد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے دولت خانہ کو تشریف لے گئے ۔
ایک تہائی رات گزری ہی تھی کہ قریش نے حسب قرار داددولت خانہ کا محاصرہ کر لیا اور اس انتظار میں رہے کہ آپ سو جائیں تو حملہ آور ہوں ۔اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس صرف حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمتھے۔ قریش کو اگرچہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سخت عداوت تھی، مگر آپ کی

امانت ودیانت پر انہیں اس قدر اعتماد تھا کہ جس کے پاس کچھ مال واسباب ایسا ہو تا کہ اسے خود اپنے پاس رکھنے میں جوکھم نظر آتی (1) وہ آپ ہی کے پاس امانت رکھتا۔ چنانچہ اب بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کچھ امانتیں تھیں اس لئے آپ نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے فرمایا کہ تم میری سبز چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہو، تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو گی اور حکم دیا کہ یہ امانتیں واپس کر کے چلے آنا اور خود خاک کی ایک مٹھی لی۔ (2) اور سورۂ یٰسٓ شریف کے شروع کی آیات فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ (۹) تک پڑ ھتے ہوئے کفار پر پھینک دی اور اس مجمع میں سے صاف نکل گئے، کسی نے آپ کو نہ پہچانا۔ ایک مخبر نے جو اس مجمع میں نہ تھا ان کو خبر دی کہ محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) تو یہاں سے نکل گئے اور تمہارے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے سروں پر جو ہاتھ پھیر اتو واقع میں خاک پائی مگر حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سبز چادر اوڑ ھے ہوئے سوتے دیکھ کر خیال کیا کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سور ہے ہیں ۔ جب صبح کو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیدار ہو ئے تو وہ کہنے لگے کہ اس مخبر نے سچ کہاتھا۔(3)
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دولت خانہ سے نکل کر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے گئے۔ راستے میں بازارِ حَزْوَرَہ میں جو بعد میں مسجد حرام میں شامل کر لیاگیاٹھہر کر یوں خطاب (4) فرمایا: ’’ بطحائے مکہ ! (5) تو پا کیز ہ شہر ہے اور میرے نزدیک کیسا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہو تا۔ ‘‘ اسی رات آپ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لے کر گھر کے عقب میں ایک در یچہ سے نکلے اور کوہ ثور کے غار پر پہنچے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چاہا کہ غار میں داخل ہوں مگر صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیاکہ آپ داخل نہ ہوں جب تک کہ میں پہلے داخل نہ ہو لوں تاکہ اگر اس میں کوئی سانپ بچھو وغیر ہ ہوتو وہ مجھ کو کا ٹے آپ کو نہ کاٹے۔ اس لئے حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے داخل ہوئے، غارمیں جھاڑودی، اس کے ایک طرف میں کچھ سوراخ پائے۔ اپنا شلوار پھاڑ کران کو بند کیا مگر دو سوراخ باقی رہ گئے، ان میں اپنے دونوں

پاؤں ڈال دئیے۔ پھر عرض کیا: اب تشریف لائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم داخل ہوئے اور سرمبارک حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گودمیں رکھ کر سو گئے۔ ایک سوراخ سے کسی چیز نے حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کاٹا، مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے کہ مَبادا (1) ر سول اللّٰہصَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجاگ اٹھیں ۔ حضرت صدیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آنسو جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک پر گرے، تو فرمایا: ’’ ابوبکر تجھے کیا ہوا! ‘‘ عرض کی: ’’ میرے ماں باپ آپ پر فدا! مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا، فوراً سب درد جاتا رہا۔ (2) اس غار میں دونوں تین راتیں رہے۔حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کے بیٹے عبد اللّٰہ جو نو خیز جوان تھے رات کو غارمیں ساتھ سوتے صبح منہ اندھیر ے شہر چلے جاتے اور قریش جو مشورہ کرتے یا کہتے شام کو غار میں آکر اس کی اطلاع دیتے۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام عامر بن فُہَیرہ دن کو بکریاں چراتااور رات کو دو بکریاں غار پر لے جاتا۔ان کا دودھ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے کام آتا۔ عامر منہ اندھیرے بکریوں کو عبد اللّٰہ کے نقش پا (3) پرہانک لے جا تا تاکہ نقش قدم مٹ جائے۔ (4)
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رات کو اپنے دولت خانہ سے نکل آئے تو صبح کو کفار نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا کہ تیر ایار کہاں گیا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں اس لئے پائے مبارک کے نشان کے ذریعے سے انہوں نے انحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا تعاقب کیا۔جب وہ کوہ ثور کے پاس پہنچے تو پائے مبارک کا نشان ان پر مشتبہ ہو گیا۔ (5) وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور غار کے دَہانہ پر پہنچ گئے مگرغار پر اس وقت خدا ئی پہر ہ لگا ہوا تھا دہانہ (6) پر مکڑی نے جالا تنا ہوا تھا (7) اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ اگر (حضرت) محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اس میں داخل ہوتے تو مکڑی جالانہ تنتی اور کبوتری انڈے نہ دیتی۔ اس حال میں آہٹ پا کر حضرت ابو بکر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ نے عرض کی: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماگر ان میں سے کسی کی نظر اپنے قدم پر پڑ جائے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ غم نہ کر خدا عَزَّوَجَلَّ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘
قصہ کو تا ہ غار میں تین راتیں گز ار کر شب دوشنبہ (1) یکم ربیع الا وَّل کو او نٹنیوں پر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے عامر بن فُہَیر ہ کو حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بغر ضِ خدمت اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا۔بدرَ قہ (2) آگے آگے راستہ بتا تاجاتا تھا۔راستے میں اگر کوئی حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت پوچھتا تھا کہ یہ کون ہیں جواب دیتے کہ یہ میرے ہادیِ طریق (3) ہیں ۔ (4)
حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ (دوشنبہ کی) رات کو روانہ ہو کر ہم برابر چلتے رہے یہاں تک کہ دوپہر ہو گئی اور راستہ میں آمد ورفت بند ہو گئی۔ ہمیں ایک بڑا پتھر نظر آیا، ہم اس کے نزدیک اتر پڑے، میں نے اس کے سایہ میں اپنے ہاتھوں سے جگہ ہموار کی، اس پر پو ستِین (5) بچھا دی اور عرض کی: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ سو جائیں میں آپ کے ارد گرد پاسبانی کر تا ہوں ۔ ‘‘ آپ سو گئے میں نکلاکہ دیکھوں ار دگر د کوئی دشمن تو نہیں آرہا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں اسی پتھر کی طرف سایہ میں آرام پانے کے لئے لا رہا ہے۔ میں نے پو چھا: تو کس کا غلام ہے؟ اس نے قریش کے ایک شخص کا نام لیاتو میں نے اسے پہچان لیا اور پوچھا: کیا تیری بکر یوں میں دودھ دینے والی ہیں ؟ وہ بولا کہ ہاں ! میں نے کہا: کیا تو دوہ کر دے سکتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں ! پس اس نے ایک بکری پکڑ لی۔ میں نے کہا: اس کا تھن گر دوغبار سے صاف کر لے، پھر کہا کہ تو اپناہاتھ صاف کر لے۔ اس نے ایک پیالہء چوبین (6) میں دودھ دوہا۔ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیلئے ایک مِطْہَرَہ (7) ساتھ لے گیا تھا جس سے آپ وضو کر تے۔ میں نے ٹھنڈ اکر نے کے لئے دودھ میں تھوڑا ساپانی ملا کر خدمت اقدس میں پیش کیا۔ آپ نے خوب پیا۔جس سے میری
طبیعت خوش ہوئی، پھر فرمایا: کیا چلنے کا وقت نہیں آیا؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ! دن ڈھل چکا تھا کہ ہم وہاں سے چلے۔ (1)
دوسرے روزیعنی سہ شنبہ کے دن جب قُدَید کے قریب پہنچے تو سُراقہ بن مالک بن جُعْشُم مُدْلِجی تعاقب میں نکلا۔ جس کی کیفیت وہ خود یوں بیان کر تا ہے: ’’ کفار قریش کے قاصد ہمارے پاس آئے ، کہنے لگے کہ جو شخص محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) یا ابو بکر کو قتل کر ے گا یا گر فتار کر کے لائے گا اسے ایک خون بہا کے برابر (یعنی سواونٹ ) انعام دیا جائے گا۔میں اپنی قوم بنو مُدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک شخص نے آکر کہا: ’’ سراقہ! میں نے ابھی ساحل پر چند اشخاص دیکھے ہیں ، میرے خیال میں وہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اور ان کے ساتھی ہیں ۔ ‘‘ میں سمجھ گیا کہ وہی ہیں مگر میں نے اس سے کہا کہ وہ نہیں ہیں تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہے جو ہمارے سامنے سے گئے ہیں ۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد میں مجلس سے اٹھ کر گھر آیا اور اپنی لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو پشتہ (2) کے پیچھے ( بطن وادی میں ) لے جاکر ٹھہرا۔ میں نیزہ لے کر اپنے گھر کے عقب سے نکلا اور بُنِ نیز ہ (3) سے زمین میں خط کھینچا اور نیز ے کے بالائی حصہ کو نیچا کیے ہوئے گھوڑے کے پاس پہنچا۔میں نے سوا رہو کر گھوڑے کو ذرا دوڑایا یہاں تک کہ میں ان کے قریب جاپہنچا۔ میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی، میں گر پڑا، اٹھ کر میں نے تر کش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس میں سے فال کے تیرنکا لے کہ حملہ کرناچاہیے یانہیں مگر جواب خلاف مراد نکلا۔ میں نے تیر کی بات نہ مانی۔دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھا یہاں تک کہ جب میں نے رسول اللّٰہکی قراء ت کی آوا زسنی حالانکہ آپ (میری طرف ) نہ دیکھتے (4) تھے اور ابو بکر اکثر پیچھے دیکھتے تھے تو میرے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے میں نے اترکرگھوڑے کو زَجْروتَوبیخ (5) کی۔ اس نے چاہا کہ اٹھے مگروہ پاؤں زمین سے نہ نکال سکا۔جب وہ (بمشکل تمام ) سیدھا کھڑا ہو ا تو نا گاہ (6)

اس کے پاؤوں کے نشان سے دھوئیں کی مانند غبار آسمان کی طرف اٹھا۔ میں نے پھر تیروں سے فال لی مگر خلاف مر ادہی جواب ملا۔میں نے پکارا: امان! امان! یہ سن کر وہ ٹھہر گئے۔میں اپنے گھوڑ ے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ مُکَرَّر تجربہ (1) سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بول بالا ہوگا۔ میں نے آپ سے قریش کے ارادے اور انعام کا ذکر کیا اور زادو مَتَاع (2) پیش کیا۔مگر انہوں نے کچھ نہ لیا اور صرف یہی درخواست کی کہ ہمارا حال پو شید ہ رکھنا۔ اس کے بعد میں نے آپ سے درخواست کی کہ مجھے کتاب اَمن تحریر فرمادیجئے۔آپ کے حکم سے عامر بن فُہَیرہ نے چمڑے کے ٹکڑے پر فرمان امن لکھ (3) دیا۔ ‘‘ سراقہ نے فرمان امن اپنی ترکش میں رکھ لیا اور واپس ہوا راستے میں جس سے ملتایہ کہہ کر واپس کر لیتا کہ میں نے بہت ڈھونڈا، آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس طرف نہیں ہیں ۔ حسن اتفاق سے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مسلمانوں کا ایک قافلہ ملاجوشام سے مال تجارت لا رہا تھا۔ اس قافلہ میں حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سفید کپڑے پہنائے۔ (4)

قُدَید ہی میں سہ شنبہ (1) کو دوپہر کے وقت اُمِّ مَعْبَد عاتِکہ بنت خالد خُزاعِیہ کے ہاں گزر ہوا۔ اُمِّ مَعْبَد کی قوم قحط زدہ تھی وہ ا پنے خیمہ کے صحن میں بیٹھا کر تی اور آنے جانے والوں کو پانی پلاتی اور کھاناکھلاتی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے گوشت اور کھجور یں خرید نے کا قصد کیا مگر اس کے پاس ان میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے خیمہ کی ایک جانب ایک بکری دیکھی، پوچھا: یہ بکری کیسی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ لا غری وکمزوری کے سبب دوسری بکریوں سے پیچھے رہ گئی ہے، پھر پو چھا: کیا دودھ دیتی ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اسے دوہ لوں ؟ اس نے عرض کی: ’’ میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ اس کے نیچے دودھ دیکھتے ہیں تو دوہ لیں ۔ آپ نے اس کے تھن پر اپنا ہاتھ مبارک پھیر ااور بسم اللّٰہ پڑھی اور اللّٰہ تعالٰی سے دعا مانگی۔ بکری نے آپ کے لئے دونوں ٹا نگیں چوڑی کردیں ، دودھ اتا رلیا اور جُگا لی کی۔ آپ نے برتن طلب کیا جو جماعت کو سیر اب کر دے۔ پس آپ نے اس میں خوب دوہایہاں تک کہ اس پر جھاگ آگئی۔ پھر ام معبد کو پلا یا یہاں تک کہ سیر ہوگئی اور اپنے ساتھیوں کو پلا یا یہاں تک کہ سیر ہوگئے۔ سب کے بعد آپ نے پیا۔ بعد ازاں دوسری بار دوہا یہاں تک کہ بر تن بھر دیا اور اس کو (بطور نشان) ام معبد کے پاس چھوڑا اور اس کو اسلام میں بیعت کیا پھر سب وہاں سے چل دئیے۔ (2) تھوڑی دیر کے بعد اُم معبد کا خاوند گھر آیا، اس نے دودھ جو دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگاکہ یہ دودھ کہاں سے آیا؟ حالانکہ گھر میں تو کوئی ایسی بکری نہیں جو دودھ کا ایک قطرہ بھی دے۔ ام معبد نے جواب دیا کہ ایک مبارک شخص آیا تھا کہ جس کا حلیہ شریف ایسا ایسا تھا۔ وہ بولا: وہی تو قریش کے سر دار ہیں جن کا چرچا ہورہا ہے، میں نے قصد کر لیاہے کہ ان کی صحبت میں رہوں ۔
جب مدینہ کے قریب موضَع غَمِیم میں پہنچے جو رابِغ و جُحْفَہکے درمیان ہے تو بُرَیدہ اَسلَمی قبیلہ بنی سَہْم کے ستر سوار لے کر حصولِ انعام کی امید پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو گرفتارکرنے آیا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بُرَیدہ ہوں ۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بطور تَفاوُل (3) فرمایا: ابو بکر! ہمارا کام خوش و خُنک اور دُرست ہو گیا، پھر آپ نے بُرَیدہ سے پوچھاکہ تو کس قبیلہ سے ہے؟ اس نے کہا کہ بنو اسلم سے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت

ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ہمارے لئے خیروسلامتی ہے۔ پھر پوچھا: کون سے بنواسلم سے؟ اس نے کہا کہ بنوسہم سے۔ آپ نے فرمایا: تونے اپنا حصہ (اسلام سے) پالیا۔ بعد ازاں بریدہ نے حضرت سے پوچھاآپ کون ہیں ؟ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں اللّٰہ کا رسول محمد بن عبد اللّٰہ ہوں ۔ بریدہ نے نام مبارک سن کر کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ جو سوار بر یدہ کے ساتھ تھے وہ بھی مشرف باسلام ہو ئے۔ بریدہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ میں آپ کا داخلہ جھنڈ ے کے ساتھ ہو نا چاہیے پس اپنا عمامہ سرسے اتار کر نیزہ پر باندھ لیا اور حضرت کے آگے آگے روانہ ہوا۔ پھر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! آپ کس کے ہاں اتریں گے ؟ فرمایا: یہ میرانا قہ مامور ہے جہاں یہ بیٹھ جائے گا وہی میری منزل ہے۔بریدہ نے کہا: الحمد للّٰہ کہ بنوسہم بَطَوع ورَ غبت (1) مسلمان ہوگئے۔ (2)
رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ لوگ ہر روز صبح کو شہر سے نکل کر حَرَّہ میں جمع ہوتے انتظار کرتے کر تے جب دوپہر ہوجاتی تو واپس چلے جاتے۔ایک دن انتظار کرکے گھر وں میں واپس جاچکے تھے کہ ایک یہودی نے ایک قلعہ پر سے کسی مطلب کے لئے نظر دوڑائی، اسے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے ہمراہی سفید لباس پہنے ہوئے نظر پڑے جو سراب (3) کے آگے حائل تھے۔ وہ یہودی نہایت زور سے بے ساختہ پکار اٹھا: ’’ اے مَعْشَرِعرب! (4) لو تمہارا مقصد ومقصود جس کاتم انتظار کر رہے تھے وہ آگیا۔ ‘‘ یہ سن کر مسلمانوں نے فوراً ہتھیار لگا کر حَرَّہِ قُباء کے عقب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا استقبال کیا اور اظہار مسرت کے لئے نعرۂ تکبیر بلند کیاجس کی آواز بنی عمر وبن عوف میں پہنچی۔یہ قبیلہ مو ضع قُباء میں جو مدینہ سے جنوب کی طرف دو میل کے فاصلہ پر ہے آباد تھا۔اس خاندان کا سر دار کلثوم بن ہِدْم اَنصار ی اَوسی تھا۔ اس سے پہلے اکثر اکابر صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اسی کے ہاں اتر تے تھے۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اسی کو شرفِ نزول بخشا۔

 

________________________________
1 – قصہ ہجرت کے لئے دیکھو صحیح بخاری باب ہجرۃ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ۔۱۲منہ
2 – حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ان اونٹنیوں کو چار ماہ سے ببول کی پتیاں کھلا کھلا کر تیار کیاتھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔۱۲منہ
3 – پٹکہ یعنی کمر سے باندھنے والا کپڑا ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!