فتح فسطاط
مصر کی جنگ میں حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ فسطاط کے قلعہ کا کئی ماہ سے محاصرہ کئے ہوئے تھے لیکن اس مضبوط قلعہ کو فتح کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی ۔ آپ نے دربار خلافت میں مزید فوجوں سے امداد کے لیے درخواست بھیجی۔ امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس ہزار مجاہدین اورچار افسروں کو بھیج کر یہ تحریر فرمایا کہ ان چار افسروں میں ہر افسر دس ہزار سپاہ کے برابر ہے ۔ ان چارافسروں میں حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ۔
حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حملہ آور محاصرین کی فوج کا سپہ سالار بنادیا۔ حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قلعہ کا چکر لگا کر
اندازہ فرمالیا کہ اس قلعہ کو فتح کرنا نہایت ہی دشوار ہے لیکن آپ نے اپنے فوجی دستے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے بہادران اسلام ! دیکھومیں آج اپنی ہستی کو اسلام پر فدا اور قربان کرتاہوں ۔ یہ کہہ کر آ پ نے بالکل اکیلے قلعہ کی دیوار پر سیڑھی لگائی اور تنہا قلعہ کی فصیل پر چڑھ کر ”اللہ اکبر”کا نعرہ مارااور ایک دم فصیل کے نیچے قلعہ کے اندر کود کر اکیلے ہی قلعہ کی اندرونی فوج سے لڑتے ہوئے قلعہ کا پھاٹک کھول دیا او ر اسلامی فوج نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے قلعہ کے اندر داخل ہوگئی اوردم زدن میں قلعہ فتح ہوگیا۔
اس مضبوط ومستحکم قلعہ کو جس بے مثال جرأت اوربہادری سے منٹوں میں فتح کرلیا ۔ اس کو تاریخ جنگ میں کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ امیر لشکرحضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس کرامت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے کیونکہ وہ کئی ماہ سے اس قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے مگر باوجود اپنی جنگی مہارت اوراعلیٰ درجے کی کوششوں کے وہ اس قلعہ کو فتح نہیں کرسکے تھے ۔ (کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۲۴)