غسل و کفن کے احکام و مسائل
غسل و کفن کے احکام و مسائل
(۱)’’عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَہُ فَقَالَ اغْسِلْنَہَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا وَابْدَأْنَ بِمَیَامِنِہَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوئِ مِنْہَا‘‘۔ (1)
حضرت اُم عطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا کہتی ہیں کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ ہم حضور کی صاحب زادی ( حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا) کو غسل دے رہے تھے ) تو حضور نے فرمایا اسے غسل دو طاق ، یعنی تین یا پانچ یا سات بار، اور غسل کا سلسلہ داہنی جانب سے اور وضو کے اعضاء سے شرو ع کریں۔ (بخاری)
میت کو غسل دینے میں کلی نہ کرائے اور نہ ناک میں پانی ڈالا جائے ۔ (2) (بہار شریعت)
(۲)’’عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا کَفَّنَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ فَلْیُحَسِّنْ کَفَنَہُ‘‘۔ (3)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جب کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو چاہیے کہ اچھا کفن دے ۔ (مسلم شریف)
حضرتِ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’مراد بہ تحسین کفن آنست کہ تمام باشد ونظیف و سفید و بے اسراف و تبذیر، ونوو شستہ دراں، برابر ست اماآنچہ مُسرفان کنند بریا وتکبر حرام ومکروہ است اشد
یعنی اچھے کفن کا مطلب یہ ہے کہ کفن پورا ہو اور صاف ستھرا ہو و سفید ہو ا ور اس میں اسراف و بے جا خرچ نہ ہو۔ نیا کفن اور پرانا جو دھویا ہوا ہو دونوں کا حکم ایک ہے لیکن اسراف و فضول خرچی کرنے والے جو رِیا اور تکبّر سے کرتے ہیں وہ سخت مکروہ اور
حرمت وکراہت‘‘۔ (1)
اشد حرام ہے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول، ص۶۷۲)
(۳)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْبَسُوا مِنْ ثِیَابِکُمُ الْبَیَاضَ فَإِنَّہَا مِنْ خَیْرِ ثِیَابِکُمْ وَکَفِّنُوا فِیہَا مَوْتَاکُمْ ‘‘۔ (2)
حضرت ابنِ عباس ر ضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ تم لوگ سفید کپڑے پہنا کر واس لیے کہ وہ عمدہ قسم کے کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں اپنے مُردوں کو کفنایا کرو۔ (ابو داود، ترمذی)
ضرور ی انتباہ:
(۱)…عوام میں جو مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کاندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اُتار سکتا ہے نہ منہ دیکھ سکتا ہے ۔ یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اس کے بدن کو بلا حائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے ۔ (3)
(بہار شریعت، جلد چہارم، ص ۵۱۹)
(۲)… میّت کے دونوں ہاتھ کروٹوں میں رکھیں سینہ پر نہ رکھیں کہ یہ کفّار کا طریقہ ہے ۔ درمختار مع ردالمحتار جلد اول ص:۶۰۰ میں ہے : ’’ یُوضَعُ یَدَاہُ فِی جَانِبَیْہِ لَا عَلَی صَدْرِہِ لِأَنَّہُ مِنْ عَمَلِ الْکُفَّارِ‘‘۔ (4)
(۳)… بعض جگہ میت کے دونوں ہاتھ ناف کے نیچے اس طرح رکھتے ہیں کہ’’ جیسے نماز کے قیام میں‘‘یہ بھی منع ہے ۔
(۴)… میت کا تہبند چوٹی سے قدم تک ہونا چاہیے یعنی لفافہ سے اتنا چھوٹا جو بندش کے لیے زیادہ تھا ۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۵۰ ، ہدایہ جلد اول ص:۱۳۷، اور ردالمحتار جلد اول ص:۶۰۳ میں ہے : ’ ’ اَلْإِزَارُ مِنَ الْقَرْنِ إلَی الْقَدَمِ‘ ‘یعنی تہبند کی مقدار چوٹی سے قدم تک ہے ۔ (5)اسی طرح بہارِ شریعت میں ہے ۔ لہذا
بعض لوگ جو ناف سے پنڈلی تک رکھتے ہیں یہ صحیح نہیں۔
(۵)…عورت کی اوڑھنی نصف پشت سے سینہ تک ہونا چاہیے جس کا اندازہ تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز ہے ۔ اور عرض ایک کان کی لَو سے دوسرے کان کی لَو تک ہونا چاہیے ۔ اور جو لوگ زندگی کی طرح اوڑھنی رکھتے ہیں یہ بے جا اور خلافِ سنّت ہے ۔ (1)(بہار شریعت)
(۶)… عورت کے لیے سینہ بند پستان سے ناف تک ہو اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ’ ’ وَالْأَوْلَی أَنْ تَکُونَ الْخِرْقَۃُ مِنْ الثَّدْیَیْنِ إلَی الْفَخِذِ کَذَا فِی الْجَوْہَرَۃِ النَّیِّرَۃِ‘‘۔ (2)
(۷)…سینہ بند لفافہ کے اوپر ہونا چاہیے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول ص:۱۵۱میں ہے : ’ ’ ثُمَّ الْخِرْقَۃُ بَعْدَ ذَلِکَ تُرْبَطُ فَوْقَ الْأَکْفَانِ فَوْقَ الثَّدْیَیْنِ کَذَا فِی الْمُحِیطِ ‘‘۔ (3)
اور فتح القدیرمیں ہے : ’ ’ فِی شَرْحِ الْکَنْزِ فَوْقَ الْأَکْفَانِِ‘‘ یعنی شرح کنزالدقائق میں سینہ بند کی جگہ سب کپڑوں کے اوپر مذکور ہے ۔ (4)
لہذا سینہ بند کو سب کپڑوں سے پہلے لپیٹنے کا جو عام رواج ہے وہ غلط ہے ۔
٭…٭…٭…٭