غزوۂ حنین
فتح مکہ کا اثر قبائل عرب پر نہایت اچھا پڑاوہ اب تک منتظر تھے اور کہا کر تے تھے کہ (حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) اور ان کی قوم کو آپس میں نپٹ لینے دو اگر وہ قریش پر غالب آگئے تو سچے پیغمبر ہیں ۔ اس لئے جب مکہ فتح ہوا تو ہر ایک قوم نے اسلام قبول کر نے میں پیش دستی کی (1 ) مگر ہَوَ ازَن کا زبر دست قبیلہ جو مکہ وطائف کے درمیان سکونت پذیر تھا اس فتح پر بہت بَراَفر وختہ (2) ہوا ۔وہ اس سے پہلے ہی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے اس لئے فتح کی خبر سنتے ہی حملہ کے لئے تیار ہو گئے۔ ہوازن (باستثنائے کعب وکلاب ) کے ساتھ ثَقِیف تمام اور نَصْر و جُشَم تمام اور سعد بن ابی بکر اور کچھ بنوہلال شامل ہوئے۔ جُشَم کا رئیس دُرَید بن صِمَّہ تھا جس کی عمر سوسال سے متجاوز تھی۔ اسے محض مشور ے کے لئے ہَودَج (3 ) میں بٹھا کر ساتھ لے گئے۔ تمام فوج کا سپہ سالا را عظم ما لک بن عوف نصری تھا جس کے حکم سے بچے اور عورتیں اور اَموال بھی ساتھ تھے تا کہ لڑائی میں پیچھے نہ ہٹیں ۔ دُرَید نے اس حکم کو پسند نہ کیامگر اس کی کچھ پیش نہ گئی۔
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عبد اللّٰہ بن ابی حَدْرَد اَسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُو بطور جا سوس دریافت حال کے لئے بھیجا۔ وہ دشمن کے لشکر میں آئے اور انہوں نے وہاں کے تمام حالات دربار رسالت میں عرض کیے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تیاری شروع کر دی۔ دس ہزار درہم سے زائد عبداللّٰہ بن ابی رَبیعہ سے جو ابوجہل کے بھائی تھے قرض لئے گئے۔ اور صفوان بن امیہ سے جواب تک ایمان نہ لا ئے تھے سو زِرہیں مع لو از م مُسْتَعارلی گئیں ۔ غرض شوال ۸ھ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارہ ہزار جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے جن میں سے دوہزار طُلَقا ء ( اہل مکہ ) تھے۔ لشکر کی کثرت کو دیکھ کر بعضوں کی زبان سے بے اختیار نکلا:
’’ آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے؟ ‘‘ جب حنین (1 ) میں پہنچے تو صبح کے وقت کہ ابھی اجالا بھی اچھی طرح نہ ہو اتھا حملہ کے لئے آگے بڑھے۔ دشمن نے ان کے پہنچنے سے پہلے ہی اس طرح صف آرائی کر رکھی تھی کہ سب سے آگے سوار، سواروں کے پیچھے پیادہ، پیادوں کے پیچھے عورتیں اور عورتوں کے پیچھے بکریا ں اور اونٹ تھے اور کچھ فوج پہاڑ کی گھاٹیوں اور دَروں کی کمین گاہوں میں مقرر کر دی تھی۔ اسلامی فوج نے پہلے ایسی شجاعت سے دھاواکیا کہ کفار (2 ) بھاگ نکلے۔ مسلمان غنیمت لو ٹنے میں مشغول ہو گئے۔ کفار نے ایک دوسرے کو پکار اکہ یہ کیا ذِلت و فَضِیْحَت ( 3) ہے اور مڑ کر حملہ کیا۔ اب کثرت پر نازش ( 4) اپنا رنگ لائی۔ لشکر اسلام کے مقدمہ میں بہت سے ایسے نوجوان تھے جو سلاح (5 ) وزِرہ سے خالی تھے۔ ہو ازن وبنو نصر کی جماعت نے جو تیرانداز ی میں مشہور تھے تیروں کا مینہ بر سانا شروع کیا۔ذراسی دیر میں مقدمۃ الْجَیْش ( 6) کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس طرح باقی فوج بھی بھاگ نکلی۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صرف چند اصحاب ثابت قدم رہے مگر اکیلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے کہ اس حالت میں بھی دشمن کی طرف بڑھنا چاہتے تھے اور وہ اصحاب بمقتضائے شفقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو روک رہے تھے۔ چنانچہ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے خچر کی لگا م اور حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رکا ب تھا مے ہوئے تھے کہ آگے نہ بڑھ جائیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرمارہے تھے:
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں پیغمبر ہوں اس میں جھوٹ نہیں ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔
حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہایت بلند آواز تھے۔ آپ نے حکم دیا کہ مہاجرین وانصار کو آواز دو۔ چنانچہ وہ یوں پکار نے لگے : یَامَعْشَرَ الْاَنْصَارِ! یَا اَصْحَابَ السَّمْرَۃِ ! یَا اَصْحَابَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ ! او گروہ انصار! او بیعت رضوان والو! اے سورۂ بقرہ والو!
اس آواز کا کان میں پڑ نا تھا کہ لَبیک لَبیک کہتے ہوئے سب جمع ہوگئے۔ آپ نے صف آرائی کے بعد حملہ
کا حکم دیا چنانچہ وہ نہایت بہادری سے لڑنے لگے۔ شدت جنگ کو دیکھ کر آپ نے فرمایا: اَ لْاٰنَ حَمِیَ الْوَطِیْسُ (اب تنور خوب گرم ہو گیا) لڑائی کا نقشہ بدل چکا تھا۔مسلمانوں پر طَمَانِیَت کا نزول ہوا۔کفار کو ملاء ِاعلیٰ (1 ) کا لشکر پچکلیان گھوڑوں (2 ) پر سواروں کی شکل میں نظر آرہاتھا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خچر سے اتر کر ایک مشت خاک لی اور شَاہَتِ الْوُجُوْہ (3 ) پڑھتے ہوئے کفار کی طرف پھینک دی۔ دشمن میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ خاک نہ پڑی ہو۔ (4) لشکر کفار کو شکست ہوئی۔ اللّٰہ تعالٰی نے اپنے کلام پاک میں جنگ حنین کاذکر اس طرح کیا :
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍۙ-وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ-اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ (۲۵) ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ (۲۶) ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۲۷) (سورۂ توبہ، ع۴) البتہ تحقیق اللّٰہ نے تم کو مدد دی بہت میدانوں میں اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترائے۔ پس وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین با وجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر ہٹے پھر اللّٰہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نا زل فرمائی اور وہ فوجیں اتاریں جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کو عذاب کیا اور یہی سزاہے کافروں کی پھر خدا اس کے بعد توبہ قبول کرے گا جس کی چا ہے اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (5 )