عبدالمُطَّلِب و ابو طالب کی کفالت
ام ایمن حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو مکہ میں لائیں اور آپ کے دادا عبد المُطَّلِب کے حوالہ کیا۔
عبد المُطَّلِب آپ کی پرورش کر تا رہا مگر جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر مبارک آٹھ سال کی ہوئی تو اس نے بھی وفات پائی اور حسب وصیت آپ کا چچا ابو طالب جو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا باپ اور آپ کے والد عبد اللّٰہ کا ماں جا یابھائی تھا، آپ کی تربیت کا کفیل ہوا، ابو طالب نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کفالت کو بہت اچھی طرح انجام دیااور آپ کو اپنی ذات اور بیٹوں پر مُقَدَّم رکھا۔ (1)
طفولیت میں حضرت کی دعا سے نزول باراں
ایک دفعہ ابو طالب نے حضرت (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو ساتھ لے کر بارش کے لئے دعا کی تھی جو حضور کی برکت سے فوراً قبول ہو ئی تھی۔چنانچہ ابن عساکر جُلْہُمَہ بن عُرْفُطَہ سے ناقل ہے کہ اس نے کہا کہ میں مکہ میں آیا، اَہل مکہ قحط میں مبتلا تھے، ایک بولا کہ لات و عُزّٰی کے پاس چلودوسرابو لا کہ مَنات کے پاس چلو۔یہ سن کر ایک خوبرو جیدالرّائے (2) بو ڑھے نے کہا: تم کہاں الٹے جارہے ہو حالانکہ ہمارے درمیان باقِیَۂ ابر اہیم (3) و سُلَالَۂ اسماعیل (4) موجود ہے۔ وہ بولے: کیاتمہاری مر اد ابو طالب ہے؟ اس نے کہا: ہاں ! پس وہ سب اُٹھے اور میں بھی ساتھ ہو لیا۔جاکر دروازے پر دستک دی ابو طالب نکلاتو کہنے لگے: ’’ ابو طالب! جنگل قحط زدہ ہو گیا، ہمارے زن وفرزند قحط میں مبتلا ہیں ، چل مینہ مانگ۔ ‘‘ پس ابوطالب نکلااس کے ساتھ ایک لڑ کا تھا گو یا آفتاب تھا، جس سے ہلکا سیاہ بادل دور ہوگیا ہو، اس کے گر داور چھوٹے چھوٹے لڑ کے تھے۔ ابو طالب نے اس لڑ کے کو لیا اور اس کی پیٹھ کعبہ سے لگا ئی۔اس لڑ کے (محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے التجاکر نے والے کی طرح اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، حالانکہ اس وقت آسمان پر کوئی بادل کا ٹکڑا نہ تھا، اشارہ کر نا تھا کہ چاروں طرف سے بادل آنے لگے۔ برسا اور خوب بر سا جنگل میں پانی ہی پانی نظر آنے لگا اور آبادی و وادی سب سرسبز وشاداب ہو گئے اسی بارے میں ابو طالب نے کہاہے:
وَاَبْیَضَ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ ثِمَالُ الْیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِلْاَرَامِلِ
اور گورے رنگ والے جن کی ذات کے وسیلہ سے نزول بار اں طلب کیا جاتا ہے یتیموں کے ملجاوماوی رانڈوں (5) اور درویشوں کے نگہبان ۔
بعثت کے بعد جب قریش آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ستا رہے تھے تو ابو طالب نے ایک قصیدہ لکھا تھا جو سیرت ابن ہشام میں دیا ہوا ہے۔شعر مذکوراسی قصیدے میں سے ہے، اس شعر میں ابو طالب قریش پر بچپن سے حضرت کے احسانات جتارہا ہے اور گو یا کہہ رہا ہے کہ ایسے قدیم بابرکت محسن کے دَرْپَئے آزار (1) کیوں ہو ؟ (2) (مواہب وزر قانی)
________________________________
1 – شرح الزرقانی علی المواہب،باب ذکر وفاۃ امہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۳۰۹ علمیہ۔
2 – اچھی رائے دینے والا۔
3 – حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام کی آل۔
4 – حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلام کی اولاد۔
5 – بیواؤں ۔
________________________________
1 – تکلیف یا ضرر پہنچانے کی فکر میں رہنا۔
2 – المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،ذکروفاۃ امہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۳۵۵۔۳۵۸ملخصاً علمیہ۔