صدقہ کے فضائل پر احادیث ِ طیِّبہ:
صدقہ کے فضائل پر احادیث ِ طیِّبہ:
حضور نبئ کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: ”جس مسلمان نے کسی بے لباس مسلمان کو کپڑا پہنایا اللہ عزَّوَجَلَّ اسے جنتی لباس پہنائے گااورجس نے کسی بھوکے مسلمان کو کھاناکھلایا اللہ عزَّوَجَلَّ اسے جنتی پھل کھلائے گااور جس نے کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلایا اللہ عزَّوَجَلَّ اُسے مہر لگی ہوئی پاکیزہ شراب پلائے گا۔”
(سنن ابی داؤد ،کتاب الزکاۃ ،باب فی فضل سقی الماء ، الحدیث ۱۶۸۲، ص ۱۳۴۸”حلل”بدلہ”خضر”)
حضرت سیِّدُنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب ،حبیب ِ لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”صدقہ اور صلہ رحمی سے اللہ عزَّوَجَلَّ عمرمیں برکت دیتا، بُری موت کودفع کرتا اورناپسندیدہ اور قابلِ احتراز شئے کو دور کرتا ہے۔”
(مسند ابی یعلی الموصلی، مسند انس بن مالک ، الحدیث۴0۹0، ج۳، ص۳۹۷)
حضرت سیِّدُناسعید بن مسعود کِندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے: ”جوشخص دن یارات کو صدقہ کرتاہے تو وہ سانپ یابچھوکے کاٹنے، گِرکر مرنے یا اچانک موت سے محفوظ رہتا ہے۔”
حضرت سیِّدُنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ شفاعت نشان ہے:”صبح سویرے صدقہ کیاکرو کیونکہ مصیبت صدقہ سے سبقت نہیں لے جا سکتی۔”
( السنن الکبری للبیھقی،کتاب الزکاۃ،باب فضل من اصبح صائما ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث ۷۸۳۱ ، ج۴ ،ص ۳۱۸)
بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”بندہ صَدَقہ کرتا ہے اور بلاء نازل ہو رہی ہوتی ہے توصَدَقہ اوپر بلند ہوتا ہے، ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے، نہ بلاء صَدَقہ پر غلبہ پا سکتی ہے نہ صَدَقہ بلاء پر۔ جب تک اللہ عزَّوَجَلَّ چاہے دونوں زمین وآسمان کے درمیان ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔”
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرما نِ عالیشان ہے، اللہ عزَّوَجَلَّ(قیامت کے دن) فرمائے گا: ”اے میرے بندے!میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو نے مجھے نہ کھلایا۔میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تو نے مجھے نہ پلایا۔میں نے تجھ سے کپڑے طلب کئے تو نے مجھے نہ دیئے۔”تو بندہ عرض کریگا:” اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ!وہ کیسے؟”اللہ عزَّوَجَلَّ فرمائے گا: ”تیرے قریب سے فلاں بھوکا اور فلاں ننگا گزراتھا مگر تُونے اپنے مال میں سے کوئی چیز اُسے نہ دی، آج میں تجھ سے اپنا فضل روک لوں گاجیسا کہ تو نے روک لیاتھا۔”
( صحیح مسلم ،کتاب البروالصلۃ والاداب،باب فضل عیادۃ المریض،الحدیث۲۵۶۹،ص۱۱۲۸،مختصرًا)
حضرت سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” اگر اللہ عزَّوَجَلَّ چاہے تو تمہیں فقیر بنا دے کہ تم میں کوئی امیرنہ رہے اور اگر چاہے تو تمہیں غنی بنادے کہ تم میں کوئی محتاج نہ رہے لیکن وہ تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے آزماتاہے۔”
حضرت سیِّدُنا ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ حضورسیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرما نِ مغفرت نشان ہے : ”پوشیدہ طور پرصَدَقہ دینا اللہ عزَّوَجَلَّ کے غضب کو ٹھنڈا کرتاہے ،اور نیکیاں برائی کے دروازوں سے بچاتی ہیں ۔صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ اور رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔” (المعجم الاوسط، الحدیث۹۴۳، ج۱، ص۲۷۳، بتغیرٍقلیلٍ)
حضرت سیِّدُنا سالم بن جَعْد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ”صَدَقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کر دیتا ہے اور پوشیدہ صدقہ اعلانیہ صدقے سے ستر گنا افضل ہے ۔”
(المتجر الرابح فی ثواب العمل الصالح، ابواب الصدقات، ثواب صدقۃ السر، ص۲۸۷)
منقول ہے کہ صدقہ کے حروف چار ہیں: صاد،دال، قاف اورہاء ۔ صادسے مراد یہ ہے کہ صَدَقہ کرنے والا دنیا و آخرت کی تکالیف سے محفوظ رہتا ہے۔ دال سے مراد یہ ہے کہ بروزِ قیامت جب ساری مخلوق حیران وپریشان ہو گی تو صَدَقہ کرنے والے کی جنت کی طرف رہنمائی کی جائے گا۔ قاف سے مرادیہ ہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّ اسے اپنا خاص قرب عطافرماتا ہے۔ ہاء سے مراد یہ ہے کہ اسے اعمالِ صالحہ کی ہدایت سے نوازا جاتا ہے تاکہ اللہ عزَّوَجَلَّ اس سے راضی ہو جائے۔
حضرت سیِّدُناابو القاسم مذکورعلیہ رحمۃاللہ الغفور فرماتے ہیں کہ” حضرت سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے اخلاق میں سے یہ تھا کہ وہ اپنے پاس موجود سب سے اچھی، بہتر اور خوبصورت شئے صَدَقہ کرتے، آپ سے عرض کی گئی:”اگر آپ اس سے کم صدقہ کریں تب بھی آپ علیہ االسلام کو کفایت کریگا۔” توآپ علیہ االسلام نے ارشاد فرمایا:” کیااللہ عزَّوَجَلَّ مجھے ملاحظہ نہیں فرما رہا کہ میں اُس سے اپنے پاس موجود گھٹیا چیز کے بدلے بہتر چیز طلب کرتاہوں ۔”
حضرت سیِّدُنا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکر ِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ حقیقت نشا ن ہے: ”دو چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں اور دو اللہ عزَّوَجَلَّ کی طرف سے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:
(3) اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاۡمُرُکُمۡ بِالْفَحْشَآءِ ۚ وَاللہُ یَعِدُکُمۡ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ
ترجمۂ کنزالایمان:شیطان تمہیں اندیشہ دلاتاہے محتاجی کااورحکم دیتا ہے بے حیائی کا،اوراللہ تم سے وعدہ فرماتاہے بخشش اورفضل کا،اوراللہ وسعت والا، علم والا ہے۔(پ3، البقرۃ: 268)
(حضرت سیِّدُنا شعیب حریفیش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ) شیطان تمہیں صدقہ وخیرات سے منع کرتا اور گناہوں کا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ عزَّوَجَلَّ تمہیں فرمانبرداری اور صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تم اس سے مغفرت اور اس کا فضل پاؤ اوراللہ عَزَّوَجَلَّ صدقہ کرنے والے کا ثواب جانتا ہے۔ (الدر المنثور، البقرۃ، تحت الآیۃ ۲۶۸، ج ۲، ص۶۵ )
حضرت سیِّدُنا ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ زمین پر جو بھی صدقہ نکالا جاتا ہے وہ ستر شیطانوں کے جبڑوں سے چُھڑا کر دیا جاتا ہے وہ سب بندے کو صدقہ دینے سے روکتے ہیں۔”
(الزھد لابن المبارک،باب الصدقۃ، الحدیث۶۴۹، ص۲۲۸)