واقعات

سیِّدُناابویزید علیہ رحمۃ اللہ المجید کا ذوقِ عبادت:

سیِّدُناابویزید علیہ رحمۃ اللہ المجید کا ذوقِ عبادت:

حضرت سیِّدُنا ابنِ ظفر علیہ رحمۃ الرَّب بیان فرماتے ہیں کہ ”حضرت سیِّدُنا ابویزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّورَانِی کو بچپن میں جب مدرسہ داخل کیاگیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس آیتِ مبارکہ پرپہنچے: یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اے جھرمٹ مارنے والے! رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔(پ۲۹، المزمل۱۔۲)” تو اپنے والدِ محترم حضرت سیِّدُنا طیفور بن عیسیٰ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عرض کی:”یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کس سے مخاطب ہے؟” تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”اے میرے بیٹے! یہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت سیِّدُنا احمدِ مجتبیٰ،محمدِمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہیں۔” پوچھا: ”اے میرے ابا جان! پھر آپ بھی حضور نبئ کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سُنَّت پر عمل کیوں نہیں کرتے۔” تو انہوں نے جواب دیا: ”پیارے بیٹے! یہ حکم خاص حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو فرمایا گیا پھر سورۂ طہٰ میں اس میں تخفیف کر دی گئی۔”

جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا سبق اس آیتِ مبارکہ پر پہنچا: اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدْنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصْفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ ؕ ترجمۂ کنزالایمان :بے شک تمہارا رب جانتاہے کہ تم قیام کرتے ہوکبھی دو تہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات کبھی تہائی اور ایک جماعت تمہارے ساتھ والی۔(پ۲۹،المزمل :۲0)” تو پھر پوچھنے لگے:”اے میرے والد ِ محترم! میں سن رہاہوں کہ اس میں ایک ایسے گروہ کاذکر ِ خیر بھی ہے جو راتوں کو قیام کرتاہے۔” تو والدِ محترم نے بتایا:”جی ہاں! وہ ہمارے پیارے آقا، دوعالم کے داتا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔” تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی:”اس چیز کو
ترک کرنے میں کوئی بھلائی نہیں جو رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کیا کرتے تھے۔” چنانچہ، اس کے بعد آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے والد ِ محترم ساری ساری را ت قیام کرنے لگے۔ایک رات آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیدار ہوئے اور اپنے والد ِ محترم سے عرض کی: ”مجھے بھی سکھلایئے، میں بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کروں گا۔” والد صاحب فرمانے لگے:”بیٹے !ابھی تم چھوٹے ہو۔” عرض کی: ”اے میرے ابا جان! جس دن لوگ الگ الگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضر ہوں گے تاکہ اپنے اعمال دیکھیں،اور اگر میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے پوچھ لیا، ”اے ابویزید! تم نے کیا کِیا؟” تومیں جواب دوں گا: ” میں نے اپنے والد ِمحترم سے عرض کی تھی کہ مجھے سکھلائيے تاکہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھا کروں تو انہوں نے مجھے کہا تھا، ”ابھی تم چھوٹے ہو۔” یہ سن کر فوراً آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے والد ِ محترم کہنے لگے:”نہیں، خداعَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں نہیں چاہتا کہ تم ایسی بات کہو ۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو والدصاحب نے نماز سکھائی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی رات کا اکثر حصہ نماز ادا کرتے رہتے۔
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!کیا شان ہے ان لوگوں کی جن کے ذوق وشوق کی سواری مقصد کے حصول کے لئے راتوں کو چلتی رہتی یہاں تک کہ وہ اپنی منزلِ مراد پر پہنچ جاتے اور انہیں عنایتِ خداوندی حاصل ہو جاتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!