اسلام

سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے انگوٹھی پہنائی:

سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے انگوٹھی پہنائی:

حضرت سیِّدُنا امام دَرَاوَرْدِی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: ”میں نے خواب میں اپنے آپ کو مسجد ِ نبوی میں یوں حاضر پایا کہ میں نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلوہ ٔنور بار سے ضیا بار ہو رہا ہوں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم لوگوں کے سامنے بیان فرمارہے ہیں۔اسی دوران حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرِ خدمت ہوئے۔جب نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں دیکھا تو ارشاد فرمایا: ”اِدھر میرے پاس آؤ۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریب ہوئے تو سرکارِ دوعالم، نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اُتاری اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چھنگلیامیں پہنا دی۔ میرے خیال میں اس سے مراد علم ہے جوحضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں عطا فرمایا۔علم کے سبب علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی کرتے۔ امراء آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے روشنی پاتے۔ عام لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان دل وجان سے تسلیم کرتے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحکم بغیر دلیل کے نافذ ہوتا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی سوال کا جواب ارشاد فرما دیتے تو اس میں مزید مشورے کی ضرورت نہ رہتی۔”

(سیر اعلام النبلاء، الرقم۱۱۸0،مالک الامام، ج۷،ص۴0۲،بتغیرٍ۔حلیۃ الاولیاء، مالک بن انس، الحدیث۸۸۶۳، ج۶،ص۳۴۸)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خدائے ذوالجلا ل عَزَّوَجَلَّ کی قسم !یہ ان علما ء کی صفات ہیں جن کے وصال پرزمین و آسمان روتے ہیں۔جن کے صدقے بندوں پر کرم ہوتا ہے۔جن کی برکت سے شہر آفات سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ وہ علماء ہیں جن کی سیرت میں دنیا سے بے رغبتی جَھلکتی ہے۔ جو اِخلاص وصداقت کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں۔لوگوں کے دل ان کے دیدارکے مشتاق ہوتے ہیں۔ لوگ ان کے سامنے سرِتسلیم خَم کر لیتے ہیں۔ ان کے سامنے بڑی بڑی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں اور بڑے

بڑے جابروں کے سر جھک جاتے ہیں۔ یہ دنیا کے تمام گوشوں میں سورج چاند کی طرح اپنے علم کی روشنی پھیلاتے ہیں۔ بلاشبہ ان کا ذکر ِ خیر کتابوں میں لکھا جا چکا ہے۔ البتہ!جو اپنے عمل میں ریاکاری کرتا ہے اوراہلِ دنیا کے لئے اچھے ا عمال کرتا ہے۔ اسے جھوٹی امیدوں نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔وہ ایسی خوبیوں پر اپنی تعریف چاہتاہے جو اس میں نہیں پائی جاتیں(یعنی اپنی جھوٹی تعریف کی خواہش کرتا ہے) تو یہ ان لوگوں میں سے ہے جو اُلٹے دماغ اور گھٹیا سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ایسے لوگ جب کوئی ایسی بات سنتے ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور ان کا علم اس سے قاصر ہوتا ہے توان کے اُصول و قواعدبگڑجاتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے مقصد کاحصول مشتبہ ہو جاتاہے۔نیکیوں کی صورت میں گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔برائیوں کواچھائیاں سمجھ کر ان کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اور یوں عمل میں خیانت کرتے اورحصولِ مراد میں ناکام وبے مراد ہوجاتے ہیں۔
تعجب اس پرنہیں جو ناواقف ہے اور جہالت کی وجہ سے مرتکب ِ گناہ ہوا اور نافرمانی کا اعتراف بھی کر چکا ہے کیونکہ اس کے لئے توبخشش ہے۔ جیسا کہ ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

(4) ﴾قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرْلَہُمۡ مَّا قَدْ سَلَفَ ۚ

ترجمۂ کنزالایمان :تم کافروں سے فرماؤ! اگر وہ باز رہے تو جو ہوگزرا وہ انہیں معاف فرما دیا جائے گا۔(پ9،الانفال :38)
بلکہ تعجب تو اس پرہے جو علم کا دعویٰ کرے مگر اس کا مقصد حصولِ دنیا ہو۔ ایسے شخص کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ملامت کی جائے گی۔ یہ لوگوں کے نزدیک قابلِ مذمت اور اجر وثواب سے محروم ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَل کے دین کو ہنسی مذاق اورکھیل کود بنالیا۔انہوں نے اپنے مواعظ و بیانات کو خوش کن اور تیز تر کر لیا لیکن ان کی بات دل سے نہیں سنی جاتی۔ یہ وعظ ونصیحت کرتے ہیں مگر ان کا بیان لوگوں کے دل پر اثر نہیں کرتااورنہ ہی آنکھوں سے اشک زاری ہوتی ہے۔
چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتاہے:

(5) وَ ہُمْ یَحْسَبُوۡنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوۡنَ صُنْعًا ﴿104﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔(پ16،الکھف :104)
جب یہ کوئی حکم سنتے ہیں تو اس میں تبدیلی اور تحریف کرلیتے ہیں اور جب کوئی چیز ناپ تول کر دیتے ہیں توکمی کر دیتے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! یہ سب شریعت میں حرام ہے۔ چنانچہ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ ہُمْ یَحْسَبُوۡنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوۡنَ صُنْعًا ﴿104﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔

یہ لوگ بغیر عزم وحوصلے کے اظہارِ غم کرتے ہیں، بغیر علم کے بحث مباحثہ کرتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے سوال کرتے ہیں۔ یقینا یہی وہ لوگ ہیں جو جہالت کی تلوار سے پَچھاڑ کھائے ہوئے ہیں۔ ربّ عظیم جَلَّ جَلَالُہٗ ارشاد فرماتا ہے:

وَ ہُمْ یَحْسَبُوۡنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوۡنَ صُنْعًا ﴿104﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سحری کے وقت کثرت کے ساتھ نماز ،ذکر ِ الٰہی اور اوراد و وظائف کا اہتمام فرماتے۔پھردرس وتدریس میں مشغول ہو جاتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے خوش بخت ہیں جن کی تعریف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زبانِ حق ترجُمان سے ہوئی مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر کبھی فخر نہ کیایہاں تک کہ حصولِ علم کے لئے مشکل ترین راستوں کا سفر کیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم حاصل کرنے کی خاطر تمام مشکلات کا سامنا کیا۔
اے غافل انسان! توجہالت کے گڑھے میں گِرا ہواہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے احکام کو چھوڑ بیٹھا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!