اسلامواقعات

ساتواں سال نبوت ۷ نبوت

ساتواں سال نبوت ۷ نبوت

قریش نے جب دیکھاکہ باوجود تشددو مزاحمت کے اسلام قبائل عرب میں پھیل رہا ہے۔حضرت حمزہ وعمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسے لوگ ایمان لا چکے ہیں ، نجاشی نے مسلمانوں کو پنا ہ دی ہے اور سفارت بھی بے نَیلِ مَرَام (3) واپس آگئی ہے تو انہوں نے بالاتفاق یہ قرار (4) دیا کہ ( حضرت ) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کو علانیہ قتل کر دیا جائے۔ابو طالب کو یہ خبر پہنچی تو اس نے بنی ہاشم وبنی مُطَّلِب کو جمع کرکے کہا کہ (حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کو بغر ض حفاظت اپنے شِعْب (دَرَّہ ) میں لے چلو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، جب قریش کو معلوم ہوا کہ ہاشم ومُطَّلِب کی اولاد نے (سوائے ابو لہب کے ) بلا امتیازِ مذہب حضرت کو اس طرح اپنی پناہ میں لے لیا ہے تو انہوں نے مقام محصب میں جو کہ مکہ ومنٰی کے درمیان ہے آپس میں یہ عہد کیا کہ ہاشم ومُطَّلِب کی اولاد سے مناکحت (5) اور لین دین سب موقوف کر دیا جائے

یہاں تک کہ وہ تنگ آکر محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کو قتل کے لئے ہمارے حوالہ کردیں ۔ (1) اور تا کید مزید کے لئے یہ مُعَاہَدہ تحریر کرکے کعبۃ اللّٰہ کی چھت میں لٹکا دیا۔ کفار قریش نے نہایت سختی سے اس معاہد ہ پر عمل کیا، باہر سے جو غلہ مکہ میں آتا وہ خود ہی خرید لیتے اور مسلمانوں تک نہ پہنچنے دیتے اگر ان میں سے کوئی بطور صلہ رحم اپنے کسی مسلمان رشتہ دار کو اناج بھیجتا تو اس کے بھی سد راہ ہوتے۔ غرض بنوہاشم شعب ابی طالب میں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ ابو طالب کا یہ معمول تھا کہ جب لوگ سو جاتے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بغر ض حفاظت آپ کے بستر سے اٹھاتا تاکہ دوسرے بستر پر جالیٹیں اور آپ کے بستر پراپنے کسی بیٹے یا بھائی کو لٹاتا۔ (2)
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیاکہ ابو طالب آپ کی مراعات ومد د کیا کر تا تھااور آپ کے لئے ناراض ہوا کر تا تھاکیا یہ عمل اس کو فائدہ دے گا ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ وَجَدتُّہ ٗ فِیْ غَمَرَاتٍ مِنَ النَّارِ فَاَخْرَجْتُہٗ اِلٰی ضَحْضَاحٍ۔ (3) ہاں ! میں نے اسے سرتاپا بڑی آگ میں پا یا پس اس کو نکال کر تھوڑ ی آگ میں کر دیا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہے۔
یہ تو عذاب قبر میں تخفیف ہے قیامت کو بھی اس کی یہی حالت ہو گی۔ چنانچہ ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ابو طالب کا ذکر آیا تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا : لَعَلَّہٗ تَنْفَعُہٗ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَیُجْعَلُ فِیْ ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ یَغْلِی مِنْہٗ دِمَاغُہٗ (4) مجھے امید ہے قیامت کو میری شفاعت اسے فائدہ دے گی پس اس کو تھوڑی آگ میں کر دیا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے اس کادماغ جوش کھائے گا۔ بعض علماء نے خلافِ اَحادیث صحاح ابو طالب کا ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ والعلم عند اللّٰہ ۔
جب تین سال اسی حالت میں گزرگئے تو اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر دی کہ اس معاہدے کو دیمک اس طرح چاٹ گئی ہے کہ اللّٰہ کے نام کے سوا اس میں کچھ باقی نہیں رہا۔آپ نے یہ خبر ابو
طالب کو دی اس نے کفار قریش کو جاکر کہا: ’’ اے گر وہِ قریش! میرے بھتیجے نے مجھ کو اس طرح خبر دی ہے تم اپنا معاہدہ لاؤ، اگر یہ خبر صحیح نکلی تو تم قطع رحم سے بازآؤ اور اگر غلط نکلی تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کردوں گا۔ ‘‘ وہ اس پر راضی ہو گئے، جب معاہدہ دیکھا گیا تو ویسا ہی پایا گیا جیسا کہ خبر دی گئی تھی (1) اسی وقت پانچ اشخاص (ہشام بن عمر و، زبیر بن ابی امیہ مخزومی، مُطعِم بن عَدِی، ابو البختری، زمعہ بن الا سود) کچھ قیل وقال کے بعد اس معاہد ے کو چاک کر نے پر متفق ہوگئے (2) اور آخرکا رابو البختری نے لے کر پھاڑ ڈالا، باقی سب بجائے رُوبراہ (3) ہونے کے مزید ایذ اء کے درپے ہو گئے۔

________________________________
1 – صحیح بخاری، باب نزول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ۔
2 – المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،دخول الشعب وخبر الصحیفۃ،ج۲،ص۱۲-۱۴۔ علمیہ
3 – صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب شفاعۃ النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۲۰۹،ص۱۳۳۔ علمیہ
4 – صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب شفاعۃ النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۲۱۰،ص۱۳۳۔ علمیہ

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!