خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آپ کا نسب نامہ عثمان بن عفان ابن ابی العاص ابن اُمیّہ ابن عبد ِشمس ابن عبد ِمناف ابن قُصَیْ بن کلاب ابن مُرَّہ ابن کعب ابن لُوءَ یّ ابن غالب ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت عامِ فیل سے چھٹے سال ہوئی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قدیم ُالاسلام ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام کی دعوت حضرت صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں ہجرتیں فرمائیں پہلے حبشہ کی طرف دوسرے مدینۂ طیَّبہ کی طرف۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں حضور ِانور سید ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں آئیں۔ پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،ان کے ساتھ نبوت سے قبل نکاح ہوا اور انہوں نے غزوۂ
بدر کے زمانہ میں وفات پائی اور انھیں کی تیمار داری کی و جہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باجازتِ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مدینۂ طیَّبہ میں رہ گئے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کاسَہْم واَجْر بحال رکھا اور اسی وجہ سے وہ بدریوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جس روز بدر میں مسلمانوں کی فتح پانے کی خبر مدینۂ طیَّبہ میں پہنچی اسی دن حضرت رقیّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دفن کیاگیاتھا۔ اس کے بعدحضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کے نکاح میں دیا جن کی وفات 9ھمیں ہوئی۔علماء فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا دنیا میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئی ہوں، اسی لئے آپ کو” ذوالنورین” کہاجاتاہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابقین اَوَّلین اور اَوَّل مہاجرین عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں اور ان صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے ہیں جن کوا للہ تعالیٰ نے جمعِ قرآن کی عزت عطافرمائی۔ (1)
حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت دریافت کیاگیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کو ملاءِ اعلیٰ میں ”ذوالنور ین” پکارا جاتاہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ارویٰ بنت کریزابن ربیعہ ابن حبیب بن عبد ِشمس ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نانی امِ حکیم بیضاء بنت عبدالمطلب ابن ہاشم ہیں جو حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد کی تَوْاَمَہ یعنی ان کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت حسین و جمیل خوبروتھے۔(2)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعدان کو ان کے چچا حَکم ابن ابی العاص ابن اُمیّہ نے پکڑ کر باندھ دیا اور کہا کہ تم اپنے آباو اجداد کا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کرتے ہو، بخدا! میں تم کو نہ چھوڑوں گا جب تک تم اس دین کو نہ چھوڑو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :خدا کی قسم! میں اس دین کو کبھی نہ چھوڑوں گا اور اس سے کبھی جدانہ ہوں گا ۔ حَکم نے آپ کا یہ زبر دست اِسْتِقْلال دیکھ کر چھوڑدیا۔(1)
جس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربارِ رسالت میں حاضر ہوتے، حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے لباس مبارک کو خوب درست فرماتے اور ارشاد فرماتے: میں اس شخص سے کیوں نہ حیا کروں جس سے ملا ئکہ شرماتے ہیں ۔(2)
ترمذی نے عبدالرحمن بن خباب سے روایت کی وہ کہتے ہیں کہ میں حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا حضور ِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جیشِ عسرت کے لئے تر غیب فرمارہے تھے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں سواونٹ مع بار راہِ خدا میں پیش کروں گا ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پھر لوگوں کو ترغیب فرمائی،پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: میں دوسو اونٹ مع سامان حاضر کروں گا ۔پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ترغیب فرمائی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں تین سو اونٹ مع ان کے تمام اسباب کے ساتھ پیش کشِ خدمت کروں گا ۔ اب حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر سے نزول فرمایا اور یہ فرمایا کہ اس کے بعد عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نہیں جو کچھ کرے۔ (1)
مراد یہ تھی کہ یہ عمل خیر ایسا اعلیٰ اور اتنا مقبول ہے کہ اب اور نوافل نہ کریں جب بھی یہ ان کے مدارجِ عُلْیا کیلئے کافی ہے اور اس مقبولیت کے بعد اب انھیں کوئی اندیشۂ ضرر نہیں ہے ۔ان کلمات مبارکہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان اور بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بیعتِ رضوان کے وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود نہ تھے،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھیں مکہ مکرمہ بھیجا تھا بیعت کے وقت یہ فرماکر کہ”عثمان اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں ہیں۔” اپنے ہی ایک دستِ مبارک کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے دستِ اقدس میں لے لیا ۔(2)
بیعت کی یہ شان حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امتیاز وقربِ خاص کا اظہار کرتی ہے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکے فضائل میں بکثرت احادیث واردہیں ۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری عہد میں ایک جماعت مقرر فرمادی تھی جس کے ارکان یہ حضرات تھے ۔ حضرت عثمان غنی ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت طلحہ ،حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف ،حضرت سعد رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلیفہ کا انتخاب شوری پرچھوڑا تھا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت
عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلوت میں کہا کہ اگر میں آپ سے بیعت نہ کروں تو آپ کی رائے کس کے لئے ہے؟ فرمایا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ۔اسی طرح حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا :آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا۔ پھر اسی طرح حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا انہوں نے فرمایا :علی یا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔پھر سعد سے کہا کہ تم تو خلافت چاہتے نہیں اب بتاؤ رائے کس کے حق میں ہے؟ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا ۔پھر عبد الرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اَعْیان سے مشورہ لیا،کثرتِ رائے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں ہوئی اور آپ باتفاقِ مسلمین خلیفہ ہوئے ۔امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن سے تین روز بعد آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی گئی ۔(1)
آپ کے عہد ِمبارک میں رے اور روم کے کئی قلعے اور سابور اور ارجان اور دار ابجرداور افریقہ اور اندلس، قبرص،جوراور خراسان کے بلا دکثیر ہ اور نیشاپورا ورطوس اور سرخس اور مرواوربَیْہَق فتح ہوئے۔(2)
26ھمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد حرام (کعبۂ مقدسہ ) کی توسیع فرمائی اور
29 ھ میں مسجد مدینہ طیبہ کی تو سیع کی اور حجارئہ منقوشہ سے بنایا،پتھر کے ستون قائم كئے، سال کی چھت بنائی طول (160)گزاور عرض (150) گزکیا ،بارہ سال امورِ خلافت سر انجام فرماکر 35ھ میں شہادت پائی۔(3) رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
جب باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محل کو گھیر لیا اس وقت آپ سے مقابلہ کے لیے عرض کیا گیا اور قوت آپ کی زیادہ تھی مگر آپ نے قبول نہ فرمایا، عرض کیا گیا کہ مکہ مکرمہ یا اورکسی مقام پر تشریف لے جائیں ،یہ بھی منظور نہ فرمایااور ارشاد فرما یا کہ میں رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا قرب چھوڑنے کی تاب نہیں رکھتا۔ جس روز سے آپ نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی اس روز سے دمِ آخرتک اپنا داہنا ہاتھ اپنی شرمگاہ کو نہ لگا یا کیونکہ یہ ہاتھ سید ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس میں دیا گیا تھا۔ روزِاسلام سے روزِ وفات تک کوئی جمعہ ایسا نہ گزرا کہ آپ نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہوا گر کبھی جمعہ کو آپ کے پاس کوئی بَرْدَہ نہ ہوا تو بعد جمعہ کے آزاد کردیا۔(1)
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، ص۱۱۸ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، ص۱۰۹ملتقطاً
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، ص۱۲۰
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی الاحادیث الواردۃ فی
فضلہ…الخ،ص۱۲۰
1۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ،
الحدیث:۳۷۲۰،ج۵،ص۳۹۱
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی الاحادیث الواردۃ فی
فضلہ…الخ، ص۱۲۱
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ،فصل فی خلافتہ،ص۱۲۲ملخصاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ،فصل فی خلافتہ،ص۱۲۳۔۱۲۴ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ،فصل فی خلافتہ،ص۱۲۳۔۱۲۴ملتقطاً
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی خلافتہ،ص۱۲۸ملخصاً