خدا ترس عورت کو ڈوبے ہوئے بچے کیسے ملے؟
خدا ترس عورت کو ڈوبے ہوئے بچے کیسے ملے؟
حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ” سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باِذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: ”بنی اسرائیل کی ایک عورت کا شوہر گھر سے باہر تھا۔ اس شخص کی ماں نے اپنی بہوکو جدائی پراُبھارا تو اس کی بیوی اسے ناپسند کرنے لگی، پھر اس کی ماں نے اپنے بیٹے کی جانب سے ایک جھوٹا طلاق نامہ اپنی بہو کو لکھا،اس عورت کے دو بیٹے تھے ۔جب وہ خط اسے ملاتو وہ اپنے بچوں کو لے کر والدین کے پاس چلی گئی۔وہاں کا ظالم بادشاہ مسکینوں کو کھاناکھلانا ناپسند کرتاتھا۔ ایک دن ایک مسکین اس عورت کے قریب سے گزرا، وہ روٹی پکا رہی تھی۔ مسکین نے سوال کیا: ”مجھے کچھ روٹی کھِلا دو۔” عورت نے کہا: ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ بادشاہ نے سختی کے ساتھ مساکین کو کھانا کھلانے سے منع کیا ہوا ہے ؟”اس نے کہا:”مجھے یہ بات معلوم ہے لیکن اگر تم مجھے کھانا نہ کھلاؤ گی تو میں ہلاک ہو جاؤں گا۔” یہ سُن کر اس عورت کو ترس آگیااور اس نے دو روٹیاں مسکین کو دے دیں اور کہا: ”کسی کو پتا نہ چلے کہ میں نے تجھے کھانا دیا ہے۔” وہ روٹیاں لے کر پہرے داروں کے پاس سے گزرا ۔جب انہوں نے اس کی تلاشی لی تو ا س سے روٹیاں برآمد ہوئیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا: ”یہ تجھے کہاں سے ملیں؟” اس نے کہا:” فلاں عورت نے دی ہیں۔” پہرے دار اس مسکین کو اس عورت کے پاس لے آئے اور پوچھا:”کیا اس مسکین کو یہ روٹیاں تُونے دی ہیں؟”اُس عورت نے جواب دیا:”جی ہاں۔”
انہوں نے پوچھا: ”کیاتُونہیں جانتی کہ بادشاہ نے سختی کے ساتھ مساکین کو کھانا کھلانے سے منع کر رکھا ہے؟”اس عورت نے کہا: ”ہاں، یہ مجھے معلوم ہے۔” تو انہوں نے پوچھا:”پھر کس چیز نے تمہیں اس پر اُبھاراـ؟” وہ بولی:”مجھے اس پر ترس آگیا اور مجھے اُمید تھی کہ یہ کسی کو نہ بتائے گا۔”بہرحال پہرے داروں نے اس کو بادشاہ کے دربار میں پیش کرتے ہوئے بتایا: ”اِس عورت نے مسکین کو کھانا دیا ہے۔” بادشاہ نے اس سے پوچھا:” کیاتُونے ایسا کیاہے؟”اُس نے ہاں میں جواب دیا۔ بادشاہ نے کہا: ”کیا تو نہیں جانتی تھی کہ میں نے مساکین کوکھانا کھِلانے سے منع کر رکھا ہے؟” اس نے کہا:” جی ہاں، مجھے معلوم تھا۔” بادشاہ نے پوچھا: ” پھرتمہیں کس چیز نے اس پر اُبھارا؟” عورت بولی: ” مجھے اُس پر ترس آ گیااور مجھے اُمید تھی کہ یہ کسی کو نہ بتائے گا اور مجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کا خوف ہوا کہ کہیں یہ ہلاک نہ ہوجائے ۔”پھربادشاہ نے اس کے دونوں ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ چنانچہ، اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔وہ اپنے بچوں کو لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گئی یہاں تک کہ ایک بہتی نہر کے کنارے پہنچی۔ اس نے اپنے ایک بیٹے کو پانی پلانے کا کہا۔جب بچہ پانی لینے کے لئے اُتراتَو ڈوب گیا۔اس نے دوسرے بیٹے کو کہا:”اے بیٹے! اپنے بھائی کو تھامو۔”وہ بھائی کو بچانے کے لئے نیچے اُترا لیکن وہ بھی ڈوب گیا۔اب وہ بیچاری تنہا رہ گئی۔
اچانک اس کے پاس ایک شخص آیااور کہنے لگا:”اے اللہ عزَّوَجَلَّ کی بندی !تجھے کیا ہوا؟میں تیری حالت بہت بُری دیکھ رہاہوں۔” اس نے جواب دیا:”اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے بندے! مجھے چھوڑ دے،کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے مجھے تجھ سے بے خبر کر دیاہے۔”اس نے اصرار کیا:” مجھے اپنا حال توبتائیے۔” تواس عورت نے سارا واقعہ بیان کردیااور یہ بھی بتایا کہ اس کے دونوں بچے ڈوب گئے ہیں۔یہ سن کراس شخص نے کہا: ”تم اپنے ہاتھو ں اور بچوں میں سے کس کی واپسی چاہتی ہو؟” عورت نے کہا: ”تُومیرے دونوں بچوں کو زندہ نکال دے۔” چنانچہ، اس نے دونوں لڑکوں کو زندہ نکال دیا، پھر اس کے ہاتھ بھی لوٹا دیئے اور کہنے لگا:” مجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کی طرف سے تیری طرف بھیجا گیاہے،اُس نے تجھ پر رحم کرتے ہوئے مجھے بھیجاہے۔ پس ان دو روٹیوں کے عوض تیرے ہا تھ لوٹا دیئے گئے ہیں اور اُس مسکین پر ترس کھانے اور مصیبت پر صبر کرنے کی وجہ سے تیرے دونوں بیٹے لوٹا دیئے گئے ہیں،اورتجھے یہ بھی بتا دوں کہ تیرے شوہر نے تجھے طلاق نہیں دی تھی، تُواس کے پاس لوٹ جا،وہ اپنے گھر میں ہی ہے اور اس کی ماں کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ جب وہ عورت اپنے شوہر کے گھر گئی تَو تمام معاملہ ایسا ہی پایا جیسا کہا گیا تھا۔”
(عیون الحکایات، الحکایۃ العشرون بعد المائۃ، المعروف لا یضیع، ص۱۳۸ملخصًا)
اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
(4) وَ مِنۡ قَوْمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوۡنَ ﴿159﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اورموسیٰ کی قوم سے ایک گروہ ہے کہ حق کی راہ بتاتا اور اسی سے انصاف کرتا۔(پ9،الاعراف:159)