اسلامواقعات

حضور ﷺ خُلْقِ عظیم کا بیان

حضور ﷺ خُلْقِ عظیم کا بیان

اَفرادِ انسان میں سے انبیاءے کرام صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو مکارمِ اخلاق (1 ) کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان کا کام تبلیغ وتزکیہ (2) ہے۔اسی واسطے بعنایت الٰہی انہیں اوَّلِ خَلقَت وفطرت ( 3) ہی میں محاسن اخلاق حاصل تھے جن کا ظہور حسب موقع ان کی عمر شریف میں ہو تا رہامگر دیگر فضائل کی طرح اس کمال میں بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے ممتاز ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالٰی نے خُلق عظیم کو آپ کی ذات شریف میں حَصَر فرمایا ہے:
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) (سورۂ قلم)
اور تحقیق تو بڑے خُلق پر پیدا ہو ا ہے۔ (4 )
اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرماتے ہیں : بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَ خْلَاقِ ۔ (مؤطاامام مالک ) میں محاسن اَخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔ ( 5)
اَنبیا ئے سابقین عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے ہر ایک حسن اَخلاق کی ایک نوع سے مختص تھے مگر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات اَقدس حسن اَخلاق کے تمام انواع کی جامع تھی۔ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو تمام انبیاءے سابقین عَلَیْہِمُ الصَّلوات کی سیر ت کے اتباع کا حکم دیا:
فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ- (انعام، ع ۱۰)
پس تو ان کی رَوِش کی پیروی کر۔ (6 )
لہٰذا خصال وکمال وصفات شرف وفضائل جوان میں متفرق طور پر پا ئے جاتے تھے وہ تمام آپ کی ذات شریف میں جمع
تھے۔ چنانچہ حِلم وسخاوت ِابر اہیم، صدقِ وعدہ اسمٰعیل، شکر داؤدو سلیمان، صبر ایوب، معجزاتِ قاہر ہ موسیٰ، مناجاتِ زَکریا، تَضَرُّعِ یحییٰ، دمِ عیسٰی وغیرہ سب آپ میں موجود تھے۔ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلَواتُ وَالتَّسْلِیْمَات۔ ؎
آنچہ بنازند زاں دلبراں
جملہ ترا ہست وزیادت براں
حضرت سعد بن ہشام بن عامر نے جب حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خُلق کی بابت دریافت کیا تو حضرت صدیقہ نے جواب میں فرمایا: کیا تو قرآن نہیں پڑ ھتا؟ حضرت سعد نے جواب دیا کہ ہاں ۔ یہ سن کر حضرت صدیقہ نے فرمایاکہ ’’ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاخُلق ( 1) قرآن تھا۔ (2 ) کتب ِ سابقہ اِلہامیہ ( 3) میں جو آداب و فضائل و اَوصافِ حمیدہ مذکور تھے قرآن مجید ان سب کا جامع ہے۔ ارشادِ صدیقہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس قدر محامد اخلاق مذکور ہیں وہ سب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات اقدس میں پا ئے جاتے تھے۔ غرض دیگر کمالا ت کی طرح محاسن اخلاق میں بھی آپ کا مرتبہ دیگر انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ التَّسْلِیْمَات سے بڑھا ہوا ہے۔ صاحب قصیدہ بُردہ شریف فرماتے ہیں ۔ ؎
فَاقَ النَّبِیّٖنَ فِیْ خَلْقٍ وَّ فِیْ خُلُقٍ وَ لَمْ یُدَانُوْہُ فِیْ عِلْمٍ وَّ لَا کَرَمٖ ( 4)
لے گیا فوق انبیاء پر خَلق میں اور خُلق میں
، کس میں تھااس کا عِلم اور کس میں اس کا سا کرَم۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خاتم النبیین ہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کوئی اور نیانبی نہ ہو گا۔ اس لئے آپ کے اَخلاق وعا دات بطریق اِسنا د نہایت صحت کے ساتھ محفوظ ہیں تا کہ قیامت تک ہر زمانے میں ان کا اِقتداء کیا جائے اور ان ہی کو دستور العمل بنا یا جائے۔ اس مختصر میں تفصیل کی گنجائش نہیں اس لئے ذیل میں چند جزئیات پیش کی جاتی ہیں ۔ واللّٰہ الموفق والمعین۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!