حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ان کا اصلی نام عبداللہ اوران کا اصلی وطن ”حضر موت”ہے ۔ یہ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے ۔ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کو بحرین کا حاکم بنا دیا۔ ۱۴ھ میں بحالت جہادآپ کی وفات ہوئی ۔ (2)(اکمال ،ص۶۰۷)
کرامات
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بحرین کے مرتدین سے جہاد کرنے کے لیے حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجاتوہم لوگوں نے ان کی تین کرامتیں ایسی دیکھی ہیں کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان تین میں سے کون سی زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے۔
پیادہ اور سوار دریا کے پار
”دارین ”پر حملہ کرنے کے لیے کشتیوں اورجہازوں کی ضرورت تھی مگر کشتیوں کے انتظام میں بہت لمبی مدت درکارتھی اس لئے حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لشکر کو للکار کرپکاراکہ اے مجاہدین اسلام!تم لوگ خشک میدانوں میں تو خداوند قدوس کی امدادونصرت کا نظارہ بارباردیکھ چکے ہو۔ اب اگرسمندرمیں بھی اس کی تائید غیبی کا جلوہ دیکھناہو توتم سب لوگ سمندرمیں داخل ہوجاؤ ۔ آپ نے یہ کہا اور مع اپنے لشکر کے یہ دعا پڑھتے ہوئے سمندر میں داخل ہوگئے ۔ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَاکَرِیْمُ یَاحَلِیْمُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَاحَیُّ یَامُحْیَ الْمَوْتٰی یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ
کوئی اونٹ پر سوار تھا ، کوئی گھوڑے پر ، کوئی گدھے پر سوارتھا، کوئی خچر پر اور بہت سے پیدل چل رہے تھے مگر سمندر میں قدم رکھتے ہی سمندر کا پانی خشک ہوکر اس قدر رہ گیا کہ جانوروں کے صرف پاؤں تر ہوئے تھے ۔ پورااسلامی لشکر اس طرح آرام وراحت کے ساتھ سمندر میں چل رہا تھا گویا بھیگے ہوئے ریت پر چل رہاہے جس پر چلنا نہایت ہی سہل اورآسان ہوتاہے۔ چنانچہ اس کرامت کو دیکھ کر ایک مسلمان
مجاہد نے جن کا نام عفیف بن المنذر تھا برجستہ اپنے ان دو شعروں میں اس کی ایسی منظر کشی کی ہے جو بلاشبہ وجد آفریں ہے ؎
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ ذَلَّلَ بَحْرَہٗ
وَاَنْزَلَ بِالْکُفَّارِ اِحْدٰی الْجَلَائِلٖ
(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان مجاہدوں کے لیے اپنے سمندر کو فرمانبردار بنادیا اورکفار پر ایک بہت بڑی مصیبت نازل فرمادی ۔ )
دَعَوْنَا اِلٰی شَقِّ الْبِحَارِ فَجَاءَ نَا
بِاَعْجَبَ مِنْ فَلْقِ الْبِحَارِ الْاَوَائِلٖ
(ہم لوگوں نے سمندر کے پھٹ جانے کی دعامانگی تو خدا نے اس سے کہیں زیادہ عجیب واقعہ ہمارے لئے پیش فرمادیا جو در یا پھاڑ نے کے سلسلے میں پہلے لوگوں کے لیے ہوا تھا۔) (1)
(البدایہ والنہایہ ، ج۷،ص۳۲۹ودلائل النبوۃ،ج۳،ص۲۰۸)
چمکتی ریت سے پانی نمودار ہوگیا
دوسری کرامت یہ ہے کہ ہم لوگ چٹیل میدان میں جہاں پانی بالکل ہی نایاب تھا پیاس کی شدت سے بے تاب ہوگئے اوربہت سے مجاہدین کو تو اپنی ہلاکت کا یقین بھی ہوگیا ۔ اپنے لشکر کا یہ حال دیکھ کر حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھ کر دعا مانگی تو ایک دم ناگہاں لوگوں کو بالکل ہی قریب سوکھی ریت پر پانی چمکتا ہوا نظر آگیا۔
اورایک روایت میں یہ ہے کہ اچانک ایک بدلی نمودارہوئی اوراس قدر پانی
برساکہ جل تھل ہوگیا اورسارالشکر جانوروں سمیت پانی سے سیراب ہوگیا اورلشکر والوں نے اپنے تمام برتنوں کوبھی پانی سے بھرلیا ۔ (1) (طبری،ج۳،ص۲۵۷ودلائل النبوۃ،ج۳،ص۲۰۸)
لاش قبر سے غائب
تیسری کرامت یہ ہے کہ جب حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوا تو ہم لوگوں نے ان کو ریتلی زمین میں دفن کردیا۔ پھر ہم لوگوں کوخیال آیا کہ کوئی جنگلی جانور آسانی کے ساتھ ان کی لاش کو نکال کر کھاڈالے گا لہٰذا ان کوکسی آبادی کے قریب سخت زمین میں دفن کرنا چاہے ۔ چنانچہ ہم لوگوں نے فوراً ہی پلٹ کر ان کی قبرکو کھودا تو ان کی مقدس لاش قبر سے غائب ہوچکی تھی اورتلاش کے باوجود ہم لوگوں کو نہیں ملی۔ (2) (دلائل النبوۃ،ج۳،ص۲۰۸)