حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ امیر المؤمنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون ہے ۔ یہ بچپن ہی میں اپنے والد ماجد کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ یہ علم وفضل کے ساتھ بہت ہی عبادت گزار اورمتقی وپرہیز گار تھے ۔ میمون بن مہران تا بعی کافرمان ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے بڑھ کرکسی کومتقی وپرہیز گار نہیں دیکھا۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے امام ہیں۔ یہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی وفات اقدس کے بعد ساٹھ برس تک حج کے مجمعوں اوردوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اسلامی احکام کے بارے میں فتویٰ دیتے رہے۔مزاج میں بہت زیادہ سخاوت کا غلبہ تھا اور بہت زیادہ صدقہ وخیرات کی عادت تھی ۔ اپنی جو چیز پسند آجاتی تھی فوراً ہی اس کو راہ خدا عزوجل میں خیرات کردیتے تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں ایک ہزار غلاموں کو خریدخرید کر آزادفرمایا ۔ جنگ خندق اوراس کے بعد کی اسلامی لڑائیوں میں برابر کفار سے جنگ کرتے رہے ۔ ہاں البتہ حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں آپ ان لڑائیوں میں غیر جانبدار رہے۔
عبدالملک بن مروان کی حکومت کے دوران حجاج بن یوسف ثقفی امیر الحج
بن کر آیا۔ آپ نے خطبہ کے درمیان اس کو ٹوک دیا۔حجاج ظالم نے جل بھن کر اپنے ایک سپاہی کو حکم دے دیا کہ وہ زہر میں بجھایا ہوا نیزہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں ماردے چنانچہ اس مردود نے آپ کے پاؤں میں نیزہ مار دیا۔ زہر کے اثر سے آپ کا پاؤں بہت زیادہ پھول گیا اورآپ علیل ہوکر صاحب فراش ہوگئے۔ مکار حجاج بن یوسف آپ کی عیادت کے لیے آیا اورکہنے لگا کہ حضرت !کاش! مجھے معلوم ہوجاتا کہ کس نے آپ کو نیزہ ماراہے ؟آپ نے فرمایا :اس کو جان کر پھر تم کیا کروگے؟ حجاج نے کہا کہ اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو خدا مجھے مارڈالے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم کبھی ہرگز ہرگز اس کو قتل نہیں کروگے اس نے تو تمہارے حکم ہی سے ایسا کیا ہے۔ یہ سن کر حجاج بن یوسف کہنے لگا کہ نہیں نہیں ، اے ابو عبدالرحمن! آپ ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کریں اورجلدی سے اٹھ کر چل دیا۔ اسی مرض میں ۷۳ ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین ماہ بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چوراسی یا چھیاسی برس کی عمر پاکر وفات پاگئے اورمکہ معظمہ میں مقام ”محصب” یا مقام ”ذی طویٰ”میں مدفون ہوئے ۔ (1)
(اسدالغابہ، ج۳،ص۲۲۹،اکمال ،ص۶۰۵ وتذکرۃ الحفاظ،ج۱،ص۳۵)