حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ بہت ہی جانباز اوربہادر صحابی ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام حسنہ تھا اوران کے والد کا نام عبداللہ بن مطاع تھا۔ ان کے بعد انکی والدہ حسنہ نے ایک انصاری سے جن کا نام سفیان بن معمرتھا نکاح کرلیا اوردو بچے بھی ان سے تولد ہوئے جن کا نام جنادہ اور جابر تھا ۔ حضرت شرحبیل اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ ابتدائے اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے اورہجرت کر کے حبشہ بھی گئے تھے اورجب حبشہ سے مدینہ آئے تو بنی زریق میں رہنے لگے۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں ان کے دونوں بھائیوں کا انتقال ہوگیا تو حضرت شرحبیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنی زہرہ کے قبیلہ میں رہنے لگے اور فاروقی دورحکومت میں کئی ایک جہادوں میں امیر لشکر کی حیثیت سے افواج اسلامیہ کے کسی ایک دستہ کی کمان کرتے رہے ۔ ۱۸ ھ کے طاعون عمواس میں سرسٹھ برس کی عمر پاکر وصال فرما گئے ۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ اورحضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں ایک ہی دن طاعون میں مبتلا ہوئے ۔ (2) (اسد الغابہ،ج۲،ص۳۹۱)
کرامت
قلعہ زمین میں دھنس گیا
اسلامی لشکر شہر اسکندریہ پر حملہ آور تھا ۔ کفار کی فوج ایک بہت ہی مضبوط اور
ناقابل تسخیر قلعہ میں محفوظ تھی اورلشکر اسلام قلعہ کے سامنے کھلے میدان میں خیمہ زن تھا۔ بہت دنوں تک جنگ ہوتی رہی مگر کفار قلعہ کی و جہ سے مغلوب نہیں ہوئے تھے ۔ ایک دن امیر لشکر حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کافروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے لشکر کفار کے سپہ سالارو!سن لو! ہماری فوج اسلام میں اس وقت ایسے ایسے اللہ والے موجود ہیں کہ اگر وہ اس قلعہ کی دیواروں کو حکم دے دیں کہ تم فوراً ہی زمین میں دھنس جاؤ تو فوراً ہی یہ قلعہ زمین میں دھنس جائے گا۔یہ کہا اورجوش میں آکر آپ نے اپنا ہاتھ قلعہ کی جانب بڑھا یا اوربلند آواز سے نعرہ تکبیر لگایا تو پورا قلعہ دم زدن میں زمین کے اندر دھنس گیا اورکفار کا لشکر جو قلعہ کے اندر تھا آن کی آن میں کھلے میدان میں کھڑا رہ گیا ۔ یہ منظر دیکھ کر بادشاہ اسکندریہ کا دل ودماغ زیر وزبر ہوگیا اوروہ مارے ڈر کے شہر چھوڑ کر اپنی فوجوں کے ساتھ بھاگ نکلا اور پورا شہر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ (تاریخ واقدی وسیرۃ الصالحین،ص۲۲)
تبصرہ
سبحان اللہ !اولیاء اللہ کی روحانی طاقتوں کا کیا کہنا، سچ ہے ؎
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں