اسلامواقعات

حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا ہیں ۔ یہ بہت ہی بہادر اور جاں باز صحابی ہیں ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے چچا حضرت انس بن نضررضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد کے دن اکیلے ہی کفار سے لڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہی چلے گئے جب آپ نے دیکھا کہ کچھ مسلمان سست پڑگئے ہیں اور آگے نہیں بڑھ رہے تو آپ نے بلند آواز سے للکار کر فرمایا: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ الْجَنَّۃِ دُوْنَ اُحُدٍ وَّاِنَّھَا لَرِیْحُ الْجَنَّۃِ (یعنی میں اس ذات کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں احدپہاڑکے پاس جنت کی خوشبو پارہا ہوں اور یقینا بلاشبہ یہ جنت ہی کی خوشبوہے۔)آپ نے یہ فرمایا اوراکیلے ہی کفار کے نرغہ میں لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہوکر گرپڑے اورشہادت کے شرف سے سرفراز ہوئے۔
ان کے بدن پر تیروں ، تلواروں اورنیزوں کے اسی سے زیادہ زخم گنے گئے تھے اورکفار نے ان کی آنکھوں کو پھوڑ کر اورناک ، کان، ہونٹ کو کاٹ کر ان کی صورت اس قدر بگاڑدی تھی کہ کوئی شخص ان کی لاش کو پہچان نہ سکا مگر جب ان کی بہن حضرت رُبیّع رضی اللہ تعالیٰ عنہاآئیں توانہوں نے ان کی انگلیوں کے پوروں کو دیکھ کر پہچانا کہ یہ میرے بھائی انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش ہے ۔
حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اس کا انہیں شدید رنج وقلق تھاکہ افسوس !میں اسلام کے پہلے غزوہ میں غیر حاضر رہا۔ پھر وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ اگرآئندہ کبھی اللہ تعالیٰ نے یہ دن دکھایا کہ کفار سے جنگ کا موقع ملا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں جنگ کیا کرتاہوں اورکیا کر دکھاتاہوں ۔

چنانچہ ۳ھ؁ میں جب جنگ احد ہوئی تو انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر کے دکھادیا کہ اپنے بدن پر اسی زخمو ں سے زائد زخم کھا کر شہید ہوگئے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ ان کی شان میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ۔

مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیۡہِ ۚ (1)

مؤمنین میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کردیا۔ (2)

(اکمال ،ص۵۸۵،اسدالغابہ ،ج۱،ص۱۲۲، حجۃ اللہ ج۲،ص۸۷۱بخاری شریف)

کرامت

ان کی کرامتوں میں سے یہ ایک کرامت بہت زیادہ مشہور اورمستند ہے ۔

خدا نے قسم پوری فرمادی

حضرت انس بن النضررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جھگڑا وتکرار کرتے ہوئے ایک انصاری کی لڑکی کے دو اگلے دانت توڑ ڈالے ۔ لڑکی والوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے قرآن مجید کے حکم کے مطابق یہ فیصلہ فرمادیاکہ ربیع بنت النضرکے دانت قصاص میں توڑ دیئے جائیں۔

جب حضرت انس ابن النضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا تو وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور یہ کہا:یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدا تعالیٰ کی قسم! میری بہن کادانت نہیں توڑا جائے گا ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایاکہ اے انس بن النضر! تم کیا کہہ رہے ہو؟قصاص تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے ۔ یہ گفتگوابھی ہورہی تھی کہ لڑکی والے دربارنبوت میں حاضر ہوئے اورکہنے لگے کہ یا رسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم قصاص میں ربیع کا دانت توڑنے کے بدلے میں ہم لوگوں کو دیت (مالی معاوضہ) دلادیاجائے ۔ اس طرح انس بن النضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قسم پوری ہوگئی اور ان کی بہن حضرت ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا دانت توڑے جانے سے بچ گیا۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس موقع پر یہ ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کوپوری فرمادیتاہے ۔ (1)
(بخاری شریف ، ج۲،ص۶۶۴،باب قولہ والجروح قصاص)

تبصرہ

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ارشاد گرامی کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کچھ ایسے مقبولان بارگاہ الٰہی ہیں کہ اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں جو بظاہر ہونے والی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کے یہ بندے اگر قسم کھالیں کہ ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ ان مقدس بندوں کی قسموں کو ٹوٹنے نہیں دیتابلکہ اس نہ ہونے والی چیز کو موجود فرمادیتاہے تاکہ ان مقدس بندوں کی قسم پوری ہوجائے ۔

دیکھ لیجئے کہ حضرت ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے دربارنبوت سے قصاص کا فیصلہ ہو چکا تھا اورمدعی نے قصاص ہی کا مطالبہ کیا تھا لیکن جب حضر ت انس بن النضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قسم کھا گئے کہ خدا کی قسم !میری بہن کا دانت نہیں توڑا جائے گاتو خدا تعالیٰ نے ایساہی سبب پیدا کردیا۔تو ظاہر ہے کہ اگر فیصلہ کے مطابق دانت توڑدیا جاتاتو ان کی قسم ٹوٹ جاتی مگر خدا تعالیٰ کا فضل وکرم ہوگیا کہ مدعی کا دل بدل گیا اوراس نے بجائے قصاص کے دیت کا مطالبہ کردیا اس طرح دانت ٹوٹنے سے بچ گیا اور ان کی قسم پوری ہوگئی۔
اس کی بہت سی مثالیں اورثبوت حاصل ہوں گے کہ اللہ والے جس بات کی قسم کھاگئے اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو موجود فرمادیا اگرچہ وہ چیز ایسی تھی کہ بظاہر اس کے ہونے کی کوئی بھی صورت نہیں تھی ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!