حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند اکبر ہیں۔ ان کی کنیت ابو محمد اورلقب ”سبط پیمبر”و”ریحا نۃ الرسول”ہے ۔ ۱۵رمضان ۳ھمیں آپ کی ولادت ہوئی ۔ آپ جوانان اہل جنت کے سردار ہیں اور آپ کے فضائل ومناقب میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔ آپ نے تین مرتبہ اپنا آدھا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خیرات کردیا۔
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد کوفہ میں چالیس ہزارمسلمانوں نے آپ کے دست مبارک پر موت کی بیعت کر کے آپ کوامیر المؤمنین منتخب کیا لیکن آپ نے تقریباً چھ ماہ کے بعد جمادی الاولیٰ ۴۱ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت فرما کر خلافت ان کے سپرد فرمادی اورخود عبادت وریاضت میں مشغول ہوگئے ۔
اس طرح حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جو غیب کی خبر دی تھی وہ ظاہر ہوگئی کہ میرایہ بیٹا”سید”ہے اوراس کی و جہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرادے گا ۔ چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرخلافت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپرد نہ فرمادیتے توظاہر ہے کہ حضرت امام حسن اورحضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی دونوں فوجوں کے درمیان بڑی ہی خونریزجنگ ہوتی جس سے ہزاروں عورتیں بیوہ اورلاکھوں بچے یتیم ہوجاتے اور سلطنت اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا مگر حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خیر پسند طبیعت اورنیک مزاجی کی بدولت مسلمانوں میں خونریزی
کی نوبت نہیں آئی ۔ ۵ربیع الاول ۴۹ھ میں آ پ بمقام مدینہ منورہ زہر خورانی کے باعث شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ (1)(اکمال ،ص۵۶۰واسدالغابہ، ج۲،ص۹۰تا۹۲)
کرامات
خشک درخت پر تازہ کھجوریں
آپ کی بہت سی کرامتوں میں سے یہ ایک کرامت بہت زیادہ مشہور ہے کہ ایک سفر میں آپ کا گزر کھجوروں کے ایک ایسے باغ میں ہوا جس کے تمام درخت خشک ہوگئے تھے ۔ حضرت زبیربن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فرزند بھی اس سفر میں آپ کے ہمرکاب تھے آپ نے اسی باغ میں پڑاؤ کیا اورخدام نے آ پ کا بستر ایک سوکھے درخت کی جڑ میں بچھا دیا اورحضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند نے عرض کیا کہ اے ابن رسول اللہ! کاش! اس سوکھے درخت پر تازہ کھجوریں ہوتیں تو ہم لوگ سیر ہوکرکھالیتے۔ یہ سن کر حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چپکے سے کوئی دعا پڑھی اور بالکل ہی اچانک منٹوں میں وہ سوکھا درخت بالکل سرسبزوشاداب ہوگیا اور اس میں تازہ پکی ہوئی کھجوریں لگ گئیں ۔ یہ منظر دیکھ کر ایک شتربان کہنے لگا کہ خدا کی قسم !یہ تو جادو کا کرشمہ ہے ۔ یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند نے اس کو بہت زور سے ڈانٹا اورفرمایا کہ توبہ کر ، یہ جادو نہیں ہے بلکہ یہ شہزادۂ رسول کی دعائے مقبول کی کرامت ہے ۔ پھر لوگوں نے کھجوروں کو درخت سے توڑا اورسب ہمراہیوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا۔ (2)
(روضۃ الشہداء ، باب ۶، ص۱۰۹)
فرزند پیداہونے کی بشارت
آپ پیدل حج کے لیے جارہے تھے درمیان راہ میں ایک منزل پر قیام فرمایا وہاں آپ کا ایک عقیدت مند حاضر خدمت ہوااورعرض کیا کہ حضور میں آپ کا غلام ہوں ۔ میری بیوی دردزہ میں مبتلاہے آپ دعافرمائیں کہ تندرست لڑکا پیدا ہو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ تم اپنے گھر جاؤ تمہیں جیسے فرزند کی تمنا ہے ویسا ہی فرزند تم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمادیاہے او رتمہارا یہ لڑکا ہمارا عقیدت مند اور جاں نثار ہوگا ۔ وہ شخص جب اپنے مکان پر پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشی سے باغ باغ ہوگیا کہ واقعی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسے فرزند کی بشارت دی تھی ویسا ہی لڑکا اس کے ہاں پیدا ہوا۔ (1)
(شواہد النبوۃ،ص۱۷۲)
تبصرہ
خشک درخت پر تازہ کھجوروں کا دفعتاً لگ جانا اور عقیدت مند کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے یا لڑکا؟اورپھر اس بات کو جان لینا کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر ہمارا عقیدت مند وجاں نثار ہوگا ۔ غور فرمائيے کہ یہ کتنی عظیم اورکس قدر شاندارکرامتیں ہیں ۔ سبحان اللہ !کیوں نہ ہوکہ آپ ابن رسول اورنورِدیدۂ حیدروبتول ہیں اورخداوند کی بارگاہ میں بے انتہامقبول ہیں ۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )