حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یمن کے قبیلہ دوس سے ان کا خاندانی تعلق ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام”عبد شمس” تھا مگرجب یہ ۷ھ میں جنگ خیبر کے بعد دامن اسلام میں آگئے تو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کا نام عبد اللہ یا عبدالرحمن رکھ دیا۔ ایک دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی آستین میں ایک بلی دیکھی تو آپ نے ان کو یَا اَبَاھُرَیْرَۃَ! (اے بلی کے باپ!)کہہ کر پکارا۔ اسی دن سے ان کا یہ لقب اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ ان کا اصلی نام ہی بھول گئے ۔ یہ بہت ہی عبادت گزار، انتہائی متقی اور پرہیز گار صحابی ہیں۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ یہ روزانہ ایک ہزار رکعت نماز نفل پڑھا کرتے تھے ۔آٹھ سو صحابہ اور تابعین آپ کے شاگرد ہیں ۔ آپ نے پانچ ہزار تین سو چوہتر حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے چار سو چھیالیس بخاری شریف میں ہیں۔ ۵۹ھ میں اٹھترسال کی عمر پاکر مدینہ منورہ میں وفات پائی اورجنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔ (2)(اکمال ، ص۶۲۲وقسطلانی ،ج۱،ص۲۱۲وغیرہ)
کرامت
کرامت والی تھیلی
ان کو حضوراکرم علیہ الصلوۃ والسلام نے چند چھوہارے عطافرمائے اورحکم دیا کہ ”ان کو اپنی تھیلی میں رکھ لواور جب جی چاہے تم اس میں سے ہاتھ ڈال کر نکالو اور خود کھاؤ ، دوسروں کو کھلاؤ مگر خبردار! اس تھیلی کو کبھی خالی کر کے مت جھاڑنا یہ چھوہارے کبھی ختم نہ ہوں گے ۔”
سبحان اللہ !یہ تھیلی ایسی بابرکت ہوگئی کہ تیس برس تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تھیلی میں سے چھوہارے نکال نکال کر کھاتے رہے اور لوگوں کو کھلاتے رہے بلکہ کئی من اس میں سے خیرات بھی کرچکے مگر چھوہارے ختم نہیں ہوئے یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دن ہنگاموں کی بھیڑ بھاڑ میں وہ تھیلی کمر سے کٹ کر کہیں گر پڑی جس کا عمر بھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے انتہا صدمہ اور رنج وملال رہا۔ راستوں میں روتے ہوئے اورنہایت رقت انگیز اوردرد بھرے لہجہ میں یہ شعر پڑھتے ہوئے گھومتے پھرتے تھے ؎
لِلنَّاسِ ھَمٌّ وَلِیْ فِی الْیَوْمِ ھَمَّانٖ
فَقْدُ الْجِرَابِ وَقَتْلُ الشَّیْخِ عُثْمَانٖ
(یعنی سب کو آج ایک ہی تو غم ہے مگر مجھے دو غم ہیں۔ ایک غم ہے تھیلی کے گم ہونے کا دوسرا غم حضرت امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ۔)(1) (الکلام المبین)