فخر اہلسنت، پیر طریقت حضرتِ علامہ نور بخش توکلی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت باسعادت ضلع لدھیانہ (مشرقی پنجاب، ہند) کے موضع چک قاضیاں میں ۱۳۰۵ ھ میں ہوئی۔آپ کا تعلق ایک دینی گھرانے سے تھا لہٰذا بچپن ہی سے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہ الْمُبِیْنکی صحبت و قربت نصیب ہوئی ۔
تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم مقامی مدارس سے حاصل کی ۔ بچپن ہی سے ذہانت اور خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر اپنے ساتھیوں میں
ممتازومافوق رہے۔ایم۔ اے۔ عربی کا امتحان ہند کی مشہور درس گاہ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے امتیازی حیثیت کے ساتھ پاس کیا ۔ آپ کو دینی علوم سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا اور یہ عالم تھا کہ میونسپل بورڈ کالج میں پروفیسر ہونے کے باوجود معروف عالم دین مولانا غلام رسول قاسمی کشمیری امرتسری کے پاس حاضر ہوتے اور طلباء کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر تفسیر، حدیث اور فقہ کا درس لیتے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تصانیف آپ کے کثیر مطالعے اور وسعت نظری کی نشاندھی کرتی ہیں ۔
بیعت و خلافت
جن دنوں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ اَنبالہ کے ایک اسکول میں بطور ِہیڈ ماسڑتعینات تھے ان دنوں اَنبالہ میں روحانی پیشوا حضرت خواجہ توکل شاہ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ ان کے دست اَقدس پر سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ ’’ توکلی ‘‘ لکھا کرتے تھے۔ حضرت خواجہ توکل شاہ رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے وصال فرمانے کے بعد آپ نے بلند پایہ عالم دین حضرت مشتاق احمد انبیٹھوی ثمہ لدھیانوی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سلسلۂ صابریہ میں اِکتساب فیض کیا۔حضرت نے بھی آپ کو خرقۂ خلافت سے نوازا۔
دینی و ملی خدمات
آپ اَنبالہ کے اِسکول میں بطور ِہیڈ ماسڑ اورمیونسپل بورڈ کالج امرتسر میں بطورِ پروفیسر خدمات سرانجام دیتے رہے۔بعد از اں مرکز الاولیاء لاہور تشریف لائے اور ایک عرصہ تک دار العلوم نعمانیہ لاہور کے ناظم تعلیم اور انجمن نعمانیہ کے ماہوار رسالہ کے ایڈیٹر رہے۔انہی ایام میں پنجاب کی مشہور درس گاہ گورنمنٹ کالج مرکز الاولیاء لاہور میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔اس عرصہ میں آپ نے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر زور دیا، ان میں اَسلافِ کرام سے تعلق قائم رکھنے کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا اور تقریر و تحریر کے ذریعے مسلک اہلسنت کی گرانقدر خدمات انجام دیں ۔
گورنمنٹ کالج سے ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے چک قاضیاں ضلع لدھیانہ (مشرقی پنجاب، ہند) میں ایک مدرسہ قائم فرمایا اور اپنے پیر و مرشد کی نسبت سے اس کا نام ’’ مَد رسہ اِسلامیہ توکلیہ ‘‘ رکھا ۔کثیر طلبہ اس مدرسے سے
مستفید ہوئے۔آپ کا ایک شاندار و تاریخی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے گورنمنٹ کے گزٹ میں 12 ربیع النور شریف کے لیے عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نام منظور کر وایااور اس دن کی عام تعطیل پاس کروائی۔بِحَمْدِہٖ تَعَالٰی آج یہی نام بچے بچے کی زبان پر ہے اوریہ دن بڑے احترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔
آپ ایک بلند پایہ مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اَدِیب بھی تھے ، تصنیف و تالیف کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو بخوبی سمجھتے تھے، آپ کو وسیع معلومات تھیں ، قوتِ استدلال اور عام فہم اندازِ تحریر کا مَلکہ بھی حاصل تھا ۔انجمن نعمانیہ کے ماہوار رسالہ میں اکثر و بیشتر آپ کے پر مغز مضامین اور فتاویٰ شائع ہوتے تھے۔آپ کی جملہ تصانیف سے نہ صرف یہ کہ سید عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے والہانہ محبت کا پتا چلتا ہے بلکہ پڑھنے والے کا ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔
تصانیف
آپ کی کچھ تصانیف یہ ہیں :
{1} سیرت ِ رسولِ عربیصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
{2} اعجاز القرآن
{3} عقائد اہل سنت
{4} عید میلاد النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
{5} معجزات النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
{6} غزوات النبیصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
{7} حلیۃ النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
{8} سیرتِ غوثِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
{9} تذکرہ مشائخ نقشبند
{10} شرح قصیدہ بردہ عربی ، اردو
{11} تحفۂ شیعہ
{12} کتاب البرزخ
{13} مقدمہ تفسیر القرآن
{14} تفسیر سورۂ فاتحہ و سورۂ بقرہ
{15} رسالہ نور
{16} حاشیۃ التحفۃ الابراہیمیۃ فی اعفاء اللحیۃ
{17} مولود برزنجی کی اردو شرح
{18} امام بخاری شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
{19} ترجمہ تحقیق المرام فی منع القراء ۃ خلف الامام
{20} الاقوال ا لصحیحۃ فی جواب الجرح علی ابی حنیفۃ
و فات
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے مکان کی سیڑھی سے گرنے کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہے اور ۱۳جمادی الاولیٰ ۱۳۶۷ھ/۲۴ مارچ ۱۹۴۸ء کو وصال فرماگئے۔ سردار آباد (فیصل آباد ) کے جنرل بس اسٹینڈ کے قریب حضرت نور شاہ ولی قُدِّسَ سَرُّہٗ کے مزار کے پاس آپ کو دفن کیا گیا۔