حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت
حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت
اب وہ وقت آیا کہ جاں نثار ایک ایک کرکے رخصت ہوچکے اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جانیں قربان کرگئے،اب تنہا حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اورایک فرزند حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ بھی بیمارو ضعیف۔ باوجود اس ضعف و ناطاقتی کے خیمہ سے باہر آئے اورحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہا دیکھ کر مصافِ کا رزار جانے اور اپنی جان نثار کرنے کیلئے نیزہ دست مبارک میں لیا لیکن بیماری، سفر کی کوفت، بھوک پیاس، متواتر فاقوں اور پانی کی تکلیفوں سے ضعف اس درجہ ترقی کرگیا تھا کہ کھڑے ہونے سے بدن مبارک لرزتا تھاباوجود اس کے ہمت مردانہ کایہ حال تھا کہ میدان کا عزم کردیا۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:جانِ پدر! لوٹ آؤ ، میدان جانے کا قصد نہ کرو،میں کنبہ قبیلہ، عزیز و اقارب ، خدا م، موالی جو ہمراہ تھے راہِ حق میں نثار کرچکا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ِکہ ان مصائب کو اپنے جد کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں صبرو تحمل کے ساتھ برداشت کیا اب اپنا ناچیز ہدیۂ سَرراہ ِخداعزوجل میں نذر کرنے کیلئے حاضر ہے۔ تمہاری ذات کے ساتھ بہت امیدیں وابستہ ہیں، بے کسانِ اہلِ بیت علیہم الرضوان کو وطن تک کون پہنچائے گا، بیبیوں کی نگہداشت کون کریگا، جَدّو پِدَر کی جو امانتیں میرے پاس ہیں کس کو سپردکی جائیں گی، قرآن کریم کی محافظت اور حقائق عرفانیہ کی تبلیغ کا فرض کس کے سر پر رکھاجائے گا، میری نسل کس سے چلی گی، حسینی سیدوں علیہم الرضوان کا سلسلہ کس سے جاری ہوگا، یہ سب تو قعات تمہاری ذات سے وابستہ ہیں۔ دودمانِ رسالت و نبوت کے آخری چراغ تم ہی ہو، تمہاری ہی طلعت سے دنیا مُسْتَنِیْر ہوگی۔مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے دلدادگانِ حسن تمہارے ہی روئے تاباں سے حبیب حق کے انوار و
تجلیات کی زیارت کریں گے۔ اے نورِ نظر! لختِ جگر ! یہ تمام کام تمہارے ذمہ کئے جاتے ہیں، میرے بعد تم ہی میرے جانشین ہوگے، تمھیں میدان جانے کی اجازت نہیں ہے۔
حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میرے بھائی تو جاں نثاری کی سعادت پاچکے اورحضور کے سامنے ہی ساقی کوثر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے آغوشِ رحمت و کرم میں پہنچے، میں تڑپ رہاہوں۔ مگر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ پذیرانہ فرمایا اور امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان تمام ذمہ داریوں کا حامل کیا اورخود جنگ کے لئے تیار ہوئے، قبائے مصری پہنی اور عمامۂ رسولِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سر پر باندھا، سید الشہدا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپر پشت پر رکھی،حضرت حیدر ِکَرَّار کی ذوالفقارِ آبدار حمائل کی۔ اہلِ خیمہ نے اس منظر کو کس آنکھوں سے دیکھاہوگا، امام میدان جانے کیلئے گھوڑے پر سوار ہوئے۔ اس وقت اہل بیت کی بے کسی انتہا کو پہنچتی ہے اور اُن کا سردار اُن سے طویل عرصہ کیلئے جدا ہوتا ہے، ناز پروردوں کے سروں سے شفقت پدری کا سایہ اٹھنے والاہے، نونہالانِ اہل بیت علیہم الرضوان کے گِرد یتیمی منڈلائی پھررہی ہے، ازواج سے سہاگ رخصت ہورہاہے، دکھے ہوئے اور مجروح دل امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدائی سے کٹ رہے ہیں،بیکس قافلہ حسرت کی نگاہوں سے امام کے چہرۂ د ل افروز پر نظر کررہا ہے، سکینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ترسی ہوئی آنکھیں پدرِ بزرگوار کا آخری دیدار کررہی ہیں، آن دو آن میں یہ جلوے ہمیشہ کیلئے رخصت ہونے والے ہیں، اہل خیمہ کے چہروں سے رنگ اڑگئے ہیں، حسرت ویاس کی تصویریں ساکت کھڑی ہوئی ہیں، نہ کسی کے بدن میں جنبش ہے نہ کسی کی زبان میں تابِ حرکت نورانی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں اورخاندانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بے وطنی اور بے کسی میں اپنے سروں سے رحمت
و کرم کے سایۂ گُسْتَر کو رخصت کررہاہے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اہل بیت کو تلقین صبر فرمائی۔ رضائے الٰہی عزوجل پر صابر و شاکر رہنے کی ہدایت کی اور سب کو سپردِ خدا عزوجل کرکے میدان کی طرف رخ کیا، اب نہ قاسم ہیں نہ ابوبکر وعمرنہ عثمان وعون نہ جعفر و عباس علیہم الرضوان جوحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میدان جانے سے روکیں اوراپنی جانوں کو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہپر فداکریں۔ علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آرام کی نیند سوگئے جو حصولِ شہادت کی تمنا میں بے چین تھے۔ تنہا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور آپ ہی کو اعدا کے مقابل جاناہے۔
خیمہ سے چلے اور میدان میں پہنچے، حق و صداقت کا روشن آفتاب سرزمینِ شام میں طالِع ہوا، امیدِ زندگانی و تمنائے زیست کا گردو غبار اس کے جلوے کو چھپانہ سکا، حُبِّ دنیا و آسایشِ حیات کی رات کے سیاہ پردے آفتابِ حق کی تجلیوں سے چاک چاک ہو گئے، باطل کی تاریکی اس کی نورانی شعاعوں سے کافور ہوگئی، مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرزند راہِ حق میں گھر لٹاکر، کنبہ کٹا کرسر بکف موجود ہے۔ ہزار ہا سپہ گرانِ نبرد آزما کا لشکرِ گراں سامنے موجود ہے اور اس کی پیشانیٔ مُصَفّاپر شکن بھی نہیں، دشمن کی فوجیں پہاڑوں کی طرح گھیرے ہوئے ہیں اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظر میں پَرِکاہ کے برابر بھی ان کا وزن نہیں۔ آپ نے ایک رَجْز پڑھی جو آپ کے ذاتی و نسبی فضائل پرمشتمل تھی اور اس میں شامیوں کورسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ناخوشی و ناراضگی اور ظلم کے انجام سے ڈرایا گیاتھا۔
اس کے بعد آپ نے ایک خطبہ فرمایا اور اس میں حمدوصلوٰۃ کے بعد فرمایا:” اے قوم !خداعزوجل سے ڈرو، جو سب کا مالک ہے جان دینا، جان لینا سب اس کے قدرت
و اختیار میں ہے۔ اگر تم خداوند ِعالَم جل جلالہ پر یقین رکھتے اور میرے جدّ حضرت سیدانبیا محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہوتو ڈرو کہ قیامت کے دن میزانِ عدل قائم ہوگی، اعمال کاحساب کیاجائے گا، میرے والدین محشر میں اپنی آل کے بے گناہ خونوں کامطالبہ کریں گے۔ حضور سید انبیاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جن کی شفاعت گنہگاروں کی مغفرت کا ذریعہ ہے اور تمام مسلمان جن کی شفاعت کے امید وار ہیں وہ تم سے میرے اور میرے جاں نثاروں کے خونِ ناحق کا بدلہ چاہیں گے، تم میرے اہل و عیال، اعزہ واطفال ،اصحاب و موالی میں سے سَتَّر سے زیادہ کو شہید کرچکے اور اب میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہو، خبردار ہوجاؤ کہ عیشِ دنیا میں پائیداری و قیام نہیں، اگر سلطنت کی طمع میں میرے درپئے آزار ہو تو مجھے موقع دو کہ میں عرب چھوڑ کر دنیا کے کسی اور حصہ میں چلا جاؤں۔ اگر یہ کچھ منظورنہ ہو اور اپنی حرکات سے باز نہ آؤ تو ہم اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مرضی پر صابر و شاکر ہیں۔
اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَرَضِیْنَا بِقَضَاءِ اللہِ۔” (1)
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانِ گوہر فِشاں سے یہ کلمات سن کر کوفیوں میں سے بہت لوگ روپڑے، دل سب کے جانتے تھے کہ وہ برسرِ ظلم وجفاہیں اور حمایتِ باطل کے لئے انہوں نے دارین کی روسیاہی اختیار کی ہے اور یہ بھی سب کو یقین تھا کہ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق پر ہیں۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ایک ایک جنبش دشمنانِ حق کے لئے آخرت کی رسوائی و خواری کا مُوجِب ہے اس لئے بہت سے لوگوں پر اثر ہوا اور ظالمانِ بد باطن نے بھی ایک لمحہ کیلئے اس سے اثر لیا، ان کے بدنوں پر ایک پُھرَ ْیری سی آگئی اور ان کے دلوں پر ایک بجلی سی چمک گئی، لیکن شمر وغیرہ بد سیرت و پلید طبیعت
رذیل کچھ متأثر نہ ہوئے بلکہ یہ دیکھ کر کہ لشکریوں پر حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
رذیل کچھ متأثر نہ ہوئے بلکہ یہ دیکھ کر کہ لشکریوں پر حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کا کچھ اثر معلوم ہوتا ہے، کہنے لگے کہ آپ قصہ کو تاہ کیجئے اور ابن زیاد کے پاس چل کر یزید کی بیعت کرلیجئے تو کوئی آپ سے تعارض نہ کریگا ورنہ بجز جنگ کے کوئی چارہ نہیں ہے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انجام معلوم تھا لیکن یہ تقریر اِقامَتِ حُجَّت کیلئے فرمائی تھی کہ انھیں کوئی عذر باقی نہ رہے۔
سید انبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا نورِ نظر ، خاتو نِ جنت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا لختِ جگر بے کسی بھوک پیاس کی حالت میں آل واصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مُفارَقَت کا زخم دل پر لئے ہوئے گرم ریگستان میں بیس ہزار کے لشکر کے سامنے تشریف فرماہے، تمام حجتیں قطع کردی گئیں، اپنے فضائل اور اپنی بے گناہی سے اعداء کو ا چھی طرح آگاہ کردیا اور بار بار بتادیا ہے کہ میں بقصدِجنگ نہیں آیا اور اس وقت تک ارادۂ جنگ نہیں ہے اب بھی موقع دو تو واپس چلا جاؤں۔ مگر بیس ہزار کی تعداد امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے کس و تنہا دیکھ کر جوشِ بہادری دکھانا چاہتی ہے۔(1)
جب حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اطمینان فرمایاکہ سیاہ دلانِ بدباطن کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہا اور وہ کسی طرح خونِ ناحق و ظلمِ بے نہایت سے باز آنے والے نہیں تو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم جو ارادہ رکھتے ہو پورا کرو اور جس کو میرے مقابلہ کے لئے بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ مشہور بہادر اور یگانہ نبرد آزماجن کو سخت وقت کیلئے محفوظ رکھا گیا تھا میدان میں بھیجے گئے۔ ایک بے حیا ابنِ زہراکے مقابل تلوار چمکاتا آتا ہے، امامِ تشنہ کام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوآبِ تیغ دکھاتاہے، پیشوائے دین کے سامنے اپنی
بہادری کی ڈینگیں مارتاہے، غرورو قوت میں سرشار ہے، کثرتِ لشکر اور تنہائی امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نازاں ہے، آتے ہی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تلوار کھینچتا ہے، ابھی ہاتھ اٹھاہی تھا کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضرب فرمائی، سر کٹ کر دو ر جا پڑا اور غرورِ شجاعت خاک میں مل گیا۔ دوسرا بڑھااو ر چاہا کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں ہنر مندی کا اظہار کرکے سیاہ دلوں کی جماعت میں سرخروئی حاصل کرے ایک نعرہ مارا اور پکار کر کہنے لگاکہ بہادرانِ کوہ شکن شام و عراق میں میری بہادری کا غُلْغُلَہ ہے اور مصرو روم میں، میں شہرۂ آفاق ہوں، دنیا بھر کے بہادر میرا لوہا مانتے ہیں، آج تم میرے زورو قوت کو اور داؤ پیچ کو دیکھو۔ ابن سعد کے لشکری اس متکبرِ سرکش کی تَعَلِّیوں سے بہت خوش ہوئے اور سب دیکھنے لگے کہ کس طرح امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقابلہ کریگا۔ لشکریوں کو یقین تھا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھوک پیاس کی تکلیف حد سے گزر چکی ہے، صدموں نے ضعیف کردیاہے ایسے وقت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غالب آجاناکچھ مشکل نہیں ہے۔ جب سپاہِ شام کا گستاخ جفا جو، سرکَشانہ گھوڑا کوداتا سامنے آیا،حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :تو مجھے جانتا نہیں جو میرے مقابل اس دلیری سے آتاہے، ہوش میں ہو، اس طرح ایک ایک مقابل آیا تو تیغِ خون آشام سے سب کا کام تمام کردیا جائے گا، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے کس و کمزور دیکھ کر حوصلہ مندیوں کا اظہار کررہے ہو، نامردو! میری نظر میں تمہاری کوئی حقیقت نہیں۔
شامی جوان یہ سن کر اور طیش میں آیااور بجائے جواب کے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تلوار کا وار کیا، حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا وار بچا کر کمر پر تلوار ماری،معلوم ہوتا تھا کھیرا تھاکاٹ ڈالا۔ اہل شام کو اب یہ اطمینان تھا کہ حضرت رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے سوااب اور توکوئی باقی ہی نہ رہا، کہاں تک نہ تھکیں گے۔ پیاس کی حالت، دھوپ کی تپش مضمحل کرچکی ہے، بہادری کے جوہر دکھانے کا وقت ہے۔ جہاں تک ہو ایک ایک مقابل کیا جائے ،کوئی تو کامیاب ہوگا اس طرح نئے نئے دم بدم شیر صولت، پیل پیکر تیغ زن حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل آتے رہے مگر جو سامنے آیا ایک ہی ہاتھ میں اس کا قصہ تمام فرمایا۔ کسی کے سر پر تلوار ماری تو زین تک کاٹ ڈالی، کسی کے حمائلی ہاتھ مارا تو قلمی تراش دیا، خودو مِغْفَر کاٹ ڈالے، جوشن و آئینے قطع کردئیے، کسی کو نیزہ پر اٹھایا اور زمین پرپٹک دیا، کسی کے سینے میں نیزہ مارا اور پار نکال دیا۔
زمینِ کربلا میں بہادر انِ کوفہ کا کھیت بودیا، نامورانِ صف شِکَن کے خونوں سے کربلا کے تشنہ ریگستان کو سیراب فرمادیا،نعشوں کے انبار لگ گئے، بڑے بڑے فخرِ روزگار بہادر کام آگئے، لشکر اعداء میں شور برپا ہوگیا کہ جنگ کا یہ انداز رہا تو حیدر کا شیر کوفہ کے زن و اطفال کو بیوہ ویتیم بناکر چھوڑ ے گا اور اس کی تیغ بے پناہ سے کوئی بہادر جان بچا کرنہ لیجا سکے گا، موقع مت دو اور چاروں طرف سے گھیر کر یکبار گی حملہ کرو۔ فرومائیگان روباہ سیرت حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ سے عاجز آئے اور یہی صورت اختیار کی اور ماہِ چرخِ حقانیت پر جوروجفا کی تاریک گھٹا چھاگئی اور ہزاروں جوان دوڑ پڑے اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھیر لیا اور تلوار برسانی شروع کی اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری کی ستایش ہورہی تھی اور آپ خونخواروں کے اَنْبوہ میں اپنی تیغِ آبدار کے جوہر دکھارہے تھے۔ جس طرف گھوڑا بڑھادیا پَرّے کے پَرّے کاٹ ڈالے۔ دشمن ہیبت زدہ ہوگئے اور حیرت میں آگئے کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حملہ جانسِتان سے رہائی کی کوئی صورت نہیں۔ ہزاروں آدمیوں میں گھرے ہوئے ہیں اور
دشمنوں کا سر اس طرح اڑا رہے ہیں جس طرح بادِ خزاں کے جھونکے درختوں سے پتے گراتے ہیں۔ابن سعد اور اس کے مشیروں کو بہت تشویش ہوئی کہ اکیلے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل ہزاروں کی جماعتیں ہیچ ہیں۔کوفیوں کی عزت خاک میں مل گئی، تمام نامورانِ کوفہ کی جماعتیں ایک حجازی جوان کے ہاتھ سے جان نہ بچاسکیں۔ تاریخِ عالَم میں ہماری نامردی کا یہ واقعہ اہل کوفہ کو ہمیشہ رسوائے عالَم کرتارہے گا، کوئی تدبیر کرنا چاہیے۔ تجویز یہ ہوئی کہ دست بدست جنگ میں ہماری ساری فوج بھی اس شیرِ حق سے مقابلہ نہیں کرسکتی، بجز اس کے کوئی صورت نہیں ہے کہ ہر چہار طرف سے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تیروں کا مینہ برسایا جائے اور جب خوب زخمی ہوچکیں تو نیزوں کے حملوں سے تن نازنین کو مجروح کیاجائے۔ تیراندازوں کی جماعتیں ہر طرف سے گھر آئیں اور امامِ تشنہ کام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گردابِ بلامیں گھیر کر تیر برسانے شروع کر دئیے، گھوڑا اِس قدر زخمی ہوگیا کہ اس میں کام کرنے کی قوت نہ رہی ناچار حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک جگہ ٹھہرنا پڑا، ہرطرف سے تیرآرہے ہیں اور امام مظلو م کا تنِ ناز پرورنشانہ بناہوا ہے، نورانی جسم زخموں سے چکنا چور اور لہولہان ہورہاہے،بے شرم کوفیوں نے سنگدلی سے محترم مہمان کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ ایک تیر پیشانی اقدس پر لگایہ پیشانی مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بوسہ گاہ تھی، یہ سیمائے نور حبیب خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آرزومندانِ جمال کا قرارِ دل ہے۔ بے ادبانِ کوفہ نے اس پیشانیٔ مُصَفّا اور اس جبینِ پُر ضِیا کو تیر سے گھائل کیا، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چکرآگیا اور گھوڑے سے نیچے آئے اب نامردانِ سیاہ باطن نے نیزوں پر رکھ لیا، نورانی پیکر خون میں نہا گیا اور آپ شہید ہوکر زمین پر گر پڑے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ظالمانِ بدکیش نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اورحضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مصیبتوں کا اسی پر خاتمہ نہیں ہوگیا۔ دشمنا نِ ایمان نے سرِمبارک کوتنِ اقدس سے جدا کرنا چاہا اور نضرابن خرشہ اس ناپاک ارادہ سے آگے بڑھا مگر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہیبت سے اس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار چھوٹ پڑی۔ خولی ابن یزید پلید نے یاشبل ابن یزید نے بڑھ کر آپ کے سرِ اقدس کو تنِ مبارک سے جدا کیا۔ (1)
ٍ صادق جانباز نے عہدِ وفا پورا کیااور دین حق پر قائم رہ کر اپنا کنبہ ، اپنی جان راہِ خدا میں اس اولوالعزمی سے نذر کی، سوکھا گلا کاٹا گیا اور کربلا کی زمین سید ا لشہداء کے خون سے گلزار بنی، سروتن کو خاک میں ملا کر اپنے جد کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دین کی حقانیت کی عملی شہادت دی اور ریگستانِ کوفہ کے ورق پر صدق و امانت پر جان قربان کرنے کے نقوش ثبت فرمائے۔
اَعْلَی اللہُ تَعَالٰی مَکَانَہٗ وَاَسْکَنَہٗ بُحْبُوْحَۃَ جِنَانِہٖ وَاَمْطَرَ عَلَیْہِ شَاٰبِیْبَ رَحْمَتِہٖ وَرِضْوَانِہٖ
کربلا کے بیابان میں ظلم و جفا کی آندھی چلی، مصطفائی چمن کے غنچہ و گل باد سموم کی نظر ہوگئے، خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لہلہاتا باغ دوپہر میں کاٹ ڈالاگیا، کونین کے متاع بے دینی و بے حمیتی کے سیلاب سے غارت ہوگئے، فرزندانِ آلِ رسول کے سر سے سردار کا سایہ اٹھا،بچے اس غریبُ الوطنی میں یتیم ہوئے، بیبیاں بیوہ ہوئیں، مظلوم بچے اور بے کس بیبیاں گرفتار کئے گئے۔
محرم1 6ھ کی دسویں تاریخ جمعہ کے روز 56سال 5ماہ 5دن کی عمر میں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دارناپائیدار سے رحلت فرمائی اور داعی اجل کو لبیک کہی۔ ابن
زیاد بد نہاد نے سرِ مبارک کو کوفہ کے کو چہ و بازار میں پھر وایا اور اس طرح اپنی بے حمیتی وبے حیائی کا اظہار کیا پھر حضرت سید الشہداء اور ان کے تمام جانباز شہدا علیہم الرضوان کے سروں کو اسیرانِ اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ شمر ناپاک کی ہمراہی میں یزید کے پاس دمشق بھیجا، یزید نے سرِ مبارک اور اہلِ بیت کو حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ طیبہ بھیجا اوروہاں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرمبارک آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں مدفون ہوا۔(1)
اس واقعۂ ہائلہ سے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جورنج پہنچا اور قلب مبارک کو جو صدمہ ہو ااندازہ اور قیاس سے باہر ہے۔ امام احمدو بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کی ایک روز میں دو پہر کے وقت حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سنبل معنبروگیسوئے معطر بکھرے ہوئے اور غبار آلودہیں، دست مبارک میں ایک خون بھرا شیشہ ہے۔ یہ حال دیکھ کر دل بے چین ہوگیا، میں نے عرض کیا :اے آقا! قربانت شوم یہ کیا حال ہے؟ فرمایا حسین اور ان کے رفیقوں علیہم الرضوان کا خون ہے، میں اسے آج صبح سے اٹھاتا رہا ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اس تاریخ و وقت کو یاد رکھا
جب خبر ا ۤئی تو معلوم ہوا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت شہید کیے گئے۔(1)
حاکم نے بیہقی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث روایت کی۔ انہوں نے بھی اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو خواب میں دیکھاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سرِمبارک و ریشِ اقدس پر گَرْدو غُبار ہے، عرض کیا :جان ماکنیزان نثار تو باد۔ یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمیہ کیا حال ہے؟ فرمایا: ابھی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقتل میں گیا تھا۔(2)
بیہقی وابو نعیم نے بصر ہ ازدیہ سے روایت کی کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کیے گئے تو آسمان سے خون برسا۔ صبح کو ہمارے مٹکے، گھڑے اور تمام برتن خون سے بھرے ہوئے تھے۔(3)
بیہقی وابو نعیم نے زہری سے روایت کی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس روز شہید کئے گئے اس روز بیت المقدس میں جو پتھر اٹھا یا جاتا تھا اس کے نیچے تازہ خون پایا جاتا تھا۔(4)
بیہقی نے امِ حبان سے روایت کی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دن اندھیرا ہوگیا اور تین روزکامل اندھیرا رہا اورجس شخص نے منہ پر زعفران (غازہ )ملااس کا منہ جل گیا اور بیت المقدس کے پتھروں کے نیچے تازہ خون پایا گیا۔(1)
بیہقی نے حمید بن مرہ سے روایت کی کہ یزید کے لشکریوں نے لشکر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ایک اونٹ پایااور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے روز اس کو ذبح کیا اور پکایا تو اندراین کی طرح کڑواہوگیااور اس کو کوئی نہ کھا سکا۔(2)
ابو نعیم نے سفیان سے روایت کی وہ کہتے ہیں کہ مجھ کو میری دادی نے خبر دی کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے دن میں نے دیکھا دَرْس (کُسُم) راکھ ہوگیا اور گوشت آگ ہوگیا۔(3)
بیہقی نے علی بن مسہرسے روایت کی کہ میں نے اپنی دادی سے سنا وہ کہتی تھیں کہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے زمانہ میں جوان لڑکی تھی، کئی روز آسمان رویا، یعنی آسمان سے خون برسا۔(4) بعض مؤرخین نے کہا ہے کہ سات روز تک آسمان خون رویا، اس کے اثر سے دیواریں اور عمارتیں رنگین ہوگئیں او ر جو کپڑا اس سے
رنگین ہوا اس کی سرخی پرزے پرزے ہونے تک نہ گئی۔(1)
ابو نعیم نے حبیب بن ابی ثابت سے روایت کی کہ میں نے جنوں کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس طرح نوحہ خوانی کرتے سنا:
مَسَحَ النَّبِیُّ جَبِیْنَہٗ
فَلَہٗ بَرِیْقٌ فِی الْخُدُوْد
اس جبین کو نبی نے چوما تھا
ہے وہی نور اس کے چہرہ پر
ابَوَاہُ مِنْ عُلْیَاء قُرَیْشٍ
جَدُّہٗ خَیْرُ الجُدُوْدِ
(2)
اس کے ماں باپ برترین قریش
اس کے نانا جہان سے بہتر
ابو نعیم نے حبیب بن ثابت سے روایت کی کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ میں نے حضورسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سے سوائے آج کبھی جنوں کو نوحہ کرتے اور روتے نہ سنا تھا مگر آج سنا تو میں نے جانا کہ میرا فرزند حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوگیا،میں نے اپنی لونڈی کوباہر بھیج کر خبرمنگائی تو معلوم ہوا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے جن اس نوحہ کے ساتھ زاری کرتے تھے:
اَلَا یَاعَیْنُ فَاحْتَفَلِیْ بِجُھْدٍ
ہوسکے جتنا رولے تو اے چشم!
وَمَنْ یَبْکِیْ عَلَی الشُّھَدَاءِ بَعْدِیْ
کون روئے گا پھر شہیدوں کو
عَلٰی رَھْطٍ تَقُوْدُھُمُ الْمَنَایَا
پاس ظالم کے کھینچ کر لائی
اِلٰی مُتَجَبْرٍ فِیْ مَلْکِ عَھْدِیْ (3)
موت ان بیکسوں غریبوں کو
ابن عساکرنے منہال بن عمرو سے روایت کی وہ کہتے ہیں: واللہ! میں نے بچشمِ خود دیکھا کہ جب سر مبارک امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگ نیزے پر لئے جاتے تھے اس وقت میں دمشق میں تھا، سرمبارک کے سامنے ایک شخص سورۂ کہف پڑھ رہا تھا جب وہ اس آیت پر پہنچا:
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿۹﴾ (1)
اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے عجب تھے۔
اس وقت اللہ تعالیٰ نے سرمبارک کو گویائی دی، بزبانِ فصیح فرمایا:
اَعْجَبُ مِنْ اَصْحٰبِ الْکَھْفِ قَتْلِیْ وَحَمْلِیْ۔(2) ”
اصحاب کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کولیے پھر نا عجیب تر ہے ۔”اوردر حقیقت بات یہی ہے کیونکہ اصحاب کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انکے جد کی امت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بے وفائی سے پانی تک بند کردیا ،آل و اصحاب کو حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے شہید کیا،پھر خود حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا، اہل بیت علیہم الرضوان کو اسیر کیا، سر مبارک شہر شہر پھرایا۔ اصحاب کہف سالہاسال کی طویل خواب کے بعد بولے، یہ ضرور عجیب ہے مگر سرِ مبارک کا تن سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا اس سے عجیب تر ہے۔
ابو نعیم نے بطریق ابن لہیعہ، ابی قبیل سے روایت کی کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب بدنصیب کوفی سرِ مبارک کو لے کر چلے اور پہلی منزل میں ایک پڑاؤ پر بیٹھ کر شربت خرما پینے لگے اس وقت ایک لوہے کا قلم نمودار ہوا اس نے خون سے
یہ شعر لکھا ؎
اَ تَرْجُو اُمَّۃٌ قَتَلَتْ حُسَیْنًا
شَفَاعَۃَ جَدِّہٖ یَوْمَ الْحِسَابِ
(1)
یہ بھی منقول ہے کہ ایک منزل میں جب اس قافلہ نے قیام کیا وہاں ایک دَیْر تھا۔ دیر کے راہب نے ان لوگوں کو اسّی ہزاردرہم دے کر سرِمبارک کو ایک شب اپنے پاس رکھا۔ غسل دیا، عطر لگایا، ادب و تعظیم کے ساتھ تمام شب زیارت کرتااور روتا رہا اور رحمتِ الٰہی عزوجل کے جوانوار سرِ مبارک پر نازل ہورہے تھے ان کا مشاہدہ کرتارہا حتیٰ کہ یہی اس کے اسلام کا باعث ہو ا۔اشقیا نے جب دراہم تقسیم کرنے کے لیے تھیلیوں کو کھولا تو دیکھا سب میں ٹھیکریاں بھری ہوئیں ہیں اور ان کے ایک طرف لکھا ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (2)
خدا کو ظالموں کے کردار سے غافل نہ جانو۔
اور دوسری طرف یہ آیت مکتوب ہے:
وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۲۲۷﴾٪
(3)
اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ کس کروٹ بیٹھے ہیں(4)
غرض زمین و آسمان میں ایک ماتم برپاتھا۔ تمام دنیا رنج و غم میں گرفتار تھی، شہادتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دن آفتاب کو گرہن لگا، ایسی تاریکی ہوئی کہ دو پہر میں تارے نظر آنے لگے، آسمان رویا، زمین روئی ، ہوا میں جنات نے نوحہ خوانی کی، راہب
تک اس حادثہ قیامت نما سے کانپ گئے اور روپڑے۔ فرزندِرسو ل، جگر گوشۂ بتول، سردارِ قریش امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِ مبارک ابن زیاد متکبر کے سامنے تشت میں رکھا جائے اور وہ فرعون کی طرح مسند تکبر پر بیٹھے ، اہل بیت علیہم الرضوان اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھیں ، ان کے دلوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ پھر سرمبارک اور تمام شہداء کے سروں کو شہر شہر نیزوں پر پھرایا جائے اور وہ یزید پلید کے سامنے لاکر اسی طرح رکھے جائیں اور وہ خوش ہو، اس کو کون برداشت کرسکتاہے۔ یزید کی رعایا بھی بگڑ گئی اور ان سے یہ نہ دیکھا گیا، اس پر اس نابکارنے اظہارِندامت کیا مگر یہ ندامت اپنی جماعت کو قبضہ میں رکھنے کیلئے تھی، دل تو اس ناپاک کا اہلِ بیت کرام کے عناد سے بھرا ہواتھا۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اورآپ نے اور آپ کے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر ورضا کا وہ امتحان دیا جو دنیا کو حیرت میں ڈالتاہے۔ راہِ حق میں و ہ مصیبتیں اٹھائیں جن کے تصور سے دل کانپ جاتاہے۔ یہ کمال شہادت و جانبازی ہے اور اس میں امتِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیلئے حق و صداقت پر استقامت و استقلال کی بہترین تعلیم ہے۔(1)
1۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم) ، باب نہم، ج۲، ص۳۴۱۔۳۴۴ ملخصاً
1۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم) ، باب نہم، ج۲، ص۳۴۴۔۳۴۵ ملخصاً
1۔۔۔۔۔۔الکامل فی التاریخ، سنۃ احدی وستین، مقتل آل بنی ابی طالب…الخ،ج۳، ص۴۴۲
وسیر اعلام النبلاء، ومن صغار الصحابۃ، الحسین الشہید…الخ، ج۴، ص۴۲۹
وروضۃ الشہداء (مترجم) ، دسواں باب، فصل اول، ج۲، ص۳۸۰۔۴۴۰ ملخصاً
والبدایۃ والنہایۃ، سنۃ احدی وستین، فصل فی یوم مقتل الحسین رضی اللہ تعالٰی عنہ،
ج۵، ص۷۱۲
1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن العباس…الخ، الحدیث:۲۵۵۳،
ج۱، ص۶۰۶
2۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب من رأی فی منامہ…الخ، باب ما جاء فی رؤیۃ النبی
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی المنام، ج۷، ص۴۸
3۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالکوائن…الخ،
باب ما روی فی اخبارہ بقتل ابن ابنتہ ابی عبد اللہ الحسین…الخ، ج۶، ص۴۷۱
والصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت…الخ، الفصل الثالث،ص۱۹۴
4۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالکوائن…الخ،
باب ما روی فی اخبارہ بقتل ابن ابنتہ ابی عبد اللہ الحسین…الخ، ج۶، ص۴۷۱
1۔۔۔۔۔۔البدایۃ والنہایۃ، سنۃ احدی وستین، فصل فی یوم مقتل الحسین رضی اللہ عنہ،ج۵،
ص۷۱۰ ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالکوائن…الخ،
باب ما روی فی اخبارہ بقتل ابن ابنتہ ابی عبد اللہ الحسین…الخ، ج۶، ص۴۷۲
3۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالکوائن…الخ،
باب ما روی فی اخبارہ بقتل ابن ابنتہ ابی عبد اللہ الحسین…الخ، ج۶، ص۴۷۲
4۔۔۔۔۔۔دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالکوائن…الخ،
باب ما روی فی اخبارہ بقتل ابن ابنتہ ابی عبد اللہ الحسین…الخ، ج۶، ص۴۷۲
1۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت…الخ، الفصل الثالث، ص۱۹۴
2۔۔۔۔۔۔معرفۃ الصحابۃ، باب الحائ، ۵۶۱۔من اسمہ ابو عبد اللہ الحسین بن علی …الخ ،
الحدیث:۱۸۰۳، ج۲، ص۱۳
3۔۔۔۔۔۔مجمع الزوائد، کتاب المناقب، باب مناقب الحسین بن علی، الحدیث:۱۵۱۸۱،
ج۹، ص۳۲۱
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان:کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔
(پ۱۵، الکہف:۹)
2۔۔۔۔۔۔فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، باب حرف الہمزۃ، ج۱، ص۲۶۵
1۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی، مسند الحسین بن علی…الخ، الحدیث:۲۸۷۳، ج۳، ص۱۲۳
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان:اور ہرگزاللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳،ابرٰہیم:۴۲)
3۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان:اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ (پ۱۹، الشعرآئ:۲۲۷)
4۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت…الخ، الفصل الثالث، ص۱۹۹
1۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت…الخ، الفصل الثالث،
ص۱۹۰۔۲۰۸ ملخصاً