عقائد

جوابِ مولوی شمس العلماء شبلی صاحب

جوابِ مولوی شمس العلماء شبلی صاحب

اب ہم چند اقوال شمس العلماء صاحب کے سیرۃ النعمان سے نقل کرتے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ ہمارے امام صاحب کی طرفداری کے جوش میں فن حدیث اور محدثین پر انہوں نے حملے کئے ہیں ، شاید بعض احناف اِس سے خوش ہوگئے ہوں گے ۔ مگر میں اِس خیال کے بالکل مخالف ہوں ہمیں اتنے تعصب کی ضرورت نہیں کہ جن حضرات نے قوم پر اعلیٰ درجہ کا احسان کیا ہو اُن کو برائی سے یاد کریں اور اُن کی نکتہ چینیاں کر کے معاذ اللہ اُن کو رسوا کریں اور علاوہ اُس کے اگر حدیث ہی بے اعتبار ہو جائے گی تو فقہ بطریق اولیٰ بے اعتبار ہوجائیگی ۔ اِس لئے کہ فقہ کا دارومدار حدیث پر ہے ، کسی حنفی کا یہ خیال نہیں کہ امام صاحب ایک عقلمند مقنن شخص تھے ، اپنی عقل کی رہبری سے قاعدے ایجاد کرتے ، اور مسائل تراشتے تھے ۔ چنانچہ خود شمس العلماء صاحب نے سیرۃ النعمان میں چند دلائل و قرائن سے ثابت کیا ہے کہ امام صاحب اعلیٰ درجہ کے محدث تھے اور حدیث کو قیاس پر مقدم کیا کرتے تھے ۔
قولہ ص ۱۵۱ :زبانی روایت سے گذر کر تحریروں میں جعل شروع ہوگیا تھا مسلم نے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہکے فیصلہ کی نقل لے رہے تھے بیچ میں الفاظ چھوڑتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ واللہ علی نے ہرگز یہ فیصلہ نہیںکیا ہوگا ۔ اسی طرح ایک اور دفعہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے حضرت علی رضی اللہ عنہکی ایک تحریر دیکھی تو تھوڑے سے الفاظ کے سوا باقی سب عبارت مٹا دی ۔
یہ بات پوشیدہ نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے شیعہ اور اعداء میں افراط و تفریط بہت کچھ ہوئی ۔ روافض،

خوارج کی ابتداء اسی وقت سے ہوئی مگر دونوں جماعتیں الگ الگ اور اہل سنت اُن سے ممتاز رہے ۔ کسی نے اُن کو اپنا استاد بنا کر اُن سے روایتیں اُس وقت نہیں لیں کیونکہ صحابہ اور اکابر تابعین کے ہوتے اُ،ن سے روایت کرنے کی ضرورت ہی کیا؟ دیکھئے جہاں مسلم شریف میں ابن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت مذکورہ لکھی ہے ، اُسی کے متصل یہ دو روایتیں بھی لکھی ہیں ، ایک یہ ہے ’’لما احدثوا تلک الاشیاء بعد علی علیہ السلام قال رجل من اصحاب علی قاتلھم اللہ بای علم افسدوا ‘‘ یعنی شیعہ نے جب نئی نئی باتیں بنائیں تو علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا: خدا اُن کو غارت کرے کیسے اعلیٰ درجہ کے علم کو انہوں نے تباہ کر دیا ۔ اِس سے ظاہر ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے اصحاب اُس وقت ممتاز تھے اور جانتے تھے کہ شیعہ نے آپ کے علوم و احادیث میں جعلسازیاں کی ہیں ، اس وجہ سے کوئی روایت اُن سے نہیں کرتے تھے ۔
دوسری حدیث مسلم شریف میں یہ ہے کہ جس کا ترجمہ یہاں لکھا جاتا ہے ۔ مغیرہ کہتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ کی وہی روایت قابل تصدیق سمجھی جاتی تھی جو اصحاب عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہکے ذریعہ سے پہونچے ۔ انتہی ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ شیعہ ، اہل سنت و جماعت سے خارج تھے اور اُن کی روایتیں نہیں لی جاتی تھیں ۔ الحاصل گو اس زمانہ میں جعل شروع ہوگیا تھا ۔ مگر بفضلہ تعالیٰ ہمارے محدثین نے جعلسازوں کو ایسے پھٹکار کر رکھا تھا کہ اُن کی کوئی جعلی بات اُن کے پاس نہ آسکے ۔
قولہ(۱) ص ۱۵۱ :لوگوں کو وضع حدیث کی زیادہ جرأت اِس وجہ سے ہوتی تھی کہ اِس وقت تک اسناد و روایت کا طریقہ جاری نہیں ہوا تھا جو شخص چاہتا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکہد یتا تھا اور اثبات سند کے مواخذہ سے بری رہتا تھا ۔ ترمذی نے کتاب العلل میں امام ابن سیرین ؒسے روایت کی ہے کہ پہلے زمانہ میں لوگ اسناد نہیں پوچھا کرتے تھے جب فتنہ پیدا ہوا تو اسناد کی پوچھ گچھ ہوئی تاکہ اہل سنت کی حدیثیںلی جائیں اور اہل
بدعت کی ترک کی جائیں ۔ لیکن حدیث کی بے اعتباری اہل بدعت پر موقوف نہ تھی ۔ اس لئے یہ احتیاط چنداں مفید نہ ہوئی اور غلطیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا انتہی ۔
افسوس ہے اس مقام میں مولوی صاحب محققانہ انداز سے بہت دُور ہوگئے جس سے ناواقف لوگ خیال کرنے لگے کہ ایک زمانہ دراز تک جو شخص چاہتا حدیثیں بنا کر قال رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتا اور اُس کو کوئی نہ پوچھتا کہ فی الواقع وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے یا نہیں، حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اس لئے کہ ابن سیرین ؒ کی ولادت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہے جیسا کہ تذکرۃ الحفاظ میں مصرح ہے جس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے اسناد کے پوچھنے کا زمانہ بھی پایا ہے اور صرف قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکہنے کا بھی ۔ اس لئے کہ صرف قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجس زمانہ میں کہا جاتاتھا وہ صحابہ کا زمانہ ہے جس کا اکثر حصہ انہوں نے پایا ہے۔ چونکہ صحابہ کل عدول ہیں اُن کی کوئی خبر غلط نہیں ہوسکتی اور جس قدر تابعین کے زمانہ میں رہ گئے تھے ، وہ ممتاز تھے اور ہر شخص جانتا تھا کہ یہ صحابی ہیں جب وہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تو اُن کی صحابیت خود ایک اعلی درجہ کی سند تھی جس کے مقابلہ میں سند کا مطالبہ کمال درجہ کی گستاخی تھی ۔ پھر صحابہ ہی کے زمانہ میں جب فتنہ پیدا ہوا اور مفسدوں نے تقلیداً قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا شروع کیا تو اُن کا خود یہ کہنا باعث مواخذہ ہوا کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ صحابی نہیں بلکہ اُن کا سن وسال خود گواہی دیتا تھا کہ اُنہوں نے وہ حدیث بنالی ہے یا کسی سے سنکر کہا اس لئے اُن سے اسناد کا مواخذہ کیا جاتا اور اُن کا مجرد قول قابل توجہ نہیں سمجھا جا تا تھا ۔ جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ بشر عدوی نے جب حدیث پڑھی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اُس کی طرف التفات بھی نہیں کیا اور یہ انتظام ہوگیا کہ وہی

روایتیں لی جائیں جو اہل سنت کے ذریعہ سے پہونچیں جیسا کہ علی کرم اللہ وجہہ کی وہی روایتیں لی جاتی تھیں جو اصحاب ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے پہونچتیں اور اہل بدعت سے حدیث تو کیا ، قرآن بھی نہیں سنا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابن سیرینؒ کی روایت سے ابھی معلوم ہوا ۔ اب بتائیے ایسا کونسا زمانہ آیا کہ ہر بدعتی اور جلعساز قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہد یتا اور اُس کی روایتیں خوش اعتقاد سنکرشائع کر دیتے ۔
مولوی صاحب(۱) نے ابن سیرین ؒ کے قول کو نہیں سمجھا ۔ انہوں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ پہلے زمانہ میں صحابی ہو یا غیر صحابی ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہدیتا اور اُس کی روایت مقبول اور مشہور ہو جاتی تھی ۔ اُن کے قول کا صحیح مطلب وہی ہے ، جو ہم نے لکھا ہے جس پر تاریخی شہادت بھی موجود ہے۔
اب غور کیجئے کہ مولوی صاحب جو کہہ رہے ہیں کہ ( حدیث کی بے اعتباری ، اہل بدعت پر موقوف نہ تھی یعنی پہلے ہی سے ہوچکی تھی اور غلطیوں کا سلسلہ جا ری رہا ) کیسی سخت غلطی ہے جس کی کوئی اصل نہیں ۔
ابن سیرینؒ کا قول جو مولوی صاحب نے نقل کیا ہے اُس کی اصل عبارت یہ ہے ۔ فلما وقعت الفتنۃ سألوا عن الاسناد لکی یاخذوا حدیث اہل السنۃ و یدعواحدیث اہل البدع ۔
معلوم نہیں مولوی صاحب نے سالوا کا ترجمہ (کچھ پوچھ ہوئی) کس قرینہ سے کیا ہے ۔ ابن سیرینؒ کا مقصود تو یہ ہے کہ اِس غرض سے (کہ حدیثیں صرف اہل سنت کی لیں اور اہل بدعت کی چھوڑدیں ) اسناد کو پوچھنے لگے اِس قرینہ سے تو صاف ظاہر ہے کہ اسناد کی تحقیق میں نہایت اہتمام اور کوشش کی جاتی تھی تاکہ غرض حاصل ہو نہ یہ کہ سرسری طورپر تبرکاً کچھ پوچھ لیتے۔
قولہ(۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت شروع ہی سے پرآشوب رہی ۔ ان اختلافات اور فتن کے ساتھ وضع احادیث کی ابتدا ہوئی اور اگرچہ کثرت اور انتشار زیادہ تر زمانۂ مابعد میں ہوا۔ لیکن خود صحابہ کے عہد میں اہل بدعت نے سینکڑوں ہزاروں حدیثیں ایجاد کرلیں تھیں انتہی۔
یہ وہی بات ہے جو ابن سیرینؒ نے کہی تھی کہ فتنہ کے زمانہ سے اسناد کی تحقیق شروع ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ صحابہ ہی کے عہد میں اہل بدعت نے حدیثیں بنانی شروع کر دی تھیں ۔ مگر اُس سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہونچا ۔ اِس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نئے خیالات اور نئی باتیں دین میں ایجاد کرنے اور اُن کو رواج دینے سے ہمیشہ منع فرمایا کئے چنانچہ کتب حدیث پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ اس باب میں کس کثرت سے روایتیں وارد ہیں ۔ منجملہ اُن کے چند ارشاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں لکھے جاتے ہیں ۔ ’’ شر الامور محدثاتھا و کل بدعۃ ضلالۃ ‘‘یعنی تمام کاموں میںبدتر محدثات ہیں یعنی نئی نئی باتیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
’’من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد‘‘ یعنی جو کوئی ہمارے دین میں ایسی بات ایجاد کرے جو اُس میں نہیں سو وہ مردود ہے ۔
من یعش منکم بعدی فسیری اختلافاً کثیرًا فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ ‘‘ یعنی جو کوئی تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا ۔ بہت اختلاف دیکھے گا تو تم کو لازم ہے کہ میرے طریقہ کو اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو خوب مضبوط پکڑو ۔ اتبعوا السواد الاعظم من شذ شذ فی النار یعنی بڑی جماعت کے پیرور ہو جو اس سے علٰحدہ ہوگیا وہ دوزخی ہے ۔
’’ان الشیطان ذئب الانسان کذئب الغنم یاخذ الشاذۃ القاصیۃ والناحیۃ و
ایاکم و الشعاب و علیکم بالجماعۃ والعامۃ ‘‘یعنی شیطان آدمیوں کا بھیڑیا ہے جس طرح سب سے الگ چرنے والی بکری کو بھیڑیا لے جاتا ہے ، اسی طرح مسلمانوں سے علحدہ ہوجانے والے کو شیطان ہلاک کرتا ہے تو تم کو لازم ہے جماعت کو نہ چھوڑو ۔ ’’ من وقّر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ‘‘ یعنی جو کوئی بدعت والے شخص کی توقیر کرے تو اُس نے اسلام کے ڈھانے پر مدد کی ۔
’’من فارق الجماعۃ شبرًا فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ ‘‘یعنی جو کوئی جماعت سے ایک بالشت بھر دور ہوجائے اُس نے ربقۃ الاسلام کو اپنی گردن سے نکالدیا ۔ اِن کے سوا اور روایتیں بھی بکثرت ہیں جن کو سب صحابہ خوب جانتے تھے اور امتثال امر نبوی میں صحابہ جس قدر مستعد اور سرگرم اور راسخ قدم تھے ہر شخص جانتا ہے کہ وہ حضرات صرف اشارہ پر جان دینے کو سعادت ابدی سمجھتے تھے ۔ پھر جب صراحۃً ہمیشہ بدعت کے قلع و قمع کا ارشاد فرمایا کئے تو غور کیا جائے کہ اہل بدعت کے ساتھ اُن کا معاملہ کس قسم کا ہوگا ۔ کیا وہ اس بات کو گوارا کرسکتے تھے کہ کسی بدعتی کو منصب روایت کی توقیر حاصل ہو جس سے اسلام کے منہدم کرنے والوں میں نام لکھا جائے ۔
ابن سبا ‘جو اصل میں یہودی تھا اُس نے مسلمانوں میں شامل ہو کر بحیلہ محبت اہل بیت ، تشیع کی بنیاد ڈالی ، اور سچی جھوٹی حدیثوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت کو شیخین رضی اللہ عنہما پربیان کرنا شروع کیا ۔ آپ کو وہ سخت ناگوار ہوا اور فرمایا کہ جو شخص مجھ کو شیخین پرفضیلت دے اُس کو افترا ء کی حد ، اسی دُرّے مارونگا ، اسی طرح اور بہت سی نئی نئی باتیں ایجاد کر کے خفیہ تعلیم سے ایک گروہ اپنا ہم خیال بنالیا ۔ جب آپ کو اطلاع ہوئی تو اُس گروہ کو مع ابن سباجلا وطن کر دیا جیسا مولانا شاہ عبدالعزیزؒ نے تحفہ میں اس گروہ کا حال مفصّل لکھا ہے ۔
غور کیجئے ایسا گروہ جو محبت کا دم بھرتا اور جان نثاری کو اپنی سعادت سمجھتا تھا ، اُس کو صرف نئے خیالات اور بدعتوں کی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جلا وطن کر دیا تو اور بدعتیوں کے ساتھ آپ کا اور دوسرے صحابہ کا کیا حال ہوگا ۔ جب مجلسوں میں اہل بدعت کا ذلیل ہونا اور جلا وطنی کی سزا پانی شہرۂ آفاق ہوئی ہوگی تو ایسا کون بیوقوف ہوگا جو اُن سے حدیثیں لے کر دائمی رسوائی حاصل کرے ؟ہاں نو خیز ، ضعیف الایمان ، جدت پسند طبائع اُن کے ابلہ فریبوں کے دام میں آجاتے تھے جس سے مذاہب باطلہ کے گروہ بن گئے جس طرح اس زمانہ میں قادیانی وغیرہ مذاہب باطلہ کا شیوع ہو رہا ہے مگر یہ بات مشاہد ہے کہ اُن کے خیالات اور بنائی ہوئی باتیں اہل حق ہرگز قبول نہیں کرتے یہی حال اُس زمانہ میں تمام جعل سازوں کا تھا اور اگر دھوکہ دے کر کوئی جعلساز موضوع حدیثیں بیان کر دیتا تو اس سے سند پوچھی جاتی جس کی تحقیق ہونے پر وہ رسوا ہوتا جیساکہ ابن سیرین ؒ کے قول سے مستفاد ہے ۔
الحاصل صحابہ کے زمانہ میں اہل بدعت کا موضوع حدیثیں بنانا ، اسلام کے حق میں مضر نہ ہوا بلکہ اہل بدعت کی قلعی کھل گئی اور اُن کی روایتیں اور خیالات انہیں فرقوں میں محدود رہے ورنہ اُن کے بعد طوفان بے تمیزی اور خلط و ملط کے زمانہ میں اگر اُن کے موضوعات پیش ہوتے تو اُن کی پوری کامیابی ہوجاتی اور احادیث صحیحہ اور موضوعہ میں کوئی امتیاز نہ رہتا ۔
قولہ(۱): غرض تمام ممالک اسلامیہ میں گھر گھر حدیث و روایت کے چرچے پھیل گئے اور سینکڑوں ،ہزاروں درسگاہیں قائم ہوگئیں ۔ لیکن جس قدر اشاعت کو وسعت حاصل ہوتی جاتی تھی ، اعتماد اور صحت کا معیار کم ہوتا جا تا تھا ۔ ارباب روایت کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ اُس میں مختلف خیال ، مختلف عادات ، مختلف عقائد ، مختلف قوم کے لوگ شامل تھے ۔ اہل بدعت جابجا پھیل گئے تھے اور اپنے مسائل کی ترویج میں مصروف تھے سب سے زیادہ یہ کہ پوری
ایک صدی گزر جانے پر بھی کتابت کا طریقہ مروج نہیں ہوا تھا ۔ ان اسباب سے روایتوں میں اس قدر بے احتیاطیاں ہوئیں کہ موضوعات اور اغالیط کا ایک دفتر بے پایاںتیار ہوگیا ۔ یہا ںتک کہ امام بخاریؒ نے اپنے زمانہ میں صحیح صحیح حدیثوں کو جدا کرنا چاہا تو کئی لاکھ میں سے انتخاب کر کے جامع صحیح لکھی، جس میں کل ۷۳۹۷ حدیثیں ہیں ۔ اُس میں سبھی مکررات نکال ڈالی جائیں تو صرف ۲۷۶۱ حدیثیں باقی رہتی ہیں انتہی ۔
یہ دُرست ہے کہ اہل بدعت اپنے مسائل کی ترویج میں مصروف ہوئے جس طرح ہمارے زمانہ کے اختراعی مذاہب والے مصروف ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مذاہب حقہ میں اُن کی روایتیں ہرگز نہیں لی جاتی ۔ اختلاف زمانہ کے اعتبار سے اتنا فرق ضروری ہے کہ ہمارے زمانہ کے علماء اُن کی طرف توجہ نہیں کرتے اور چونکہ وہ ابتدائے اسلام کا زمانہ تھا نئی باتیں پرجوش طبائع کوناگوار ہوتی تھیں ، اس لئے اُن کے رد میں زیادہ تر اہتمام ہوتا تھا، بہرحال جس قدر مخالفوں کی کوششیں زیادہ ہوئیں محدثین نے احتیاط اور حفاظت میں زیادہ تر اہتمام کیا جس پر فن رجال گواہی دے رہا ہے ۔

(۱)مولوی شبلی نعمانی کا قول۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!