تذکرۂ امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ
تذکرۂ امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ
حمد ِباری تعالیٰ:
تمام خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے جس نے علماء کے لئے علم کودلیل وثبوت بنایااورانہیں اس کے ذریعے غنی کردیا اگرچہ وہ مال و نسب میں کم ہوں۔اوراسی علم کے ذریعے حضرت سیِّدُنا ادریس عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام جنت سے سرفراز ہوئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں رفعت و بلندی عطا فرمائی اور منتخب فرمایا۔ اسی علم کی طلب میں حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور حضرت سیِّدُنا یوشع بن نون عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام نے پختہ عزم کرکے سفراختیارفرمایایہاں تک سفر میں مشقت اٹھائی ۔ (قرآنِ پاک میں بیان فرمایا:) ”وَ اِذْ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤی اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیۡنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا ﴿۶۰﴾ ترجمۂ کنز الایمان:اور( یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہامیں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں جہاں دو سمندر ملے ہیں یا قرنوں (مدتوں تک) چلا جاؤں۔”(پ۱۵، الکہف: ۶0) (۱)۔۔۔۔۔۔اسی علم کے سبب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کوتمام انسانوں کا باپ بنایا اورفرشتوں کوحکم دیاکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو سجدہ کریں۔تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (یعنی شیطان )نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا(اورلعنت کامستحق ٹھہرا)۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کی اولاد سے مختلف قبیلے اور خاندان بنائے اورتقدیرکا فیصلہ ان پرجاری فرمایا ۔اوراُس نے ہرشئے کے لئے ایک ذریعہ بنایا۔علماء کو اپنی عنایت سے توفیق بخشی تو وہ رغبت و شوق سے خدمتِ علم میں لگ گئے ۔اُس نے انہیں اپنے احکام کی سمجھ اورپہچان عطا فرمائی جس کے ذریعے انہوں نے قدر و منزلت اورمراتب حاصل کئے ۔اس نے انہیں دنیامیں مخلوق کے لئے سرداراورراہنما بنایاجس کے ذریعے انہوں نے بزرگی و اخلاق حاصل کیا۔اس نے ان کے دلوں میں ایسے انوارداخل فرمادئیے جن کی روشنی میں وہ ایسی بعیدباتوں تک پہنچ جاتے ہیں جن تک رسائی مشکل ہو ۔
اس نے انہیں علم کے ذریعے عزت و جلالت اور رُعب وہیبت کا لباس پہنایا تووہ برگزیدہ ومنتخب بندے ہوگئے۔اس نے انہیں اپنے احکام کی حلاوت عطافرمادی لہٰذا انہیں طلب علم کے سفر میں کوئی تھکن نہ ہوئی اورجب وہ قیامت کے دن گروہ در گروہ حاضر ہوں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں کرامت کے تاج پہنائے گااور ان کے لئے یہ نداہوگی: ”اَھْلًا وَّ سَھْلًامَرْحَبًا۔”
مَیں اللہ عَزَّوَجَل کی ایسی حمد کرتا ہوں جسے نجات کاوسیلہ بنا سکوں۔اورمَیں اس کلمہ ”لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ” (یعنی اللہ عَزَّوّجلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں) کی گواہی دیتا ہوں تاکہ خوش کرنے والی عزت و رفعت کا سامان ہوجائے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیدنامحمدمصطفی،احمدمجتبیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَل کے خاص بندے اور رسول ہیں اورجو خاص نبی اور پسندیدہ پیغمبرہیں۔آپ پردرودوسلام ہواورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے آل واصحاب ، ازواج مطہرات اورنیک وپسندیدہ اولادپرہمیشہ رحمت وسلامتی نازل ہوجب تک آسمان بادل ظاہرکرتا رہے اور موسلادھاربارش برساتارہے ۔ (آمین)
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”جن(یعنی خادم ) کا نام یوشع ابن نون ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت وصحبت میں رہتے تھے اور آپ سے علم اخذ کرتے تھے اور آپ کے بعد آپ کے ولئ عہد ہیں۔بحرِ فارس و بحرِ روم جانبِ مشرق میں اورمَجْمَعُ البَحْرَیْن وہ مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کا وعدہ دیا گیا تھا ۔اس لئے آپ نے وہاں پہنچنے کا عزم مصمَّم کیا اور فرمایا کہ میں اپنی سعی جاری رکھوں گا جب تک کہ وہاں پہنچوں۔اگر وہ جگہ دُور ہو (تو مدتوں چلتا رہوں گا)پھر یہ حضرات روٹی اور نمکین بھنی مچھلی زنبیل میں توشہ کے طور پر لے کر روانہ ہوئے۔”